سانحہ مری پر وزیر دفاع نے غیر ضروری بیان دیا ہے۔ فرمایا ہے غفلت کے ذمہ داروں کو قرار واقعی سزا ملے گی۔ غفلت کے ذمہ داروں کا تعیّن وزیر اعظم پہلے ہی روز اپنے ٹویٹ میں فرما چکے ہیں۔ وزیر دفاع بتائیں، آپ سزا کیسے دیں گے۔ شاید ان کی مراد ان سے ہے جو ذمہ دار تھے اور برف میں پھنس گئے تھے لیکن بچ گئے۔ تب بھی انہیں مزید سزا دینا ناانصافی ہو گی۔ وہ دو دن برف میں پھنسے رہے، اتنی سزا کافی ہے۔ خٹک صاحب انہیں مزید کیا سزا دینا چاہتے ہیں۔ وزیر اعظم کے علاوہ وفاقی وزراء بھی جوق در جوق عوام کی طبیعت صاف کر چکے ہیں۔
مزید صفائی کی ضرورت نہیں۔ صفائی کا ذکر آیا تو اخبار کی خبر میں ایک غلطی کی نشاندہی ضروری ہے۔ خبر کے مطابق سانحہ کی ابتدائی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ انتظامیہ اور برف صاف کرنے والی مشینری غائب تھی اور سڑکوں کی صفائی کا کام بھی دو سال سے نہیں ہوا تھا۔ غلطی 2 کے عدد کے حوالہ سے ہے۔ لگتا ہے تین سال کی جگہ دو سال چھپ گیا۔ بلکہ ساڑھے تین سال چھپنا چاہیے تھا۔ کہ سادگی اور بچت پروگرام کے تحت تمام "غیر پیداواری" کام اس حکومت نے آتے ہی بند کر دیے تھے اور صفائی بھی غیر پیداواری کام ہے۔ حکومت نے صرف وہ پروگرام جاری کئے جن سے "پیدا" ہو سکتی تھی۔
ما قبل سانحہ وزیر اعظم نے یہ خوشخبری سنائی تھی کہ ان کی حکومت کے تین سال معاشی کامیابیوں کی کہانی ہیں۔ یہ خوشخبری انہوں نے کسی معاشی ایڈوائزری کمیٹی کے اجلاس میں سنائی۔ مزید بتایا کہ معیشت مستحکم رفتار سے ترقی کر رہی ہے۔ جملہ ساکنان ارض وطن کو مبارکباد۔ دعا ہے کہ معاشی کامیابیوں کے ایسے ہی ماہ وسال ہمارے ہمسائے بھارت کو بھی نصیب ہوں۔ بھلے دشمن ہے، لیکن ہے تو ہمسایہ۔ اسی اجلاس میں وزیر اعظم نے کھاد کی قلّت کا عقدہ بھی حل فرما دیا۔ کہا کہ کسانوں کی آمدن بڑھ گئی ہے اس لئے بڑھ چڑھ کر کھاد خرید رہے ہیں جس کی وجہ سے کھاد کی قلت پیدا ہو گئی ہے۔
کسانوں کی آمدن لگتا ہے کہ صرف بڑھ نہیں گئی ہے بلکہ حد سے زیادہ بڑھ گئی ہے اور انہوں نے بے انداز کھاد خرید لی ہے اور مزید بے انداز کھاد خریدنے کے لئے سڑکوں پر مارے مارے پھر رہے ہیں، سر پیٹ دم چھن کئی تو روتے فریاد کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ ساری علامات آمدن بڑھنے کی ہیں اور خوشحالی میں غیر تخمینہ شدہ اضافے کا ثبوت ہیں۔ ماشاء اللہ۔ کھاد ویسے اس سال، حماد اظہر کے بقول تین لاکھ ٹن سرپلس پیدا کی گئی تھی لیکن کسانوں کی آمدن چونکہ بہت زیادہ بڑھ گئی ہے اس لئے پچاس ہزار ٹن کھاد چین سے درآمد کرنے کی منظوری بھی دے دی گئی ہے تاکہ بڑھتی ہوئی آمدن کا کچھ تو "ازالہ" ہو۔ ویسے پوچھنے کی ایک بات یہ بھی ہے کہ وزیر اعظم کو اس طرح کی اطلاعات کون دیتا ہے۔
