انڈونیشیا میں ایک اور مشرقی تیمور بنائے جانے کی راہ ہموار ہو رہی ہے یا کی جا رہی ہے۔ مشرقی تیمور تو پھر بھی ایک بہت چھوٹا سا علاقہ ہے جسے نقشے پر ڈھونڈنا بھی مشکل ہو جاتاہے۔ چار پانچ ہزار مربع میل رقبہ اور آٹھ دس لاکھ آبادی والا ایک ننھا منا سا علاقہ لیکن ممکنہ طور پر اس بار جس علاقے سے انڈونیشیا کو محروم ہونا پڑ سکتا ہے، وہ بہت بڑا ہے۔ لگ بھگ پونے پانچ لاکھ مربع کلو میٹر (پاکستان سے کچھ چھوٹا) رقبے اور بے پناہ قدرتی وسائل، معدنیات اور جنگلی حیات سے مالا مال اس علاقے کا نام مغربی ہوگا۔ نقشے پر انڈونیشیا کے مشرقی سرے پر یہ دنیا کے بڑے جزیروں میں سے ایک ہے۔ بتایا جانے والا رقبہ اس کے مغربی نصف حصے کا ہے جس پر انڈونیشیا نے 1969ء میں قبضہ کیا تھا۔ آدھا مشرقی حصہ پیپوانیو گنی کے نام سے آزاد ملک ہے۔ مغربی نیو گنی کو انڈونیشیا نے دو صوبوں میں بانٹ دیا ہے۔ ایک کا نام پیپوا، دوسرے کا مغربی پیپوا ہے اور یہاں ان دنوں پرتشدد ہنگامے پھوٹ پڑے ہیں۔ 18تاریخ کو مغربی پیپواکے صدر مقام مونوکوری میں ہجوم نے پارلیمنٹ کی عمارت نذر آتش کر دی۔ ہنگاموں اور کریک ڈائون میں بہت سے افراد زخمی اور گرفتار کر لئے گئے ہیں۔
پیپوااور مغربی پیپوامیں علیحدگی کی تحریک بہت "لوپروفائل" کی رہی ہے لیکن اس بار اس کی شدت زیادہ ہے۔ معاملہ اس وقت شروع ہوا جب جاوا کے تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم پیپوی طالب علموں نے مظاہرہ کیا اور صدر وڈوڈاسے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے وعدے پورے کریں، پیپوا کے عوام کو حقوق دیں اور وہاں معاشی ترقی کے لئے اقدامات کریں۔ انڈونیشی پولیس نے ان طلبہ کو ملک سے غداری کے الزام میں گرفتار کر لیا۔ اس کی خبر جیسے ہی پیپوا میں پہنچی۔ وہاں مظاہرے شروع ہو گئے ہیں جس پر انڈونیشی حکومت نے ان دونوں صوبوں (درحقیقت ایک ہی علاقہ) پر اطلاعاتی سنسر لگا دیا اور انٹرنیٹ کاٹ دیا لیکن مظاہرے جاری رہے اور ان کی عالمی کوریج بھی ہو رہی ہے۔ تشویش ناک بات یہ ہے کہ اس بار مظاہرین مشرقی تیمور ہی کی طرز پر آزادی کے لئے ریفرنڈم کا مطالبہ کر رہے ہیں جو اقوام متحدہ کی نگرانی میں ہو۔
پیپوا نسلی طور پر انڈونیشائی اقوام سے الگ علاقہ ہے۔ یہاں مختلف پولی نیشیائی اقوام ہیں جن کو مجموعی طور پر پیپوی نسل کا نام دیا جاتا ہے۔ سوہارتون کے دور میں انڈونیشی بیورو کریسی اعلانیہ کہتی تھی کہ پیپوا میں پتھر کے دور کی گھٹیا نسل آباد ہے، وہاں ترقی کی ضرورت نہیں۔ سوہارتو کے زوال کے بعد جمہوری حکومت آ گئی جو ایسے الفاظ تو استعمال نہیں کرتی لیکن وہاں ترقیاتی کام بھی نہیں کر رہی۔ پیپوا کی اکثریت عیسائی ہے۔ ابتدا میں تو یہ لوگ بت اور ارواح پرست تھے لیکن پھر مسیحی مشنریوں نے تبلیغی کام کیا اور اس 50لاکھ کی آبادی کی اکثریت کو حلقہ بگوش عیسائیت کر لیا۔ پیپوا کی آبادی 40لاکھ ہے اور وہاں 83فیصد مسیحی، 10فیصد مسلمان ہیں۔ مغربی پیپوا کی دس لاکھ آبادی میں 60فیصد عیسائی اور 38فیصد مسلمان ہیں عیسائیوں کی اکثریت پروٹسٹنٹ ہے، باقی کیتھو لک ہیں۔ مشرقی تیمور میں بھی یہی ہوا تھا۔ وہاں عیسائیوں کی اکثریت تھی۔ ایسے علاقے پر توجہ دینا اوربھی ضروری ہو جاتا ہے جہاں نسلی اور مذہبی طور پر عوام کی اکثریت ملک کی مین سٹریم سے الگ ہو لیکن انڈونیشیا نے یہ کام مشرقی تیمور میں کیا نہ پیپوا میں کر رہی ہے۔ ہو سکتا ہے اب اسے خیال آئے۔ پیپوا کے عوام کی اکثریت کو حقوق اور ترقیاتی سہولتیں دے کر مطمئن کرنا اتنا مشکل نہیں لیکن اگر ایسا نہ ہوا تو پھر پتہ ہونا چاہیے کہ امریکہ اور یورپ کے زیر اثر اقوام متحدہ سے اس علاقے کو آزادی دلانا ذرا بھی مشکل نہیں۔ اس کا مظاہرہ مشرقی تیمور میں بھی ہو چکا ہے اور جنوبی سوڈان میں بھی۔
انڈونیشیا سب سے بڑا مسلمان ملک ہے۔ 19لاکھ مربع کلو میٹر رقبے اور 25کروڑ آبادی والے اس ملک کی وجہ سے جنوب مشرقی ایشیا پر اسلام کا رنگ غالب ہے۔ پیپوا سے محرومی کے نتیجے میں انڈونیشیا کی "سٹریٹجک ڈیپتھ" بری طرح کم ہو جائے گی اور اس کی معیشت بھی متاثر ہو گی۔ پیپوا کی بدولت انڈونیشیا، آسٹریلیا کے سر پر بیٹھا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ پیپوا کے بعد مزید مشرقی جزیروں میں بھی ایسی تحریکیں چلوائی جا سکتی ہیں جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں۔ سلاویسی کے علاوہ بورینو کو بھی نشانہ بنایا جا سکتا ہے جو دنیا کا تیسرا بڑا جزیرہ ہے۔ سوا دو کروڑ آبادی کے اس جزیرے میں گو مسلمان اکثریت میں ہیں لیکن یہ بھاری اکثریت نہیں اور نسلی فرق بھی موجود ہے۔
بورینو کا زیادہ تر بلکہ شاید دو تہائی سے بھی زیادہ انڈونیشیا کے پاس ہے جبکہ باقی میں دو صوبے ملایشیا کے ہیں اور ایک ننھا سا ملک برونئی دارالسلام بھی اسی جزیرے کے ایک ذرا سے حصے میں موجود ہے۔ انڈونیشیا کے موجودہ حالات سے عالمی اداروں کو حقوق انسانی کی تنظیموں کی دلچسپی یکایک بڑھ گئی ہے جو خطرے کی گھنٹی ہے۔ بظاہر امید ہے کہ انڈونیشیا کی جمہوری حکومت مسئلے کا فوجی حل نکالنے کی کوشش نہیں کرے گی جس کا یقینی انجام مشرقی تیمور جیسا ہی ہو گا بلکہ صوبے آچے کی طرز پر مذاکرات، مسائل کے حل اور حقوق کی بحالی کے اقدامات کرے گی۔ سوہارتوں کے دور میں آچے تقریباً الگ ہو چکا تھا لیکن پھر نئی حکومت نے سمجھداری دکھائی اورآج کل اس صوبے میں کوئی بے چینی ہے نہ علیحدگی کے جذبات۔