Monday, 25 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Nasiba

Nasiba

چند دن پہلے میانوالی سے یہ خبر آئی کہ وہاں ایک شخص نے اپنی سات دن کی بچی کو پانچ گولیاں مار کر قتل کردیا۔ اسی روز کراچی میں کسی نے چند روز کے نوزائیدہ بچے کو ذبح کر کے لاش کوڑے میں پھینک دی۔ یہ خبر یورپ امریکہ یا دوسرے ترقی یافتہ اور ہمارے بقول شاخ نازک پہ نا پائیدار آشیانہ بنانے والی، اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرنے والی تہذیبوں میں آئی ہوتی تو اخبارات میں شہ سرخیوں کے ساتھ چھپتی اور میڈیا شوز میں گھنٹوں نہیں ہفتوں تک چھائی رہتیں۔ کسی کو اعتقاد نہ ہو تو میڈیا سرچ کرلے۔

بچوں کے قتل کے واقعات وہاں ہمارے ہاں کے مقابلے میں سینکڑوں گنا کم ہوتے ہیں۔ کوئی واقعہ ہوتا ہے تو میڈیا پر ہفتوں دہائی مچی رہتی ہے اور اس پر ڈاکومنٹری فلمیں بنتی ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں ایسی خبریں اتنی کم جگہ پاتی ہیں کہ اخبار پڑھنے والے قارئین کی بڑی تعداد کی اس پر نظر ہی نہیں پڑتی۔ کچھ برسوں سے ہمارے ہاں بچوں کے قتل کے واقعات ہوشربا بلکہ ناقابل یقین حد تک بڑھ گئے ہیں اور ان میں ہر طرح کے واقعات شامل ہیں۔

باپ یا استاد نے قتل کردیا، تاوان کے لیے مار دیا، دشمنی کی نذر ہو گیا، زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد جان لے لی۔ سوتیلے پن کی بھنیٹ چڑھ گیا یا مالک نے شرائط ملازمت میں کوتاہی پر مار ڈالا لیکن یہ خبریں صفہ آخر کے کونے کھدروں میں ہی جگہ پاتی ہیں۔ عورتوں کے ساتھ ہونے والے سلوک کی خبریں بھی کم و بیش اتنی ہی جگہ پاتی ہیں۔ ابھی دو تین دن پہلے چیچہ وطنی میں ایک لڑکی نے جائیداد میں حصہ مانگا تو عمر نامی بھائی نے اسے چھرے سے ذبح کردیا۔ یہ خبر آخری صفے کے آخری نچلے حصے میں کل تین سطریں لے پائی۔

٭بچوں کے قتل کا ایک طریقہ اور بھی ہے۔ ملاحظہ فرمائیے:بچے دن بھر متحرک رہتے ہیں۔ کھیلتے ہیں، اچھل کود کرتے ہیں اورزیادہ توانائی صرف کرتے ہیں چنانچہ انہیں زیادہ بھوک لگتی ہے، اتنی کہ برداشت نہیں کرسکتے۔ سکول سے آتے ہی نعرہ زن ہو جاتے ہیں کہ ماں کھانا لائو۔ کوہاٹ کے قریب لنڈیوال میں بھی ایک ماں کے ساتھ یہی ہوا لیکن مختلف انجام کے ساتھ۔ دو بھائی سکول سے گھر آئے، آتے ہی کھانا مانگا جو پہلے ہی سے ماں نے تیار کرنا شروع کردیا تھا جیسے ہی بچے کچن میں گھسے سلنڈر پھٹ گیا، دونوں بچے ختم، ماں بھی ختم۔

آپ کہتے ہیں کہ یہ حادثہ نہیں قتل تھا۔ گیس سلنڈر کا چلن پرویز مشرف کے دور میں ہوا۔ مشرف انتظامیہ نے ناقص سلنڈر امپورٹ کئے، پھر پاکستان ہی میں بننے لگے اور ملی بھگت سے غیر معیاری، ناقص اور خطرناک، گھروں ہی میں نہیں، بسوں، ویگنوں، رکشوں، ہوٹلوں اور گوداموں میں پھٹنے لگے۔ اتنے لوگ مرے جتنے بم بارود والی دہشت گردی میں مرتے تھے۔ بعد کے دو جمہوری ادوار میں اس مسئلے پر توجہ دی گئی لیکن کمی کوتاہی رہ گئی۔

