Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Hamari Shaakh Nihal e Gham

Hamari Shaakh Nihal e Gham

جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے آئی ایس پی آر کی بریفنگ کا خیر مقدم کیا ہے۔ بریفنگ میں کہا گیا تھاکہ اب کبھی مارشل لاء نہیں لگے گا اور یہ کہ پارلیمنٹ ہی عوام کی حقیقی نمائندہ ہے۔ جماعت کے امیر نے کہا کہ اس اعلان سے شکوک و شبہات ختم ہو گئے۔

شکوک و شبہات تو واقعی ختم ہو گئے لیکن پارلیمنٹ کے احترام والے اعلان سے کچھ لوگ بہت افسردہ ہیں، بالخصوص ان قابل احترام بلکہ واجب الاحترام احباب کی لیکن جو حالیہ عرصے میں صدارتی آمریت نافذ کرنے کے لیے مہم چلاتے رہے ہیں۔ ان بزرگواروں سے گزارش ہے کہ پرویز مشرف اور حالیہ ساڑھے تین سالہ دور میں ان کے نہال امید پر شگوفوں کی باراتیں اترتی رہیں اور یہ شگوفے ان کی باقی عمر بلکہ ان کی آنے والی اور ان کے بعد بھی آنے والی نسلوں کے لیے کافی ہیں۔

ان کی اپنی زندگی میں بھی بہت ہیں اور آنے والوں کی بھی لیکن اس دوران عوام کی شاخ نہال غم ہری سے ہری اور نہال امید وال شاخ خشک ہوتی گئی۔ پارلیمنٹ کی بالادستی اور اہمیت تسلیم کئے جانے سے آپ حضرات کو جو روحانی صدمہ پہنچا ہے، اس پر ہم آپ سے دلی تعزیت کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی یہ مودبانہ التجا بھی کہ آپ بھی صبر سے کام لیں، اللہ آپ کو مزید صبر دے۔

صدارتی نظام کو اب ماضی مرحوم کا غنچہ ناشگفتہ سمجھئے اور یہ حقیقت مان لیجئے کہ اب جمہویرت ہی ہمارا مقدر ہے۔ آپ کے خیال میں یہ بدبختی ہے تو ٹھیک ہے، ہمیں یہ بدبختی قبول ہے، آپ بھی راضی برضا ہو جائیے۔

٭بلوچستان کے رہنما اختر مینگل نے کہا ہے کہ حکومت نہیں ہم بلوچوں کو حقوق چاہئیں۔ بلوچ بھائیوں کے لیے ابھی تو بظاہر راوی چین لکھتا نظر نہیں آتا لیکن حالات جس سمت جا رہے ہیں لگتا ہے جلد ان کے زخموں پر مرہم رکھنے کا وقت آنے والا ہے۔

فی الحال تو صورتحال اتنی خطر ناک ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکم کے باوجود صدر مملکت بلوچ طلبہ سے ملاقات کی جرات نہیں کر رہے۔ یہ طلبہ جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاج کر رہے تھے، تب ان طلبہ کے خلاف غداری کے مقدمات بنا دیئے گئے تھے۔

کچھ سال پہلے کی بات ہے، موجودہ وزیر اعظم پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے۔ ایک بلوچ رہنما نے جن کے بیٹے کو جبری لاپتہ کرنے کے بعد قتل کردیا گیا تھا، اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کیا۔ پنجاب سے گزرے تو وزیراعلیٰ بہت پریشان تھے اور تب تک پریشان رہے جب تک مذکورہ رہنما پنجاب کی حدود سے نکل نہیں گئے۔

یہ رہنما جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ بعض ٹی وی چینلز پر ان بلوچ رہنما کو محض اس لیے غدار اور را کا ایجنٹ قرار دیا گیا کہ وہ بلوچ بچوں کی جبری گمشدگی کا سلسلہ بند کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔

اب وہ فضا نہیں رہی، حالات بدل بلکہ پگھل رہے ہیں۔ وقت آیا نہیں لیکن آ ہی جائے گا۔ جب بلوچوں کو بھی پاکستانی تسلیم کر لیا جائے گا۔ زبانی نہیں، عملی اقدامات ہوں گے۔ کل تک جہوریت کے حق میں بات کرنا بھارتی ایجنٹی کے مترادف تھا اب نہیں ہے۔

یہ بات نہیں رہی تو وہ بھی نہیں رہے گی۔ اک ذرا صبر کہ فریاد کے دن بالآخر کٹ ہی جائیں گے۔ دن تھوڑے کا دعویٰ اگرچہ فی الحال کرنا ٹھیک نہیں۔

٭امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن میں پی ٹی آئی ایک احتجاجی مظاہرہ کرنے والی ہے، جس کے لیے بینر اور پوسٹر ملک کے ان تمام شہروں میں لگا دیئے گئے ہیں، جہاں پاکستانیوں کی مناسب تعداد آباد ہے۔

ان پوسٹروں پر چلو چلو واشنگٹن چلو کی جلی سرخی انگریزی میں بھی ہے اور اردو میں بھی۔ انگریزی میں ایک ضروری ہدایت نامہ بھی درج ہے کہ کوئی بھی صاحب امریکہ مخالف نعرے بازی نہ کریں۔ تیری آواز مکے اور مدینے، اب اس سے زیادہ اور کیا کہنے!

٭نئے وزیراعظم نے اس بھاشا ڈیم کی تعمیر پھر سے شروع کر دی ہے جس کا آغاز سابق وزیراعظم نوازشریف نے اپنے تاحیات نااہل ہونے سے غالباً ایک سال پہلے کیا تھا۔ پھر ان کی حکومت ختم ہو گئی اور نئی حکومت نے قدرے سست اس منصوبے پر کام جاری رکھا تھا۔

دوستم ظریفیاں البتہ اس دوران بہت مزے کی ہوئیں۔ ایک یہ کہ کام بند کرنے والی حکومت نے دوبارہ اس کا افتتاح کیا اور دوسری یہ کہ اس ڈیم پر کام بند کرنے والی حکومت نے ایک باباجی کو ڈیم کی تعمیر کے فنڈ اکٹھا کرنے کی مہم کا سربراہ بنا دیا۔

ڈیم فنڈ اور بابا سرکار دونوں تب سے لاپتہ ہیں، بہرحال اب تعمیر کا کام شروع ہے، یعنی تعمیر چل نکلی ہے اب دیکھیں کہاں تک پہنچے۔ کوئی اس دوران چاہے تو تلاش گم شدہ بابا جی کا اشتہار دے سکتا ہے۔