یادش بخیر، عرصہ بعد مسیحائے قوم (ریٹائرڈ) پرویز مشرف کا ذکر سننے بلکہ پڑھنے کو ملا۔ عرصہ ہو گیا آپ مفقود الخبر ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے آپ کی خیر خیریت کی خبر کسی نہ کسی ویڈیو کلپ کے ذریعے مل جایا کرتی تھی جس میں آپ گاہے گلاس بدست، گاہے گلاس برسردوش یا سر جھولتے ڈولتے نظر آیا کرتے تھے۔ پس منظر میں بھارتی فلمی نغمے گونج رہے ہوتے تھے اور پیش منظر میں جنت نگاہ متحرک نظارے۔ پھر یہ ویڈیوز آنا بند ہو گئیں۔ سننے میں آیا کہ نصیب دشمناں آپ کی صحت خراب ہے۔ اب عرصے بعد آپ کا ذکر ایک خبر میں آیا۔
خبر یہ ہے کہ امریکہ نے کراچی کے اس رکشہ ڈرائیور احمد ربانی کو بے گناہ قرار دے کر رہا کر دیا ہے جس نے 19سال قید میں کاٹے اور جسے پرویز مشرف نے دہشت گرد قرار دے کر امریکہ کے ہاتھ فروخت کر دیا تھا اور اس کے عوض پانچ ہزار ڈالر وصول فرمائے تھے۔ 19سال بعد امریکہ کو پتہ چلا کہ احمد ربانی دہشت گرد نہیں ہے۔ (امریکہ کو آخر اتنی جلدی کیسے پتہ چلا جاتا ہے کہ کون بے گناہ ہے اور کون گناہ گار؟)
٭پرویز مشرف نے احمد ربانی کی طرح کے ہزاروں پاکستانی امریکہ کے ہاتھ بیچے اور ہر ایک کے عوض 5ہزار ڈالر وصول کئے۔ اس طرح انہیں خاصی بڑی یافت ہو گئی۔ اپنے اس طرز تجارت کو وہ روگزار فقیر، قرار دیا کرتے تھے اور یہ مت سمجھئے کہ سارے ڈالر وہ خود ہی کھا جایا کرتے تھے۔ کچھ حصہ وہ اپنے رفقائے کار کو دیتے تھے اور کچھ بچا بھی لیتے تھے۔ سنا ہے، اسی بچی ہوئی رقم سے ان کا علاج ہو رہا ہے۔ دعا ہے کہ جلد صحت یاب ہوں تاکہ اپنی صحت مند سرگرمیاں پھر سے شروع کر سکیں۔ جن کی ویڈیوز گاہے گاہے لوگوں کی ایمان افروز کا باعث بنا کرتی تھیں۔ فی الحال تو یہ رنگین اور بابرکت محفلیں سونی پڑی ہیں۔
٭اس کاروبار کے نتیجے میں احمد ربانی کی ساری جوانی گوانتانامو کے دوزخ میں راکھ بن گئی۔ اب جو احمد ربانی امریکہ سے پاکستان واپس پہنچے گا، وہ 19سال پہلے کا جوان رکشہ ڈرائیور نہیں ہو گا۔ ایک ازکار رفتہ بڈھا ہو گا جس کی توانائی کی آخری رمق بھی گوانتانامو کا پتھریلا فرش چوس گیا ہو گا۔ ایسا ہی ماجرا ان ہزاروں پاکستانیوں کا بھی رہا ہو گا، جو مشرف کے روزگار فقیر، کی نذر ہو گئے۔ بہرحال آپ کو رنجیدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ گورنر سٹیٹ بنک رضا باقر کا فارمولا یاد رکھیے اگر ان ہزاروں نے اتنا بڑا گھاٹا اٹھایا تو کیا ہوا، کچھ کا، بشمول مشرف، فائدہ بھی تو ہوا۔ گورنر موصوف کے بقول ہمیں یہ پہلو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ مشرف کا یہ طرز تجارت آج بھی کسی اور رنگ ڈھنگ میں جاری ہے اور گورنر موصوف کا فارمولا جو کل بھی لاگو تھا آج بھی نافذ العمل ہے۔
