Thursday, 07 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Jung Insedad N

Jung Insedad N

بات آئی جے آئی پر کرنا تھی لیکن ایک اخباری سرخی پر نظر ٹک گئی بلکہ اٹک گئی۔ لکھا ہے خان کے غبارے میں ہوا تو خوب بھری گئی لیکن وہ پھربھی الیکشن ہار رہا ہے۔ سوچنا پڑے گا قصور کس کا ہے۔ غبارے کی ساخت میں کوئی کمی رہ گئی کہ ہوا کو روکے نہ رکھ سکا یا پمپنگ میں کوئی فنی خرابی آڑے آ گئی۔ شاید ان دنوں ان کے جلسے جس طرح پے درپے عمل سکڑائو کا شکار ہوتے جا رہے ہیں، اسی کا اثر ہے کہ خود نتھیا گلی والی کارنر میٹنگ میں خان صاحب کے منہ سے یہ معنی خیز تبصرہ نکل گیا کہ الیکشن کے حوالے سے اچھی خبریں نہیں آ رہی ہیں، ضمناً عرض ہے کہ بنی گالہ میں جو مہر بند رپورٹیں جنوبی پنجاب کے حوالے سے آ رہی ہیں ان کا ذکر کل بھی کیا تھا کہ اچھی نہیں ہیں اور آج یعنی اس تحریر کے رقم ہوتے وقت جو مزید اطلاعات مل رہی ہیں، وہ تو اچھی نہ ہونے کے حوالے سے کل کی خبروں سے بھی بڑھ کر ہیں۔ ٭٭٭٭٭آئی جے آئی کی بات یہ ہے کہ بلاول بھٹو زرداری نے مسلسل تیسرے روز بھی اس پر تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ نیا آئی جے آئی بنایا جا رہا ہے، ہم اس سازش کو کامیابی نہیں ہونے دیں گے۔ ان کی بات سے کوئی بحث نہیں۔ آئی جے آئی تو بن رہا ہے اور سب کے سامنے بن رہا ہے لیکن اس آئی جے آئی میں اور پہلے والے آئی جے آئی میں ایک انوکھا فرق ہے۔ پرانا آئی جے آئی1990ء میں بلکہ دو سال پہلے بنا تھا اور یہ الیکشن سے پہلے بنا تھا اب جو آئی جے آئی زیر ولادت ہے، وہ الیکشن کے بعد بنے گا۔ یعنی پارلیمانی انتخابات میں ایک منفرد واقعہ کہ "الائنس" انتخابات کے بعد ہو گا۔ پہلے آئی جے آئی کے بارے میں سب کچھ پتہ ہے۔ لیکن دو سطری خلاصہ یہ ہے کہ اسے اس زمانے کے محکمہ زراعت نے پیپلز پارٹی کا راستہ روکنے پر کھوٹا کرنے کے لیے بنایا تھا۔ اس میں نو جماعتیں تھیں اور محکمہ زراعت کے پسندیدہ غلام مصطفی جتوئی اس کے سربراہ تھے۔ پتھر پر لکیر کھینچنے کی طرح یہ طے ہوا تھا کہ انتخابات جیتنے کے بعد وہی حکومت کے سربراہ یعنی وزیر اعظم ہوں گے لیکن انتخابات کے بعد بات محکمہ زراعت کے ہاتھ سے نکل گئی اور نواز شریف وزیر اعظم بن گئے تب سے آنکھ کی رڑک بنے ہوئے ہیں۔ ٭٭٭٭٭حکومت میں آنے کے بعد آئی جے آئی تحلیل ہوتا گیا۔ کچھ جماعتیں تو محض کاغذی تھیں باقی اتحاد سے الگ ہو گئیں اور آخر میں جو بچا وہ ن کے لاحقے والی مسلم لیگ تھی۔ اور یہ ساری خرابی اسی نون کی ہے۔ یہاں اس نام میں تو ن حرف تہجی ہے۔ لیکن سیاسی حوالہ سے دیکھا جائے تو یہ پرانی اردو والا نون ہے جسے نئی اردو میں نمک اور پنجابی میں لون کہتے ہیں۔ اس نون نے رس ملائی والی اچھی خاصی مزیدار کھیر کو پرہیزی دلیے میں بدل کر رکھ دیا۔ نون سے جان چھڑانے کی جنگ اب یوں الجھی ہے کہ اس مصرعے کی صورت بنی نظر آتی ہے کہ عڈور کو سلجھا رہے ہیں اور سرا ملتا نہیں ٭٭٭٭٭کہتے ہیں، اس "جنگ انسداد نون" نے اتنے بحران پیدا کر دیے ہیں کہ بحرانوں کی نرسری اُگ آئی ہے۔ ذرا دیکھیے ڈالر دو ہی ماہ میں ایک سو تیس روپے سے بھی دو روپے اوپر ہو گیا اور ملک چند لمحوں کے اندر ہی سینکڑوں ارب روپے کا مزید مقروض ہو گیا۔ مہنگائی کا جن اگرچہ بوتل بند تو نہیں ہوا تھالیکن گزشتہ حکومت نے پابہ زنجیر ضرور کر دیا تھا اب ساری زنجیریں مستقل طور پر گاڈزیلا بنتا اور غریب و متوسط آبادی کے ارمانوں کے محل مسمار کرتا پھر رہا ہے۔ آئی ایم ایف والے اس بار پہلے سے کہیں کڑی شرطیں رکھیں گے ان شرائط کی تہہ سے کیا کیا فتنے اچھلیں گے، اندازہ تو لگایا ہی جا سکتا ہے۔ قوم کا جو بھی ہو قومی مفاد کی بہرحال خیر ہی رہے گی۔ خبر ہے کہ ریال کے بعد دوسری بے توقیر ترین کرنسی روپیہ ہو گئی ہے۔ ڈالر میں ہزاروں ریال آتے ہیں "خیر" کا سفر یونہی جاری رہا تو ڈالر کے ہزاروں نہ سہی سینکڑوں روپے تو آ ہی جائیں گے۔ ٭٭٭٭٭بعداز الیکشن بننے والے آئی جے آئی کی تصدیق مزید خود اعلان کردہ ادارہ جاتی ترجمان(کہ بیک وقت ایک سے زیادہ اداروں کے ترجمان ہیں ) شیخ رشید نے بھی کردی ہے۔ فرمایا، الیکشن کے بعد مسلم لیگ ن سے ایک مزید فارورڈ بلاک نکالا جائے گا خبر کی تائید تو ہے ہی، ایک مزید اطلاع ضمنی طور پر اس سے یہ بھی برآمد ہوئی کہ ہر طرف سے سدّ سکندری کھڑی کرنے کے باوجود مسلم لیگ اتنی سیٹیں نکال لے جائے گی کہ مجبوراً ایک اور فارورڈ بلاک بنانا ہی پڑے گا۔ تحریک انصاف کے روحانی ترجمان اور ہر دور کے حاضر سروس حضرات کے مستقل قصیدہ نویس نے البتہ کچھ اور ہی خبر دی ہے فرمایا ہے سیاست کا خانہ خالی ہو چکا اسے دیوپر کرنے والا ہے۔ دیوسے کیا مراد ہے؟ سیاستدان تو نہیں ہو سکتا کہ ان کا خانہ تو خالی ہو گیا چلیے ایسا ہو گیا تو قصیدہ نگار بھی کام سے لگ جائیں گے۔ بالواسطہ طور پر ان کی اس دھمکی آمیز پیش گوئی نما اطلاع کا سب سے بامعنی مطلب تو یہی نکلتا ہے کہ خاں بابا کو گھوڑی چڑھانے کی کوششیں حتمی ناکامی سے ہمکنار ہو رہی ہیں۔ ایسا ہی ہے ایسا نہ ہوتا تو دیو کو کیوں بلاتے۔ قارئین، بے فکر ررہیے۔ مستقل قصیدہ نویس کی خبر میں کوئی خیربت نہیں ہے۔ بس التجائی دعوت نامہ ہے۔ خان بابا کا بیان ایک بار پھر پڑھ لیجیے کہ الیکشن کے بارے میں اچھی خبریں نہیں آ رہیں۔ ٭٭٭٭٭پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ نے فرمایا ہے کہ ہم تمام جماعتوں کے ساتھ برابری کا سلوک کر رہے ہیں عبجا کہتے ہو، سچ کہتے ہو11جولائی سے 13جولائی تک پنجاب بھر میں جو کھڑکی توڑ، سیڑھی لگا آپریشن کیا گیا، وہ اسی برابری کے سلوک کا ہی تو ثبوت تھا۔ اب جو رات گئے بلدیاتی اداروں کے افسر اور دیگر اداروں کے اہلکار سڑکیں ناپتے پھرتے، مسلم لیگ کے سبز پوسٹر فلیکس اتار کر پھاڑ کر پھینکتے پھرتے ہیں وہ بھی اسی برابری کا مظہر ہے۔ ہر روز ایسی ویڈیوز اپ لوڈ ہوتی ہیں ایک ویڈیو میں تو معزز سرکاری اہلکار بنفس نفیس اپنے دست مبارک سے ایک پارٹی بینر آویزاں کرتے دکھائی دے رہا ہے۔ یہ بھی برابری کی تشریح ہے دوسری پارٹیوں کے جلوسوں پر سرکاری اہلکار فائرنگ کرتے امیدواروں کو دھمکاتے ہیں، جیسا کہ اسلام آباد میں مجلس عمل کے جلسے پر ہوا۔ وہ بھی برابری کا شاخسانہ ہے۔ ایس ایچ اوز گلی محلوں کے سربرآوردہ حضرات کو تھانوں میں بلاتے اور انہیں من پسند پارٹی کو ووٹ دینے کا حکم دیتے ہیں۔ حکم عدولی کی صورت میں "ورنہ"کی تفصیل بھی بتاتے ہیں۔ یہ سب برابری ہی تو ہے۔ کوئی جو بھی کہے "ماشٹر جی"نے تاریخ میں اپنا نام "برابر" لکھوا لیا ہے۔