Monday, 25 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Jor Tor Ke Badshah Se Umeeden

Jor Tor Ke Badshah Se Umeeden

کچھ عرصے سے ہمارے دونوں مغربی صوبے دہشت گردی کی لپیٹ میں ہیں اور اب تو کچھ زیادہ ہی لپیٹ میں آئے لگتے ہیں۔ شاید ہی کوئی دن خیر، خیریت کا گزرتا ہو۔ جمعے کو پشاور میں تو حد ہی ہو گئی۔ خودکش بمبار نے آن کی آن میں 60نمازی شہید اور لگ بھگ دوسو زخمی کر دیے۔ ایک بڑے خاندان کے تمام مرد مارے گئے، صرف عورتیں باقی رہ گئیں۔ ان کا والی وارث کون ہو گا۔

دوسرے ملکوں میں "ریاست" ہوا کرتی ہے۔ ہمارے ہاں کا کچھ یقین سے نہیں کہا جا سکتا۔ ایک گھرانے کا ایک ہی بچہ تھا، وہ بھی شہید ہو گیا۔ سانحے کے بعد وزیر داخلہ شیخ رشید نے بروقت ذمہ داری ادا کرتے ہوئے قوم کو بتایا کہ سانحہ غیر ملکی سازش کا نتیجہ ہے۔ ان کا شکریہ، وہ یہ اطلاع نہ دیتے تو قوم اسے اندرونی نالائقی سمجھنے کی غلط فہمی میں مبتلا رہتی۔ فی الواقع وہ باخبر وزیر ہیں، ہر دھماکے کے بعد بتا دیتے ہیں کہ کس نے کرایا!

٭حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا غلغلہ ہے۔ اس سلسلے میں حکومت کے اتحادی چودھری پرویز الٰہی سے سوال کیا گیا تو فرمایا کہ اتنی بڑی ہانڈی چڑھی ہے، کچھ نہ کچھ تو نکلے گا۔ کچھ نہ کچھ سے مراد پرویز الٰہی کی شاید بلکہ غالباً ان کی وزارت اعلیٰ ہے۔ کیونکہ یہی سننے میں آ رہا ہے کہ انہیں دونوں فریقوں کی طرف سے وزیر اعلیٰ بنانے کی پیشکش ہے۔ چودھری صاحب سوچ میں گم ہیں کہ کس کی پیشکش قبول کی جائے۔

یہی وجہ ہے کہ انہوں نے فرمایا، فی الحال ہم تیل اور تیل کی دھار کا معائنہ کر رہے ہیں (الفاظ ہو بہو یہی نہیں تھے، مفہوم البتہ "ہو بہ ہو" یہی تھا)۔ سنا ہے کہ ایک فریق یعنی مسلم لیگ ن نے یہ پیشکش واپس لے لی ہے۔ چودھری صاحب کو جلدی سے فریق دوم کی پیش کش قبول کر لینی چاہیے، ایسا نہ ہو وہ بھی نظرثانی کر لے۔ ایسے موقعوں پر نظرثانی اچھا شگون نہیں ہوا کرتی۔

٭بعض محب وطن تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ چودھری صاحب وزیر اعلیٰ بن گئے تو اپنی مدّت اقتدار میں وہ قاف لیگ کو مضبوط کریں گے، اسے ایک بڑی پارٹی بنا دیں گے اور مسلم لیگ ن کا ووٹ بنک توڑ لیں گے کیونکہ وہ جوڑ توڑ کے بادشاہ ہیں۔ واقعی؟ یہ تو مسلم لیگ کے لئے بڑے خطرے کی بات ہے۔ لیکن یاد آیا، پرویز مشرف کے دور میں قاف لیگ حکمران جماعت تھی۔ پرویزالٰہی پورے پانچ سال پنجاب کے وزیر اعلیٰ رہے۔

بہت ہی طاقتور اور بااختیار وزیر اعلیٰ۔ اوپر پرویز مشرف کی مضبوط چھتر چھائوں تھی۔ پرویز مشرف نے "آزادانہ اور منصفانہ، شفاف انتخابات"میں قاف لیگ کو وفاق میں 160اور پنجاب میں 126سیٹیں دلائیں۔ ق لیگ نے پانچ سال گج وج کے حکومت کی۔ کسی مخالف کو چوں کرنے کی اجازت تھی نہ چاں کرنے کی۔ لیکن مشرف کی چھتری اٹھتے ہی جو الیکشن ہوئے تو پارٹی وفاق اور صوبے، دونوں مقامات پر بری طرح مار کھا گئی۔ زرداری صاحب کی حکومت میں پرویز الٰہی ڈپٹی وزیر اعظم رہے۔ اخبارات اور ٹی وی کے "مزاح گو" انہیں "نکّے وزیر اعظم" کا خطاب دیتے رہے۔ جوڑ توڑ کی خوب سیاست کی لیکن 2013ء میں الیکشن ہوئے تو مسلم لیگ ق کی سیٹیں قومی اسمبلی میں سکڑتے سکڑتے 2رہ گئیں۔ دو یعنی جن کا آدھا ایک ہوتا ہے۔

بہرحال 2018ء کے الیکشن میں سیٹوں میں سوفیصد اضافہ ہو گیا یعنی دو سے بڑھ کر چار ہو گئیں۔ چار جن کا نصف وہ عدد ہوتا ہے جو 2013ء میں برآمد ہوا تھا۔ اب ڈیڑھ سال کی وزارت علیا میں ق لیگ کا جوڑ توڑ کیا رنگ لائے گا جبکہ آتش جو 2002ء میں "جواں " تھا، (خیر، اتنے بھی بوڑھے نہیں ہوئے، عمران خان سے محض سات سال ہی بڑے ہیں)۔ پیپلز پارٹی ان کی زیادہ مدّاح لگتی ہے۔ کیوں نہ انہیں فی الحال سندھ کا وزیر اعلیٰ بنا دیا جائے؟ امیّد پر دنیا قائم ہے۔ چودھری صاحب کو ایک موقع تو ملنا ہی چاہیے۔ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا!

٭الپوس نامی ایک سروے فرم نے صارفین کا اعتمادی سروے جاری کیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ ملکی سمت کو غلط سمجھنے والوں کی تعداد گزشتہ سال کے 73فیصد سے بڑھ کر 80فیصد ہو گئی ہے۔ یعنی تین سال سے سال بہ سال ترقی کی شرح مزید 7فیصد بڑھ گئی۔ اگلے سال کے سروے میں یہ شرح 85یا 87فیصد ہونے کی توقع ہے۔ دوسرے لفظوں میں کہا جا سکتا ہے کہ ایک قسم کا "قومی اتفاق رائے" سمت سے متعلق قائم ہو رہا ہے۔

رہے باقی 15یا 13فیصد تو وہ اپنی رائے نہیں بدلیں گے کہ رائے انہی کی صائب ہے وہ تو چاہیں گے ملک مزید اسی سمت میں جائے۔ درست سمت کیا ہے، یہ طے کرنے کا حق ان 85یا 87فیصدکو بہرحال نہیں دیا جا سکتا۔ عمران خان کے ایک عظیم مدّاح، اسلام آباد میں قائم ایک اتھارٹی کے سبکدوش سربراہ ڈاکٹر اعجاز اکرم صاحب یہ "قول فیصل" دے چکے ہیں کہ تمام فیصلوں کا حق صرف "اشرافیہ" کو ہے۔ اشرافیہ پھر اشرافیہ ہے۔ بھلے وہ 13فیصد ہو یا 15فیصد