٭وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے اپوزیشن کو بجا مشورہ دیا ہے کہ وہ سنجیدہ سیاست کرے۔ مہنگائی ایک سنجیدہ معاملہ ہے، اس پر احتجاج کرنا غیر سنجیدہ۔ وزیر اعلیٰ کا نہ صرف مشورہ سنجیدہ ہے بلکہ ان کی سیاست بھی کمال درجہ سنجیدہ ہے۔ حال ہی میں انہوں نے اپنی سیاست کو مزید سنجیدہ بنانے کے لئے نیا طیارہ خریدنے کا فیصلہ کیا ہے۔ موجودہ جہاز قدرے پرانا ہو چکا ہے اور قدرے پرانے جہاز کے ساتھ قدرے سنجیدہ نہیں ہو سکتی۔ وزیر اعلیٰ کے ساتھ ان کی کابینہ بھی سنجیدہ سیاست کرتی ہے۔ انہیں نئی کاریں خریدنے کے لئے کروڑوں روپے کی منظوری دی گئی ہے تاکہ ان کی سیاست بھی مزید سنجیدہ ہو سکے۔ موجودہ کاریں سال بھر پرانی ہیں جن کی وجہ سے سیاست کی سنجیدگی متاثر ہو سکتی ہے۔ وزراء کی رہائش گاہوں کی تزئین و آرائش کے لئے مزید کروڑوں روپے منظور کئے گئے ہیں۔ اس تزئین نو سے سنجیدگی کی آرائش بھی بڑھ جائے گی۔
٭وفاقی وزیر شہر یار آفریدی امریکہ سے فرانس پہنچے۔ ان سے پاکستانیوں نے پوچھا کہ کشمیر پر آپ کی کن سے ملاقات ہوئی۔ فرمایا کہ میں تو یہاں اپنے آدھے سر کے درد کا علاج کرانے آیا ہوں۔ نواز حکومت کس درجے نالائق تھی، اندازہ لگائیں۔ اس نے آدھے سر کے درد کا علاج کرانے کے لئے ایک بھی ہسپتال نہیں بنایا۔ بنایا ہوتا تو بے چارے شہر یار آفریدی کو اپنے علاج کے لئے در یعنی امریکہ اور بدر یعنی فرانس مارے مارے نہ پھرنا پڑتا۔
٭دبئی میچ کا نتیجہ۔ پاکستان میں جشن، مقبوضہ کشمیر میں جشن، بنگلہ دیش میں جشن۔ ہندوستان میں سوگ اور "ہندو تواستان"میں تو بہت ہی سوگ۔ اللہ اکبر
٭کراچی کے معاصر نے رپورٹ دی ہے کہ پچھلے اڑھائی برس میں 40فیصد چھوٹے تاجروں کے کاروبار بند ہو گئے اور ان کی دکانوں کو تالے لگ گئے اور اس عرصہ میں صرف کراچی کے درجنوں چھوٹے تاجر خودکشی کر چکے ہیں۔ یہ رپورٹ کراچی کی ہے لیکن باقی ملک میں بھی ایسا ہے۔ حکومت نے ہر شے پر ٹیکس تو لگایا ہی ہے۔ چھوٹے تاجروں پر بھی طرح طرح کے ٹیکس لگا دیے ہیں۔ چند روز پہلے ایک ویڈیو وائرل ہوئی کہ ایک دکاندار کو گرفتار کر لیا کہ وہ چینی اور آٹا مہنگے داموں بیچ رہا تھا۔ گرفتاری کے بعد اس تاجر نے ٹکریں مار مار کر اپنا سر زخمی کر لیا۔ جو اجناس اس نے مہنگی بیچی تھیں، وہ اسے اسی بھائو ملیں تھیں۔
حکومت کی مہنگائی کے خلاف مہم کا یہ مقصد نہ تھا۔ نچلی انتظامیہ کو حکم ہوتا ہے، دکانداروں کو پکڑو۔ خود وہ مہنگای بڑھانے پر تلی ہوئی ہے۔ ریاست مجبوری کے جال میں پھنسا دی گئی ہے۔ آئی ایم ایف کا حکم نامہ لرزہ خیز حالات کی پیش گوئی کر رہا ہے۔ حکم نامہ یہ ہے، ٹیکس بڑھائو، بجلی 30روپے فی یونٹ مہنگی کرو، حکم ماننا ہی پڑے گا ورنہ امداد نہیں ملے گی۔ آنے والے وقت میں صرف ایلیٹ کلاس رہ جائے گی۔ کاروبار بھی اسی کے، صارفین بھی اسی کے۔ عوام اب ریاست کے کسی کھاتے میں نہیں رہے۔ تھے بھی تو حرف مکرر کی طرح سٹا دیے گئے۔ خیر ہو ریاست مدینہ بنانے کے دعوے کرنے والوں کی جو یہ عزم ظاہر کر رہے ہیں کہ معیشت کو مزید اوپر لے جائیں گے۔