واقعات کم ہوئے البتہ رک نہ سکے۔ ساڑھے تین سال سے سب کو پھر سے کھلی چھوٹ ہے۔ سلنڈر دھماکوں کے ذریعے قتل کے واقعات بڑھ گئے۔ کون سا مافیا ہے جسے عدیم النظیر چھوٹ نہ دے دی گئی ہو۔ سریا سیمنٹ مافیا سے لے کر آٹا دال اور ڈرگ مافیا تک۔

٭قتل کے اور بھی کتنے ہی طریقے ہیں۔ واپڈا کے لٹکے تار، پتنگ کی آوارہ دھاتی ڈوریں، کھانے پینے کی ناقص اور زہریلی چیزیں اور ایک اور اہم ناگزیر ذریعہ قتل براستہ یا بذریعہ غربت۔ کل ہی کراچی کی ایک جھونپڑی میں آگ لگی۔ پانچ کم عمر بھائی بہن زندہ جل گئے۔ چھٹی بہن زخمی ہے۔ غیبت جو حالیہ ساڑھے تین سالہ دور میں ساڑھے تین سو فیصد بڑھ گئی۔ سسٹین ایبل سوشل ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن کی دو دن پہلے جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس پنجاب میں عورتوں پر تشدد کے واقعات میں 255 فیصد اضافہ ہوا۔

غیرت کے نام پر قتل بھی بڑھ گئے، بقدر 47 فیصد، سندھ میں یہ واقعات کم ہو گئے۔ عورت پر تشدد کے خلاف آوازیں اٹھنے لگی ہیں، یہ بھی غنیمت ہے بلکہ حوصلہ افزا یہ ہے کہ یہ آوازیں بلند ہوتی جا رہی ہیں۔ محب وطن اور پاسبان وطن حضرات بہت ناراض ہیں۔ ایسی آوازیں خلاف اسلام ہیں۔ تقدیس مشرق کو پامال کرتی ہیں گمراہی پھیلاتی ہیں، انہیں این جی اوز اٹھاتی ہیں۔ بھارت اور امریکہ کی ایجنٹ این او جیز۔ ہمارے معاشرے کی مقدس روایات کے خلاف سازش ہیں۔ صدارتی نظام لا کر ان کا قلع قمع کرنا ضروری ہے اور جمہوریت ایک لعنت ہے۔

٭کچھ سماجی پس منظر ہے، مسلم نوابی اور جاگیرداری روایات، تصورات، مذہب کی غلط تشریح اور کچھ انسانی، جبلت بھی۔ کل ہی کی خبر سیالکوٹ سے ہے کہ ایک بوڑھی عورت ثریا بی بی نے 2 سالہ سوتیلے پوتے کو پانی میں ڈبو ڈبو کر مار دیا۔ کچھ گھریلو تنازع جو بالعموم غربت کی کوکھ سے پھوٹتے ہیں جیسا کہ کل ہی کراچی سے خبر آئی کہ وہاں لیاقت آباد نے اپنی دو مہینے کی بچی کو چھری سے ذبح کردیا۔ تصویر میں ذبح شدہ بچی سکون سے لیٹی نظر آ رہی ہے۔ چھری تیز ہوگی اذیت نہیں ہوئی ہوگی۔

ماں نے بتایا کہ گھر میں غربت سے جھگڑا رہتا تھا۔ جبلت تو معذور ٹھہری، باقی اسباب کا انسداد ریاست کیا کرتی ہے۔ دنیا کے ہر ملک میں ریاست ہوتی ہے، یہاں بھی ہونی چاہیے۔ اس طرح کے مقدر میں پاکستان نے غالباً سب جہان میں وافر حصہ پایا ہے، بڑے ہی نصیبوں والا ہے۔