Friday, 29 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Saday Naal Raho Ge Te

Saday Naal Raho Ge Te

قبلہ لال چند کی "اہلی" اور ایک اختلافی نوٹ پر ایک گرما گرم بحث میڈیا میں چھڑ گئی حالانکہ یہ معاملہ کبھی اہم تھا ہی نہیں۔ سب نہیں تو اکثر کو پتہ تھا جنہیں نہیں پتہ تھا انہیں قبلہ لال چند کی کمال خود اعتمادی سے پتہ چل گیا جو انہوں نے کاغذات نامزدگی داخل کراتے وقت قصداً ظاہر کی۔ قبلہ لال چند مول چند پشتینی اور قدیمی صادق و امین ہیں جسے شبہ تھا دور ہو گیا، الحمد للہ۔ قبلہ لال چند مول چند نے البتہ ایک اہم بات کی ہے، بات نہیں، انکشاف کے لیے یا ہنوز بریک، فرمایا ہے کہ کاغذات کی جانچ پڑتال کے عمل سے جو پولنگ کے بعد بھی بطریق ہائے دگر جاری رہے گا ایک تہائی ارکان اسمبلی فارغ ہو جائیں گے۔ نیوز بریک کا جو حصہ وہ بریک کرتے کرتے رہ گئے وہ شاید نہیں یقینا یہ ہو گا کہ یہ فارغ ہونے والے ارکان سبھی کے سبھی مسلم لیگ ن سے ہوں گے۔ ظاہر ہے کاغذات نامزدگی میں ہونے والی غلطیاں کوئی نہ کوئی پکڑ ہی لے گا اور غلطی اگر ن لیگی کرے گا تو باسٹھ تریسٹھ والا کلہاڑا خود کار لیور کے تحت حرکت میں آئے گا۔ اقامہ کیس میں فارمولا تو طے ہو ہی چکا ہے۔ ٭٭٭٭٭بہرحال یہ غیر اہم معاملہ تھا بحث کی ضرورت ہے نہ فائدہ۔ اس سے زیادہ اہم تو وہ انٹرویو تھا جو سرتاپا صادق و امین خان نے بی بی سی کو دیا۔ یہ بہت دلچسپ انٹرویو تھااور اتنے دن گزرنے کے باوجود سوشل میڈیا پر مزاح کا ہدف بنا ہوا ہے۔ انٹرویو میں بی بی سی کی اینکر پرسن نے سوال کیا خان صاحب آپ نے اپنے صوبے میں کتنی ملازمتیں یا مواقع روزگار پیدا کیے۔ موصوف نے جواب میں جو فرمایا اس کا یک لفظی ترجمہ "آئیں " کے سوا کچھ اور نہیں ہو سکتا۔ اینکر پرسن نے سوال دھرایا خان صاحب نے جواب میں فرمایا "بائیں " اینکر نے یہی سوال تیسری مرتبہ دھرایا تو خان صاحب کا جواب تھا "شائیں "آئیں بائیں اور شائیں میں یہ سوال تمام ہوا تو اینکر پرسن نے صوبے میں نئے بنائے جانے والے تعلیمی اداروں سکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں کی تعداد معلوم کی۔ خان صاحب نے آئیں بائیں اور شائیں مکرر ارشاد فرمایا اور یوں یہ انٹرویو تمام ہوا۔ اسی دوران بی بی سی نے پیپلز پارٹی کے رہنما بلاول زرداری بھٹو سے بھی ایسا ہی انٹرویو کیا۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ بلاول نے ہر سوال کا جواب دیا اور آئیں بائیں شائیں کے "سیٹ پیٹرن" سے کھلا انحراف کیا۔ ٭٭٭٭٭قبلہ لال چند مول چند نے ایک ٹی وی انٹرویو میں اینکر پرسن کے اس نکتے کو بوجھل دل اور بجھے ہوئے لہجے میں تسلیم کیا کہ اگرچہ ماحول انتخابی بنتا جا رہا ہے لیکن ابھی تک صادق و امین خاں کی لہر کا تاثر بالکل نہیں بنا۔ لال چند مول چند نے البتہ یہ اختلافی نوٹ نشر فرمایا کہ لہر ابھی نہیں بنی تو کوئی بات نہیں۔ صادق امین خاں عید کے بعد انتخابی مہم شروع فرمائیں گے پھر دیکھیں گے لہر بنتی ہے یا نہیں۔ لال چند مول چند نے یہ بالکل صحیح فرمایا کہ "کوئی بات نہیں " عید کے بعد بھی لہر نہ بن سکی تو بھی کوئی بات نہیں والی بات سو فیصد در ہو گی۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ خان صاحب بوجوہ اگر انتخابی مہم نہ بھی چلائیں تو بھی کوئی بات نہیں۔ ان کے حق میں انتخابی نتائج کی برآمدگی کا ذمہ اوپر والوں نے اٹھا لیا ہے اور اس کی تصدیق گزشتہ روز ایک اینکر پرسن جمع کالم نگار نے اپنے کالم میں بھی کی۔ انہوں نے بتایا کہ اوپر والوں سے ربطہ مسلسل رکھنے والے ایک صاحب نے انہیں اطلاع دی ہے کہ لوح مضبوط میں خان صاحب کے لیے 120کی گنتی لکھ دی گئی ہے۔ میاں محمد بخشؒ نے فرمایا تھا "مالی دا کم پانی دینا بھر بھر مشقاں پاوے… مالک دا کم پھَل پھُل لانا، لاوے یا نہ لاوے"۔ یہاں تو اور بھی رعایت ہے۔ خان صاحب مشک بھرنے کی مشقت کریں یا نہ کریں بقول خبر نویساں اوپر والوں نے پھَل پھُل کی گنتی پہلے یہ طے کر دی ہے۔ ٭٭٭٭٭ساڈے نال رہوو گے تو عیش کرو گے۔ یہ گانا کئی برس پہلے دلیر سنگھ مہدی نے گایا تھا اور آج بھی مقبول ہے۔ صادق و امین خاں صاحب اس گانے میں بتائے گئے "اقوال زریں " کی عملی تفسیر ہیں جن کے وہ ساتھ ہیں وہ انہیں خوب عیش کرا رہے ہیں۔ سعودی عرب کے دورے پر تشریف لے جاتے وقت وہ اپنی ایک اے ٹی ایم ساتھ لے جانا نہ بھولے۔ اے ٹی ایم کا نام نیب نے کسی کلیریکل غلطی کی وجہ سے بلیک لسٹ میں ڈال رکھا تھا اور وہ باہر نہیں جا سکتے تھے۔ خان صاحب نے فون گھمایا جو ان کے اپنے ادارے عمران فائونڈیشن کے بورڈ آف گورنر کے معزز رکن زماں خاں نے اٹھایا جو وزیر اعظم ناصر الملک کی غیر جانبدار اور شفاف کابینہ میں داخلہ کے وزیر بھی ہیں۔ قانون میں گنجائش نہیں تھی۔ عمگر مومنوں پر کشادہ ہیں راہیں یہاں مومنوں کی جگہ "نگرانوں " پڑھیے۔ چنانچہ انہوں نے جوابی فون میں سیکرٹری داخلہ کو حکم دیا کہ اے ٹی ایم صاحب کو جانے دیا جائے۔ یوں خان صاحب کے ہمراہ محترم اے ٹی ایم صاحب بھی اڑن چھو ہو گئے۔ خان صاحب نے ایک خصوصی طیارے سے پرواز کی جس کا ایک گھنٹے کا کرایہ 8لاکھ روپے ہے۔ کل رقم کتنی بنی۔ جتنی بھی بنی پروا نہیں۔ خان صاحب ملک کو "عمر فاروقؓ کا طرز حکومت دینا چاہتے ہیں اس طرز عمل کے لیے 8لاکھ فی گھنٹہ تو کیا آٹھ کروڑ فی کروڑ گھنٹہ بھی دینا پڑ جائے تو سستا سودا ہے۔ جی جناب! ساڈے نال رہوو گے تو عیش کرو گے!٭٭٭٭٭رہا نیب تو اس کا موقف ابھی سامنے نہیں آیا۔ بہرحال یہ کلیریکل غلطی تھی چیئرمین صاحب سے توقع ہے کہ وہ اس کا "کفارہ"ادا کر دیں گے کل پرسوں عید ہے، کیا پتہ فطرانے کے ساتھ ہی یہ کفارہ بھی ادا فرما دیں۔ ٭٭٭٭٭نگران حکومت کے ایک اور وزیر بھی ہیں۔ نواز شریف کے سخت ناقد، بلکہ تبرائے مسلسل بھی کرتے رہے ہیں۔ شفاف الیکشن کے لیے انہیں بھی نگران کابینہ میں شامل کرنا جناب ناصر الملک نے ضروری سمجھا یا شاید کسی اور نے ان موصوف کی افادیت انہیں سمجھائی ہو گی جو وہ سمجھ گئے آخر معاملہ فہم ہیں۔ بہرحال، لطیفے والی بات یہ ہے کہ ان غیر جانبدار وزیر موصوف نے دو روز پہلے ایک پریس کانفرنس میں اعلان فرمایا کہ بجلی کی پیداوار پوری ہے۔ طلب کے تقریبا مطابق۔ یہ تو گویا غیر صارف غیر امین سابق حکومت کے دعوئوں کی تصدیق کامل تھی۔ صادق و امین خان صاحب اور ان کی جماعت اس غیر متوقع بیان سے بدمزہ تو بہت ہوئی لیکن کڑوا گھونٹ بھر کر رہ گئی اور کچھ احتجاج نہیں کیا۔ ہاں ایک احتجاج سابق حکومت کے خلاف کرنے کی اپیل ضرور کی۔ خان صاحب کا بیان آیا کہ کل لوڈشیڈنگ کے خلاف کارکن پورے ملک میں بھر پور احتجاج کریں۔ یہ تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلا احتجاج تھا۔ یعنی ایسا احتجاج جو سابق حکومت کے خلاف کیا جانا تھا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ "یوم احتجاج" پر پورے ملک میں ایک بھی کارکن، کسی سڑک تو کجا کسی گلی میں بھی نہیں نکلا۔ لگتا ہے کارکنوں نے بھی اپنا تکیہ "بقول شخصے اوپر والوں " پر کر لیا ہے۔