Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Naya Pakistan Ban Raha Hai

Naya Pakistan Ban Raha Hai

1971ء میں بنگال غائب تھا، نصف صدی بعد آج پھر کشمیر غائب ہے اور بتانے والے بتاتے ہیں کہ ابھی مزید بنے گا۔ اس نئے پاکستان پر سب سے زیادہ سخت ردعمل مولانا فضل الرحمن کا آیا ہے اور سب سے نرم جماعت اسلامی کا۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ عمران خان نے کشمیر ٹرمپ کے ہاتھ بیچ دیا۔ حالانکہ ٹرمپ نے کشمیر نہیں خریدا، اس نے تو محض ثالثی کی ہے۔ ثالثی کرانے والے کو اجرت ملتی ہے، قیمت نہیں۔ معاملہ مودی اور عمران کے بیچ ہوا ہو گا، ٹرمپ اور عمران کے درمیان نہیں۔ مسلم لیگ کے محمدزبیر نے کہا ہے کہ مودی کے اقدام کا عمران خان کو علم تھا۔ عمران خان نے پارلیمنٹ میں علم ہونے کا اعتراف نہیں کیا، یہ کہا کہ اندازہ تھا اور اب تو بی جے پی کا انتخابی منشور بھی یہی تھا۔ جماعت اسلامی نے یہ مطالبہ کر کے فرض ادا کر دیا کہ حکومت سنجیدگی دکھائے۔ یقین نہیں آتا کہ یہ وہی جماعت اسلامی ہے جس نے 1999ء میں نواز شریف کے سارے خاندان والے اگلے پچھلے ایک کر دیئے تھے۔ تب بھارتی وزیر اعظم چل کر پاکستان آیا تھا اور مسئلہ کشمیر پر معاہدہ ہونے والا تھا۔ نواز شریف وہی کرتے جو اب ہوا ہے تو شاید جماعت اسلامی اتنا ناراض نہ ہوتی، سنجیدگی کا مطالبہ کر کے بات ختم کر دیتی۔ ٭٭٭٭٭سقوط کشمیر پر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس اپنی جگہ تاریخ سازی کر گیا۔ کسی نے تبصرہ کیا، ایسا اجلاس بلانے سے تو نہ ہی بلایا ہوتا۔ حکومت کی طرف سے مثالی محب وطن اور انتہائی شدید غریب دوست اعظم سواتی نے قرارداد پیش کی تو اس میں سے اصل مدعا ہی غائب تھا۔ یعنی بھارت نے آئین کے جس آرٹیکل کو ختم کر کے کشمیر ہضم کیا، اس کا ذکر ہی نہیں تھا۔ شاید خیال خاطر احباب مطلوب تھا۔ بہر حال، اپوزیشن نے یاس احباب کی یہ سعادت حاصل کرنے کی کوشش ناکام بنا دی جس پر اس کی شدید مذمت کرنی چاہیے۔ مذمت سے یاد آیا، عمران خان نے خاصا طویل خطاب کیا۔ بھارتی اقدام کی شدید مذمت کی۔ بعض افراد نے اس پر تنقید کی ہے جو مسترد کر دینی چاہئے۔ خواہ مخواہ کی تلخی کا فائدہ۔ عمران خان نے جھلا کر پوچھا کیا بھارت پر حملہ کر دوں؟ پھر جنگ کا امکان یا خدشہ بھی ظاہر کر دیا اور کہا کہ نتیجہ بہادر شاہ ظفر یا ٹیپو سلطان کی صورت نکل سکتا ہے یعنی بالترتیب غلامی یعنی قید اور موت۔ خاں صاحب کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟ بات کچھ کچھ سمجھ میں آ ہی گئی۔ ٭٭٭٭٭شہباز شریف نے بطور اپوزیشن لیڈر کمال کی نیاز مندانہ تقریر فرمائی، بس ایک ذرا سی چوک ہو گئی اور معمولی سا حرف تنقید منہ سے نکل گیا۔ فرمایا، بھارت کو سلامتی کونسل کارکن بنانے کے لیے پاکستان نے غیر مشروط حمایت کی، اس کی کیا ضرورت تھی؟یہ واقعہ دو اڑھائی ماہ پہلے کا ہے۔ تب اس پر سوشل میڈیا میں تنقید ہوئی تھی، اخبارات میں کچھ نہیں آنے دیا گیا تھا۔ شہباز شریف نے بھی اس وقت تنقید نہیں کی تھی۔ تب نہیں کی تھی تو اب کیا ضرورت تھی؟٭٭٭٭٭ایک تجزیہ نگار اپنے ٹی وی پروگرام میں فریاد کناں تھے۔ تقریباً روتے ہوئے فرمایا، مجھے تو اب فکر پڑ گئی ہے کہ آزاد کشمیر کو کون بچائے گا؟یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے بھائی! اللہ میاں بچائے گا اور کون بچائے گا۔ ہاں اگر اور پاکستان بنتے رہنا اسی طرح منظور مشیت رہا تو اور بات ہے۔ ٭٭٭٭٭عالمی ردعمل پر بہتوں کی نگاہ ہے، دیکھئے کب آتا ہے۔ دو تین ملکوں کا آ چکا، باقی کے بارے میں خیال ہے کہ بس اور نہیں آئے گا۔ امریکہ نے فرمایا، داخلی معاملہ ہے، متحدہ عرب امارات کے سفیر نے اسے آئین کے مطابق بھارت کا داخلی معاملہ قرار دیا اور کہا کہ اس سے کشمیر کی غربت دور ہو گی۔ غربت دور کرنا بہت اچھی بات ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں مودی کریں گے۔ ٭٭٭٭٭چین تیسرا ملک ہے جس نے ردعمل دیا۔ اس نے لداخ کو ضم کرنے کی مذمت کی، کشمیر کو ھڑپنے پر تشویش ظاہر کی۔ مذمت اور تشویش میں فرق حفظ مراتب کا ہے۔ چین نے کہا کشمیر حل طلب معاملہ ہے۔ لداخ پر چین کا غصہ بجا ہے۔ لداخ کے مشرق میں کشمیر کا وہ وسیع علاقہ ہے جس پر چین کا قبضہ ہے اسے اقصائے چن Aksai Chinکہا جاتا ہے۔ چین کا دعویٰ جتنے رقبے پر ہے، کم و بیش وہ اس کے پاس ہے۔ بس لکیر کے ذرا سا ادھر یا ادھر ہونے کا جھگڑا ہے۔ اقصائے کے اوپر بائیں ہاتھ کو وہ علاقہ ہے جو پہلے پاکستان کے پاس تھا، پھر ایوب خان نے چین کو تحفے میں دے دیا۔ اس سے آگے وہ علاقہ ہے جو 1980ء تک پاکستان کے پاس تھا پھر ضیاء الحق نے یہ کہہ کر بھارت کو تحفے میں دے دیا کہ یہاں تو گھاس بھی نہیں اُگتی۔ اس سے آگے وہ علاقہ ہے جسے کارگل کہا جاتا ہے، اس کا تیا پانچہ پرویز مشرف نے کیا۔ ٭٭٭٭٭ایک اینکر پرسن کہ برسوں سے کامرانی کے جھنڈے گاڑھے ہیں، کا فرمودہ بھی قابل غور ہے۔ ان اینکر پرسن میں تجزیہ کاری کی بذات خود صلاحیت ذرا بھی نہیں لیکن شہرت چونکہ یہ ہے کہ آپ "ترجمان" ہیں، "ترجمانی" فرماتے ہیں اس لیے بات غور سے سنی جاتی ہے۔ فرمایا کہ جو کچھ ہوا، بظاہر صدمے والی بات ہے لیکن پائیدار اور مستقل امن کی راہ اسی سے ہموار ہو گی۔ یعنی تائید مزید اس بات کی کردی۔ کیا خیال جی؟