Khan Sahib Sunye To
Abdullah Tariq Sohail147
پی ٹی آئی کی ایک انفرادیت یہ ہے کہ کم بیش ہر ایک کا خطاب پہلے ہی سے لوگوں کو پتہ ہوتا ہے۔ خاں صاحب ہوں یا مراد سعید، فردوس عاشق ہوں، ایک ہی آموختہ ہے جو برسہا برس سے پڑھ رہے ہیں۔ ہاں، فواد چودھری کا ایک استنثنیٰ ہیں۔ گاہے گاہے آموختے میں کسی نہ کسی نئے پیراگراف کا اضافہ کر دیتے ہیں۔ مثلاً حال ہی میں فرمایا کہ پاکستان اگلے ایک دو برسوںمیں ایک شہری کو خلا پر بھیجے گا۔ ہر "انکشاف" کی طرح اس پر بھی لوگوں نے حیرت ظاہر کی حالانکہ کوئی اتنا بڑا دعویٰ بھی نہیں تھا۔ شیخ رشید کئی ماہ پہلے بتا چکے ہیں کہ ان کے محکمے یعنی ریلوے نے میزائل تیار کر لیے ہیں۔ فواد چودھری صاحب کا اشارہ غالباً اسی کی طرف تھاکسی "خوش قسمت" پاکستانی کو اس میزائل سے باندھ کر خلا میں چھوڑ دیا جائے گا۔ ون وے ٹکٹ۔ ٭٭٭٭٭وزیر اعظم کا خطاب نو دس برس سے عوام کو اتنا یاد ہو گیا ہے کہ اس کے بعد اگلا فقرہ کیا ہو گا، کون سی لائن ہو گی، یہ بھی انہیں پتہ چل جاتا ہے۔ اقلیتوں کے دن پر بھی ان کا خطاب تھا۔ کچھ کا خیال تھا کہ موقع چونکہ الگ قسم کا ہے، اس لیے کوئی نئی بات بیان فرمائیں گے لیکن ان کا خیال غلط نکلا، وزیر اعظم نے وہی بات دہرائی کہ چوروں، ڈاکوئوں نے 24ہزارارب کے قرضے لیے، بیگناہی ثابت کرنے کو کہتے ہیں تو بے گناہی ثابت نہیں کر پاتے، الٹا اے سی مانگتے ہیں حالانکہ اس قوم کی اکثریت کو اے سی نصیب نہیں ہے۔ اے سی والی بات وہ امریکہ میں بھی کر چکے۔ ان کا اشارہ نواز شریف کی طرف تھا۔ امریکہ میں وہ یہ وعدہ ساری دنیا سے کر چکے ہیں کہ وطن واپسی پر وہ (دورہ امریکہ کی کامیابی کے ثمرات کے طور پر) نواز شریف کی کوٹھڑی سے اے سی اتار پھینکیں گے۔ اس لیے اس پر تو پریشانی نہیں ہے۔ آج نہیں تو کل وہ یہ وعدہ پورا کر ہی دیں گے۔ آخر امریکہ پر کھڑے ہو کر کہا ہے لیکن دوسری بات غم و غصے والی ہے۔ واقعی بڑی بری بات ہے کہ نواز زرداری نے دس سالہ دور حکومت میں عوام کو اے سی لگوا کر نہیں دیئے۔ خود اے سی کی ٹھنڈی ہوا کھاتے رہے اور عوام کو پنکھوں کے رحم و کرم پر چھوڑے رکھا۔ ٭٭٭٭٭تو ہو گئی غم و غصے والی بات، اب پریشانی والی ایک بات خاں صاحب کے گوش گزار کرنی ہے۔ یہ کہ حضور، نواز زرداری بہت برے تھے، عوام کو اے سی نہیں لگوا کر دیئے لیکن اب ایسی حکومت آ گئی ہے جو عوام سے پنکھے اتروانے پر تل گئی ہے۔ اندھیرے گھروں کے بل بھی سترہ سترہ ہزار کے آ رہے ہیں۔ مرد حضرات پنکھے بند کر کے گلی میں ٹہلتے ہیں کہ بجلی کا بل سترہ ہزار ہی رہے۔ بیس یا پچیس ہزار نہ آ جائے۔ سنا ہے، اگست کے بعد بجلی اور بھی مہنگی ہونے والی ہے۔ مہنگائی نے بجلی کا بل دینے کے قابل نہیں چھوڑا اور بجلی کے بلوں کی بڑھوتری مہنگائی کا سامنا کرنے نہیں دے رہی۔ کھڑک سنگھ کھڑک کے رہ گیا ہے۔ کہا جائیں، کچھ ارشاد اس بارے میں بھی۔ ٭٭٭٭٭قرضوں والی بات بھی خاں صاحب نے خدا لگتی کہی۔ بخدا اتنے قرضے اور سب کے سب سڑکوں، ریلوں، پلوں، ہسپتالوں اور بجلی کے منصوبوں پر لگا دیئے، عوام کو اے سی لگوا کر دینے کے لیے ذرا بھی نہ رکھے۔ لیکن خاں صاحب، ایک ایسی حکومت آ گئی ہے جس نے پہلوں سے بڑھ کر قرضے لیے اور لیے چلی جا رہی ہے اور سڑک کے نام پر تارکول ڈبہ تک نظر نہیں آ رہا۔ گردشی قرضے بڑھاتی جا رہی ہے اور دو تین گھنٹے کی علامتی لوڈشیڈنگ بھی شروع کر دی ہے جو سال گزشتہ زیرو ہو گئی تھی۔ خاں صاحب، ایک دھرنا اس حکومت کے خلاف بھی دیں اور اس سے پوچھیں کہ اتنے قرضے جا کہاں رہے ہیں۔ کیونکہ خرچے ہوتا ہوا تو ایک روپیہ بھی نظر نہیں آ رہا۔ ٭٭٭٭٭خاں صاحب نے ایک اور بات ساڑھے سولہ آنے پچپن تولے درست کہی کہ قانون کی حکمرانی سب کے لیے ہونی چاہیے۔ اس خطاب کے بعد امید پیدا ہو چلی ہے کہ ایک سیاسی جماعت کے 18غیر ملکی پراسرار اکائونٹس کا جو کیس برسہا برس سے الیکشن کمشن کے سردخانے میں پڑا پڑا برف ہو گیا ہے، اب نکلے گا اور اس پر کارروائی آگے بڑھے گی۔ کیوں خاں صاحب ٹھیک امید ہے کہ نہیں؟اور یہی نہیں، محترمات کے اربوں روپے کے اثاثے وہی امریکہ، انگلینڈ میں نکلے ہیں اور کوئی ان کی تحقیقات نہیں کر رہا، امید ہے کہ نیب اب ادھر کا رخ بھی کرے گا۔ ٭٭٭٭٭چور ڈاکو سابق حکمران اپنی بے گناہی ثابت نہیں کر سکے، بڑے افسوس اور شرم کی بات ہے لیکن جہاں پناہ، تفتیش اور احتساب کے اداروں کو کیا کہئے گا جو ثابت نہیں کر سکے۔ کر لیتے تو اربوں کھربوں وصولی ہو جاتی۔ مولانا فضل الرحمن نے اکتوبر میں دھرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس پر محترمہ مشیرہ اطلاعات نے کہا ہے، ہمیں پتہ ہے، انہوں نے اکتوبر والی تاریخ کیوں رکھی۔ محترمہ کا اشارہ واضح ہے لیکن ان کا اندازہ غلط ہے۔ دھرنے کی اس تاریخ کا تعلق اس معاملے سے نہیں جو اکتوبر میں ہونا ہے(یا نہیں ہونا ہے) اور جس کی طرف محترمہ نے اشارہ کیا ہے۔ اکتوبر کی تاریخ کیوں رکھی گئی، محترمہ کو یہ بات بعد ازاں سمجھ میں آئے گی۔ ایسا ہوتا ہے کہ بعض لوگوں کو بعض باتیں بعد ازاں ہی سمجھ میں آیا کرتی ہیں۔ مثلاً پانچ سال قاف لیگ میں گزارے، حکومت ختم ہونے کے ازاں بعد سمجھ میں آیا کہ یہ تو کرپٹ حکومت تھی، زرداری ایماندار ہیں مزید پانچ سال بعد انہیں یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ یہ حکومت کرپٹ تھی، اصل نجات دہندہ تو خاں صاحب ہیں۔