Maqbooza Kashmir, Zam Ya Hazam?
Abdullah Tariq Sohail153
بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کر کے اس کا صوبائی وجود بھی مٹا ڈالا اور اسے وفاقی علاقہ بنا دیا جیسے ہمارے ہاں فاٹا ہوا کرتا تھا۔ یہ خبر سال بھر سے متوقع اور چند ہفتوں سے شدید متوقع تھی۔ امریکی صدر ٹرمپ اس پر خاموش ہیں اور یہ خاموشی بھی متوقع تھی۔ مسلم لیگ ن کی ایک لیڈر نے اس ماجرے پر وزیر اعظم پاکستان کی خاموشی کو افسوسناک قرار دیاہے۔ وزیر اعظم نے الیکشن سے پہلے مودی جی کی انتخابی فتح کے لئے خواہش ظاہر فرمائی تھی اور یہ توقع بھی کہ وہ پھر سے برسر اقتدار آ کر مسئلہ کشمیر حل کر دیں گے۔ بھارت نے اسرائیلی ماڈل سے بھی زیادہ ترقی یافتہ ماڈل اپنایا ہے اور پاکستان اگر اس پر ٹک ٹک دیدم کچھ نہ کریدم، کی تصویر بنا ہوا ہے۔ بہت اونچی سطح پر دلی اور واشنگٹن میں یہی کچھ طے ہوا ہے۔ ٭٭٭٭٭اپوزیشن لیڈروں شہباز شریف، مولانا فضل الرحمن، بلاول بھٹو کے علاوہ نان اپوزیشن لیڈر سراج الحق نے عالمی برادری سے مسئلہ کشمیر کی نئی فیصلہ کن کروٹ کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ ہم لوگ تو نہیں جانتے، شاید یہ لیڈر جانتے ہوں کہ عالمی برادری سے کیا مراد ہے اور کیا اس نے اب تک اگر اس بات کا نوٹس نہیں لیا ہے تو اس لئے کہ ابھی تک ان حضرات نے اس کا مطالبہ نہیں کیا تھا۔ عالمی برادری سے کیا یورپ مراد ہے؟ اگر یورپ ہی عالمی برادری ہے تو وہ نوٹس لے کر کتنے نفلوں کا ثواب کمائے گا؟ کیا امریکہ مراد ہے جس کے صدر ٹرمپ نے دوبار ثالثی کی پیشکش کا شگوفہ اس لئے چھوڑا کہ بھارت دونوں بار اسے مسترد کر کے آئینہ حقیقت نما دکھا دے، یعنی جو بات پاکستانی عوام کی سمجھ میں نہیں آ رہی۔ اسے اس ڈرامائی تشکیل کے ذریعے سمجھا دیا جائے؟ یا پھر عالمی برادری سے مراد عرب دنیا ہے جو مودی کی لیلیٰ بنی ہوئی ہے۔ یا افریقہ کو عالمی برادری مانا جا رہا ہے؟ ایسا ہے تو نوٹس لینے سے پہلے افریقہ والوں کو بتانا ہو گا کہ کشمیر کس شے کا نام ہے۔ یہ کہاں واقع ہے اور اس کا مسئلہ کیا ہے؟ اگر افریقہ بھی عالمی برادری نہیں ہے تو ضرور بہا ماس فجی اور پولی نیشیا کے جزائرکا نام عالمی برادری ہو گا۔ آج سے کچھ عشرے پہلے قبرص کا مسئلہ بھی ایسا ہی تھا۔ یونان نے ترک علاقے پر قبضہ کر کے وہاں کے لوگوں کی زندگی دوزخ بنا دی تھی۔ ترکی بے چارہ نہیں جانتا تھا کہ دنیا میں کوئی عالمی برادری بھی ہے اور اس سے نوٹس لینے کا مطالبہ بھی کیا جا سکتا ہے، اس لئے اس نے خود ہی نوٹس لیا۔ رات کے کسی پہر اس نے اپنی فوج شمالی قبرص میں داخل کی اور اگلا سورج طلوع ہونے سے پہلے پہلے قبرص کا مسئلہ حل ہو چکا تھا۔ ہماری خوش فہمی ہے کہ ہمیں ایسی لاعلمی نہیں ہے، ہم جانتے ہیںکہ عالمی برادری موجود ہے اور وہ نوٹس بھی لیا کرتی ہے، بس ہمارے مطالبہ کرنے کی دیر ہے۔ ٭٭٭٭٭بھارت صرف کشمیر کو ضم اور ہضم کرنے پر ہی نہیں رکے گا، اس کے ارادے کنٹرول لائن کے حوالے سے بھی ٹھیک نہیں۔ کیا ہونے والا ہے، عوام کو علم نہیں۔ خواص جانتے ہیں لیکن وہ بتائیں گے نہیں۔ وہ عوام کو اس قابل سمجھتے ہی نہیںکہ انہیں کچھ بتایا جائے۔ اگر وہ کچھ بتاتے ہیں تو الٹا۔ جہاز ڈوب رہا ہو تو کہتے ہیں۔ دیکھو اوپر جا رہا ہے۔ روپیہ ٹکے ٹوکری ہوجائے تو کہتے ہیں معیشت مستحکم ہو گئی۔ نصف کروڑ آبادی دیکھتے ہی دیکھتے خط غربت سے نیچے دھکیل کر کہتے یہ لو، خوشحالی آ گئی۔ قیمتیں چار گنا بڑھا کر لاکھوں با روزگاروں سے روزگارچھین کر کہتے ہیں کہ غریب کو ریلیف دینا ہمارا مشن ہے۔ خواص کے تجزیہ نگار کئی دنوں سے بتا رہے ہیں کہ ٹرمپ ہمارے ساتھ ہے۔ واقعی؟ وہ ہمارے ساتھ ہے یا بھارت کے؟ کیا مودی نے جو اتنا بڑا ڈول ڈال دیا ہے وہ ٹرمپ کی مرضی کے بنا ہی ڈال دیا ہے؟پاکستان اس پر بھی پھولے نہیں سما رہا کہ افغان مسئلہ حل کرنے میں ٹرمپ نے ہم سے مدد مانگی ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ کشمیر کو ضم اور ہضم کرنے کی کارروائی کے بعد افغان معاملہ پر کیا اثر ہو گا۔ سوچنے کی یہ بات اپنی جگہ ہے کہ امریکہ سے تعاون کے بدلے میں پاکستان کو کیا ملے گا؟شیخ چلی کے سے خواب کے سوا کچھ نہیں۔ سامنے کی بات ہے اور ہمارے بڑوں کو ہم سے زیادہ پتہ ہے کہ افغانستان سے امریکہ کی جان سہل چھوٹ گئی تو امریکہ کو پاکستان کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔ پھر پاکستان جانے اور بھارت جانے۔ یہ خیال کہ افغانستان کے بعد امریکہ ایران پر حملے کرے گا اوراسے بھی ہماری ضرورت پڑے گی، محض خام اور بے امل ہے۔ ایران کے خلاف محدود ایڈونچر کے لئے اسے پاکستان کی نہیں، عرب ملکوں کی ضرورت پڑے گی، محض خام اور بے اصل ہے۔ ایران کے خلاف محدود ایڈونچر کے لئے اسے پاکستان کی نہیں، عرب ملکوں کی ضرورت پڑے گی جو بخوشی دستیاب ہیں اور ہوں گے۔ اس کے برعکس اگر امن عمل ناکام ہو جاتا ہے یا امریکی مرضی کے مطابق آگے نہیں بڑھتا تو ہمیں امریکی عتاب کا سامنا ہو گا۔ یعنی ادھر کھائی، ادھر کھڈہ۔ حکومت کے حامی تجزیہ کار یہ پرانی اور خستہ حال کوڑی لا رہے ہیں کہ ہم نے افغان معاملے میں امریکہ کا دل خوش کر دیا تو امریکہ کشمیر پر ہمارا دل خوش کردے گا۔ یعنی بھارت سے کہے گا، کشمیر پاکستان کے حوالے کر دو نہیں تو آیا ہمارا ایٹم بم۔ یہ کوڑی 19سال پہلے بھی پرویز مشرف برآمد کر چکے ہیں۔ امریکی فون پر سرنڈر کیا تو قوم کو یہ بتایا کہ اس سرنڈر کے بدلے میں امریکہ نے کشمیر ہمیں دلانے(صحیح الفاظ مسئلے کا منصفانہ حل نکالنے) میں مدد کا وعدہ کیا ہے۔ وہ وعدہ پھر کیسے پورا ہوا؟ اس بار تو سرے سے کوئی وعدہ ہی نہیں صرف پیشکش کی گئی ہے تاکہ بھارت اسے مسترد کر دے اور پھر اسے دہرایا گیا ہے تاکہ بھارت دوبارہ مسترد کر دے۔