پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کے لانگ مارچ پر بہت خوش ہے۔ سو فیصد تجزیہ کاروں جن میں حامی، مخالف اور غیر جانبدار سبھی شامل ہیں، اس بات پر سوفیصد متفق تھے کہ مارچ سندھ میں کامیاب رہے گا، جنوبی پنجاب میں نیم کامیاب اور وسطی پنجاب میں بس "گزارا مزارا" ہی ہو گا۔ شرکا کی تعداد چند ہزار ہی رہے گی۔ مسلم لیگ ن نے ورکر بھیج دیے تو یہ چند دوچند ہو جائیں گے ورنہ بس صبر شکر والا معاملہ ہی رہے گا۔ لیکن مارچ نے وسطی پنجاب میں تو "پنجابی محاورے کے مطابق "دھوڑیں پٹّ" ڈالیں۔
نواز شریف کے جی ٹی روڈ والے مارچ(عرف ووٹ کو عزت دو) کی یادیں تازہ کر دیں۔ مارچ اتنا پرہجوم، اتنا پرجوش اور پرشور تھا کہ پہلے تو خود بلاول کو بھی یقین نہیں آیا، لیکن پھر آ گیا۔ گویا ٹارزن کی واپسی کی راہ ہموار ہو گئی۔؟ لیکن کیا واقعی؟ ابھی ایک سوال اور بھی ہے۔ یہ کہ یہ مارچ مسلم لیگ کیلئے "لمحہ خطریہ" ہے؟ لمحہ فکریہ سے آگے یعنی خطرے کی بات؟ جواب حاضر ہے۔ چیزیں اپنی اصل کی طرف لوٹتی ہیں۔
پنجاب میں اینٹی نواز ووٹ 2018ء کے الیکشن میں پی ٹی آئی کے کھاتے میں "ٹرانسفر" ہو گیا، اب وہ ری ٹرانسفر یا ٹرانسفر بیک ہو رہا ہے۔ گویا یہ لمحہ خطریہ پی ٹی آئی کے لئے ہے؟ جی نہیں، وہ تو ویسے بھی ایک "سنہری یاد" بننے والی ہے۔ مسلم لیگ کا ووٹ بنک جوں کا توں ہی ہے، کچھ بڑھا بھی ہے اور یہ ہماری "رپورٹ" نہیں ان کی ہے جو رپورٹیں بنایا کرتے ہیں۔ مسلم لیگ کیلئے لمحہ خطریہ نہیں البتہ لمحہ فکریہ ضرور ہے کہ عوام سے رابطے کے بارے میں شہباز شریف کی "انتہائی پرہیز" والی پالیسی کب تک جاری رہے گی۔
مسلم لیگ وہ واحد پارٹی ہے جس نے مہنگائی کیخلاف بھی کبھی کوئی مظاہرہ نہیں کیا۔ شہباز کی پالیسی اس اندیشے پر رہی کہ انہیں ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو۔ چناچہ خیال خاطر احباب سے وہ کبھی باہر نکلے ہی نہیں۔
٭ پچھلے دنوں وزیر اعظم نے یہ خوشخبری سنائی کہ پاکستان کا گروتھ رہن 5۔ 6فیصد ہو گیا۔ قوم اس خوشخبری پر خوش بلکہ نہال ہو گئی۔ وزیر اعظم نے بتایا کہ عالمی بنک نے اس کی تصدیق کی ہے۔ لیکن عالمی بنک کی طرف سے اب کچھ اور ہی خبر آ گئی۔ یہ کہ اس نے ایسی کوئی تصدیق نہیں کی۔ ساتھ ہی آئی ایم ایف کی رپورٹ بھی قابل ملاحظہ ہے کہ پاکستان کا گروتھ ریٹ اگلے برس 3۔ 4فیصد یا شاید 4فیصد تک ہو سکتا ہے۔ مطلب ابھی ہوا نہیں لیکن ہو سکتا ہے اور نہیں بھی ہو سکتا ہے۔ بہت تفاوت ہے۔ خوشخبری میں اور عالمی اداروں کی رپورٹ میں۔ عالمی اداروں کو ہم "بزم یار" قرار دے دیں تو ایک مشہور مصرعہ ترمیم و تصرف کے ساتھ یوں پڑھا جا سکتا ہے کہ ع آئی ہے بزم یار سے لیکن خبر الگ
٭ اور یہ الگ خبر بھارت کے بارے میں بھی اسی طرح کا ماجرا رکھتی ہے۔ مثلاً وزیر اعظم نے بتایا کہ بھارت کی شرح افزائش منفی صفر میں چلی گئی۔ آئی ایم ایف کی رپورٹ یہ ہے کہ گزشتہ برس بھارت کا گروتھ ریٹ 9فیصد تھا، اس سال کم ہو کر 7۔ 8فیصد پر آ گیا ہے۔ بزم یار ہمارے خیال سے قابل اعتبار نہیں رہی۔
٭ وزیر اعظم نے اس خطاب میں تیل دس روپے سستا کرنے کا اعلان کیا، یہی نہیں، بجلی بھی 5روپے فی یونٹ کم کر دی۔ اس پر حد سے زیادہ واہ واہ ہوئی۔ کہانی البتہ یوں تھی کہ بارہ دن پہلے حکومت نے تیل بارہ روپے مہنگا کیا تھا۔ بارہ دن بعد دس روپے کم کر دیا۔ یوں تیل عملاً دو روپے مہنگا ہوا(صرف) اور بجلی کا ماجرا اس سے بھی زیادہ پرلطف ہے۔ وزیر اعظم کے خطاب سے ایک گھنٹہ پہلے نیپرا نے بجلی چھ روپے مہنگی کی تھی۔ ایک گھنٹے بعد وہ 5روپے کم ہو گئی یعنی بجلی محض ایک روپے مہنگی ہوئی۔
اخبارات نے کل لکھا کہ وزیر اعظم کے اس اعلان ارزانی کے باوجود گرانی مسلسل بڑھ رہی ہے۔ اصل کہانی ملاحظہ کرنے کے بعد اخبارات کا یہ شکوہ غیر ضروری سمجھا جانا چاہیے اور اس سارے سلسلے میں یہ بات بہرحال نظرانداز کر دینی چاہیے کہ تین سال قبل جو بجلی 8روپے میں یونٹ تھی اور عمران خاں نے اسے ظالمانہ نرخ قرار دیا تھا، اب وہ 32روپے ہونے کے بعد "رحمدلانہ" کہی جا رہی ہے کہی جا سکتی ہے، یہی ماجرا تیل سمیت باقی ہر شے کا ہے۔
٭ وفاقی وزیروں کا یہ دعویٰ البتہ بالکل درست ہے کہ عمران خاں کی حکومت میں عام آدمی کی قوت خرید بڑھی ہے۔ اس کی گواہی یہ راقم الحروف بھی دے سکتا ہے۔ ایک کیپسول جو ہڈیوں کی کمزوری کے لئے استعمال ہوتا ہے، 3سال پہلے 65روپے کا ملتا تھا، کل لینے گیا تو 250روپے کا ملا۔ ہنسی خوشی یہ قیمت ادا کی۔ ثابت ہوا اس "عام آدمی" یعنی راقم الحروف کی قوت خرید تین سال میں محض اس کیپسول کی مدمیں 185روپے بڑھ گئی۔ باقی اشیا کے بارے میں قوت خرید بڑھنے کو بھی اسی پر محمول کر لیں۔