Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Kashmir Par Qureshi Sahab Ki Haq Goi

Kashmir Par Qureshi Sahab Ki Haq Goi

وزیر خارجہ کو جب بھی خطاب کرتے سنا، لکھنؤ کے داستانی نواب صاحب کی یاد آ جاتی۔ اس بار جو سنا تویہ یاد بے تحاشا اور بے ساختہ چلی آئی۔ آزاد کشمیر میں کیا ہی خوب نماز عید ادا کی اور کیا ہی خوب ارشادات ارشاد فرمائے۔ ضمیر اور مافی الضمیر کھول کر رکھ دیا اور معاملہ گویا اللہ کی لاٹھی پر چھوڑ دیا جو بے آواز ہوتی ہے۔ نواب صاحب کا قصہ ایک سطر کا ہے۔ گھر میں سانپ نکلا، خادمہ چلائی، حجور، رسی حجور رسی(لکھنؤ میں نواب صاحبان سانپ کے لفظ سے ڈرتے تھے، حکم تھا کہ رسی کہو، سانپ مت کہو) یہ سنتے ہی نواب صاحب پلنگ پر جا چڑھے اور زور سے فریاد کی، ارے کسی مرد کو بلائو۔ وزیر خارجہ صاحب ایمان ہیں، کسی "مردوئے" کے بجائے اللہ کو پکارا۔ ٭٭٭٭٭فرمایا، قوم احمقوں کی جنت میں نہ رہے یعنی مسئلہ کشمیر حل ہونے کی توقع لگانے، آس باندھنے کی حماقت سے باز رہے۔ عرض ہے کہ قوم ستر سال احمقوں کی جنت میں رہی، اب ہبوط ہو گیا ہے اور ارض عقلی پر قدم رکھ دیا ہے۔ سارے معاملے کی سمجھ بھلے ہی نہ آئی ہو لیکن بہت کچھ سمجھ میں آ گیا ہے۔ دال کالی ہے، یہ پتہ تو خوب چل چکا ہے، کتنی کالی ہے۔ یہ بھی جان لے گی۔ خلاصوں کا خلاصہ یہ ہے کہ قضیئے کا قصہ پاک ہوا۔ یہ شہر ابھی اہل انصاف کے سر بندھا۔ فرمایا، اقوام متحدہ میں لوگ ہمارے لیے پھولوں کا ہار لے کر نہیں بیٹھے۔ کہیں یہ سلامتی کونسل میں مسئلہ کشمیر پھر سے اٹھانے کے اعلان سے"یوٹرن" لینے کی تمہید تو نہیں! فرمایا، وہاں کوئی نہ کوئی ویٹو کر دے گا۔ کوئی نہ کوئی سے کیا مراد ہے؟ کیا روس جس نے ہماری توقعات کے بالکل برعکس بھارتی لائن کی حمایت کی ہے؟ وہ ماضی میں بھی ہمارے خلاف ویٹو کرتا رہا ہے لیکن نواز، زرداری حکومتوں کی پالیسیوں سے ایک ذرا سی امید اس کے برعکس پیدا ہوئی تھی لیکن پاکستان روس، چین کے نزدیک ہوتے ہوتے پھر سے امریکی کھونٹے سے جا بندھا ہے تو سنا ہے روس کو اس بار اضافی ناراضگی ہے۔ اتنا بہت کچھ کھول دیا تو حجور سچ سچ بتا دیجئے، چین نے آپ سے کیا کہا۔ وہ نہیں جو پریس میں آپ نے چھپوایا اور ٹی وی پر چلوایا۔ اس لیے کہ چین سی پیک کی "ناگہانی وفات" پر اپنا غصہ یا حیرت بھرا دکھ پہلے سے زیادہ رجسٹر کرا رہا ہے۔ اگرچہ آن دی ریکارڈ نہیں، آف دی ریکارڈ، کچھ تو کہیے کہ لوگ کہتے ہیں……٭٭٭٭٭وزیر خارجہ نے مزید فرمایا، امہ کے محافظ بھارت کے دوست ہیں۔ بجا ارشاد، لیکن ابھی کل تک تو آپ سمیت ساری حکمران جماعت فرماتی تھی کہ خان اعظم کی "ولولہ" انگیز قیادت نے امہ کو پاکستان کے پیچھے لا کھڑا کیا ہے، بھارت کو الگ تھلگ کر دیا ہے اور پاکستان کی سفارتی فتوحات کے ڈنکے بج رہے ہیں۔ چلئے کوئی بات نہیں آپ تو یہ بھی فرماتے تھے کہ ولولہ انگیز قیادت سے ٹرمپ، پیوٹن سعودی عرب اور امارات کے حکمرانوں کو ذاتی دوست بنا لیا ہے۔ اب سمجھے یہ ذاتی دوستیاں فقط قرضہ گیری تک محیط اور محدود تھیں۔ دشمنوں کے کان بہرے، سنا ہے، اب یہ ملک بھی حیرت ظاہر کر رہے ہیں کہ قرضے تو پاکستان کے نام پر لیے گئے تھے، پھر یہ گئے کہاں؟ یہ بھی فرما دیجئے، قرضہ گیری کی مہمات کا اگلا ہدف کہیں بر اعظم انٹارکٹیکا تو نہیں ہو گا؟٭٭٭٭٭ادھر اپوزیشن شک و شبہ ظاہر کرتے کرتے یقین و عرفان کی منزل تک پہنچتی نظر آتی ہے۔ عید سے ایک روز پہلے شہباز شریف نے کہا، وثوق سے کہتا ہوں، کشمیر کا سودا کر لیا گیا ہے۔ محض موخرالذکر فقرہ ہی بات واضح کرنے کے لیے کافی تھا، "وثوق سے کہتا ہوں" کا سابقہ لگانے کی ضرورت اتنی ضروری کیوں ہوئی، سوچنے کی بات ہے۔ شہباز شریف نے نام نہیں لیا لیکن بلاول بھٹو نے لیا اور کہا کشمیر کو بیچ دیا ہے۔ نام تو اکرم درانی نے بھی لیا اور انہوں نے سودا کرنے کے ساتھ ساتھ بیچ ڈالنے کی بات بھی کی۔ ٭٭٭٭٭سوچنے کی ایک ضمنی بات اور بھی ہے۔ جب ہم امت کے محافظوں، کا ذکر کریں تو ایک ہی مملکت (یا سلطنت) ذہن میں آتی ہے اس لیے کہ محافظ اور خادم ہونے کا دعویٰ کسی اور نے نہیں کیا نہ ہی اس کا شرف کسی اور کو حاصل ہے۔ اور اس مملکت کے ساتھ باہمی واری صدقے ہونے کے فسانے سال بھر سے سنائے جا رہے ہیں، پس منظر کی دلربا موسیقی کے ساتھ۔ اب اچانک کیا ہو گیا! کون سے نئے صحرائی، مطالب زمینی حقائق سامنے آ گئے۔ ٭٭٭٭٭اپوزیشن نے مسئلہ کشمیر اٹھانے کے ساتھ ساتھ ایک اور اے پی سی بلانے کا اعلان کیا ہے۔ پہلی اپوزیشن کا "اَن ہیپی اینڈ" تو ہم دیکھ چلے ؎کھیر پکاتی جتن سے چرخا دیا جلاآیا "بکرا" کھا گیا تو بیٹھی ڈھول بجاجی حیرت میں پڑنے کی ضرورت نہیں۔ کبھی کبھی بکرا بھی کھیر کھا جاتا ہے بلکہ اکثر کھا جاتا ہے بلکہ شاید ہمیشہ ہی کھا جاتا ہے۔ بہر حال، دیکھئے، اب اپوزیشن پھر سے چرخا جلاتی ہے یا کھیر پکانے کا کوئی اور جتن کرتی ہے۔ اپوزیشن کے لوگ ہسپتالوں سے اٹھا اٹھا کر جیلوں میں ڈالے جا رہے ہیں اور ایک معتبر رپورٹ ہے کہ اس ہفتے اپوزیشن کے کم و بیش تمام ہی معروف رہنما جیلوں کے اندر ہوں گے۔ اپوزیشن کچھ کر سکے گی یا بے آواز لاٹھی کا انتظار(قبلہ وزیر خارجہ کی طرح) کرے گی؟