یہ خوشخبری تو انہوں نے دو روز پہلے سنائی۔ اس سے تین چار دن پہلے ایک بدخبری بھی سنائی۔ ڈیرہ اسمٰعیل خان میں سڑک کی تعمیر کا افتتاح کرتے ہوئے انہوں نے یہ انکشاف کیا کہ ماضی کے حکمران نے(مراد نواز شریف تھے)سڑکوں کی تعمیر میں ایک ہزار ارب روپے چوری کر لئے اور ثبوت بھی نہیں چھوڑا۔ ثبوت ایک بھی نہیں چھوڑا، پھر وزیر اعظم کو کیسے پتہ چلا کہ ماضی کے حکمرانوں نے، کم نہ زیادہ، پورے ناپ تول کر ایک ہزار ارب کی چوری کی؟ جواب اس سوال کا اوپر کی سطر میں آ چکا ہے یعنی جہاں لکھا ہے کہ وزیر اعظم نے انکشاف کیا۔
انکشاف کشف سے نکلا ہے۔ جو شے دکھائی دے نہ سنائی دے نہ سجھائی دے، اس کا علم معلوم ذرائع سے ہو ہی نہیں سکتا۔ چنانچہ لامحالہ یہ کشف ہے۔ ایسے ہی ایک کشف کے ذریعے وزیر اعظم نے ماضی میں یہ انکشاف کیا تھا کہ نواز شریف 300کروڑ روپے چوری کر کے باہر لے گئے۔ اس کا بدستور ندارد ہے وہ ملا کر نواز شریف کی زیر کشف چوری کی مالیت ایک ہزار تین سو کروڑ ہو گئی۔
وزیر اعظم کچھ امور میں یدھائے طولیٰ رکھتے ہیں۔ ماضی ہی کا نہیں، مستقبل کی بات بھی بتا دیتے ہیں۔ اسی تقریب میں انہوں نے بتایا کہ ماضی کے حکمران مہنگی سڑکیں بناتے تھے، ہماری سڑکیں سستی ہوں گی۔ ظاہر ہے، جو سڑک ابھی بنی ہی نہیں، بلکہ اس کی تعمیر بھی شروع نہیں ہوئی، محض فیتہ کاٹا گیا ہے، اس کے بارے میں یہ بتانا کہ یہ سستی ہو گی، کشف کے سوا اور کچھ نہیں۔ خاں صاحب کی حکومت نے پشاور میں بی آر ٹی نام کی میٹرو بنائی۔ اس پر لاگت کی رقم لاہور، پنڈی اور ملتان کی میٹروز کی مجموعی رقم سے زیادہ تھی۔ وجہ یہ تھی کہ وہ سڑک کسی پروگرام کے بغیر ہی شروع کر دی گئی تھی۔
تحریک انصاف کے غیر واضح رہنما جہانگیر ترین نے مسلم لیگ کے واضح رہنما ایاز صادق کے ہمراہ اخبار نویسوں کو بتایا کہ ان کا جہاز آنے والے وقت میں کسی بھی طرف کا رخ اختیار کر سکتا ہے(غیر واضح سے مطلب یہ ہے کہ کچھ پتہ نہیں چل رہا، آپ تحریک انصاف میں شامل ہیں یا نہیں)۔ ترین صاحب کا اشارہ اس جہازی مہم کی طرف تھا جس کے تحت جنوبی پنجاب میں نیک، ایماندار اور صادق امین ارکان اسمبلی ڈھونڈ ڈھونڈ کر جہاز میں بھرے گئے اور خان صاحب کے چرنوں میں لا بٹھائے گئے۔
بعض اخبار نویسوں کا خیال ہے کہ اس بار یہ جہاز کسی اور جماعت کے لئے استعمال ہو گا۔ عرض یہ ہے کہ الیکشن ہوں (سلیکشن نہیں) تو کسی پارٹی کو جہاز کی ضرورت نہیں اور مسلم لیگ کو تو بالکل نہیں۔ سرکار کے خفیہ خفیہ کرائے گئے سروے بتاتے ہیں کہ الیکشن ہو گئے(الیکشن سے مراد، پھر نوٹ فرمائیے کہ الیکشن ہیں۔ 2018ء کا بندوبست نہیں) تو مسلم لیگ کو اتنی سیٹیں ملیں گی کہ وہ شاید کچھ ارکان کو دوسری جماعتوں کے سپرد کر دے۔ ترین صاحب دراصل آنے والے وقت میں لیگ کے دل میں نرم گوشہ پیدا کرنا چاہتے ہیں۔