سیالکوٹ میں جو ہوا، بہت برا ہوا۔ سری لنکن فیکٹری منیجر کو کچھ لوگوں نے ہجوم کر کے مار ڈالا اور کہا کہ مرنے والا توہین رسالت کا مرتکب ہوا ہے۔ دنیا میں اس واقعے کی بہت شہرت ہوئی اور پاکستان مخالفوں نے اسے اور بھی اچھالا۔ کیا بدقسمتی ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے دور سے پاکستان جب بھی دنیا میں مشہور ہوا، ایسے ہی کاموں کی وجہ سے ہوا، جہاں کہا جا سکتا ہے کہ بھارت کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا۔
مذہب کے نام پر تشدد ہمارے ہاں ہی اتنا زیادہ کیوں ہے۔ عجیب سا سوال ہے کہ دنیا میں چھوٹے بڑے پچاس کے لگ بھگ مسلمان ملک ہیں۔ ان سب ملکوں میں توہین مذہب کے جتنے واقعات مل ملا کر ہوتے ہیں اس کے ٹوٹل سے بھی زیادہ اکیلے پاکستان میں ہوتے ہیں۔ سوال عجیب ہے تو کیا عجب، کہ ماجرا بھی تو بہت عجب ہے۔ یہاں مذہبی تشدد کی حوصلہ افزائی بھی بہت زیادہ ہے۔ کوئی شخص اس حوصلہ افزائی کی مخالفت کرے تو پھر اسے چھپنے کو جگہ نہیں ملتی۔ اول تو کوئی حوصلہ افزائی کی مخالفت کرتا ہی نہیں۔ ہر ایک کو جان عزیز ہے۔ کرے تو کیسے کرے۔ عیاں کوئی پناہ گاہ بھی تو نہیں۔
وزیراعظم نے فرمایا: انہوں نے اس واردات کا نوٹس لے لیا ہے اور مجرم کڑی سزا سے نہیں بچ پائیں گے۔ بے اختیار سانحہ ساہیوال یاد آ گیا، جس کے مجرم حکومت کے ہاتھوں غالباً یا شاید یا یقینا کچھ کہا نہیں جا سکتا، عبرت ناک انجام کو پہنچ چکے۔ عمران خان نے جو وعدہ کیا تھا، پورا کر دکھایا۔ ارے آپ تو "سطر پڑھ کر غصہ ہی ہو گئے۔"یاد تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بھی آئے۔ انہوں نے اس طرح کے تشدد، اس کی ریاستی حوصلہ افزائی اور قانون کی رٹ کے حوالے سے کوئی فیصلہ دیا تھا، پھر عبرت ناک انجام کو پہنچتے پہنچتے بچے۔ اللہ محفوظ رکھے۔
٭ماضی قریب بلکہ ماضی بہت ہی قریب کی بات ہے۔ نواز لیگ کی حکومت کے خلاف تشدد کی تحریک چلی۔ وزیروں اور ارکان اسمبلی کے گھر اور املاک جلائی گئیں، ہر طرف سے پکڑو کا سماں تھا، جسے پکڑا، کہا یہ بھی گستاخ ہے۔ تب پی ٹی آئی نے اس تحریک کی بھرپور حمایت کی تھی۔ اس کے لیڈر اس تحریک کے دھرنوں میں تشریف فرما ہوئے، خود عمران خان نے فرمایا، جی چاہتا ہے جا کر میں بھی ان میں بیٹھ جائوں۔ ایک وزیر احسن اقبال کو گولی ماری گئی۔ پی ٹی آئی نے گولی مارنے کی تائید کی۔ ابرارالحق نے پر جوش خطاب فرمایا، کہا میں احسن اقبال کو گولی مارنے کی مذمت نہیں کر سکتا کیونکہ یہ لوگوں کے جذبات اور عقیدے کا مسئلہ ہے۔ پی ٹی آئی کے ایک سخت گیر حامی تجزیہ نگار نے دلچسپ جگلیریکی۔ احسن اقبال کی بازو پر پٹی باندھی ہوئی تصویر کو الٹ (Mirror) کیا اور تبصرہ درج کیا کہ دیکھو کیا فراڈ ہے، کل دائیں ہاتھ پر پٹی بندھی ہوئی تھی، آج بائیں بازو پر پٹی نظر آ رہی ہے۔
پی ٹی آئی کے صادقوں امینوں کی حکومت آئی تو وہی تحریک پھر نمودار ہوئی۔ حکومت کے لیے پریشان کن ماحول تھا۔ نواز لیگ نے اس تحریک کی حمایت یا حوصلہ افزائی سے انکار کردیا اور صرف اسی نے نہیں، پیپلزپارٹی اور اے این پی نے بھی۔ اسے تبدیلی کا مظہر سمجھئے یا ان لوگوں کا فراڈ کہئے؟
٭نوازشریف کے دور میں کچھ ہی عرصہ قبل قتل ہونے والے گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قتل کے جرم میں ممتاز قادری کوسزائے موت ہوئی۔ سپریم کورٹ میں اپیل گئی۔ جسٹس کھوسہ کی سربراہی میں بنچ نے اپیل مسترد کردی۔ بعدازاں انٹرویو میں جسٹس کھوسہ نے (بعداز ریٹائرمنٹ) انکشاف کیا کہ انہیں جنرل راحیل شریف نے کہا تھا، فیصلہ سنائو، ہم پوری سکیورٹی دیں گے۔ سزا کھوسہ صاحب نے سنائی لیکن اس سزا کا ملبہ بھی نوازشریف پر ڈالا گیا اور کہا گیا کہ عاشق رسول کی پھانسی کا بدلہ اسے پانامہ لیکس میں نااہلی کی صورت میں ملا۔ جس نے سزا سنائی اور جس کے حکم سے سنائی، وہ تو اصحاب نعمت و عزت ٹھہرے۔
٭لوگ توقع کر رہے ہیں کہ سانحہ سیالکوٹ کے ذمہ داروں کو سزا ملے گی۔ شاید! اور یہ شاید اس لیے کہ معاملہ بین الاقوامی ہو گیا۔ پہلے ہی ہمارے لچھن دنیا بھر میں زیر بحث ہیں۔ اوپر سے ایف اے ٹی ایف اور گرے لسٹ، بلیک لسٹ کا معاملہ بھی ہے۔ اس لیے شاید کی توقع کی جا سکتی ہے ورنہ حکومتی رجحان تو بڑی حد تک مائل حق پرستی ہے۔ تحریک طالبان پاکستان کو عملاً عام معافی دی جا سکتی ہے، اسے قومی دھارے میں لایا جا رہا ہے، اس دوران اے پی ایس پشاور کے ڈیڑھ سو سے زائد بچوں کا خون نہ جانے کس دھارے میں بہہ کر کہاں کا کہا چلا گیا۔ گویا لاپتہ ہوگیا۔ اس پس منظر میں سانحہ سیالکوٹ کے ذمہ داروں کے لیے دونوں طرح ہی شاید کا لفظ بے دھڑک استعمال ہو سکتا ہے۔ یوں کہ سزا ملے گی شاید، چھوڑ دیئے جائیں گے۔ شاید۔ مزید وضاحت کے لیے سانحہ ساہیوال کے ذمہ داروں کے عبرت ناک انجام کو حاشیے میں درج کیا جا سکتا ہے۔
٭حب الوطنی کا معاملہ بھی مذہبی شدت پسندی کے ہم پلہ ہے۔ کچھ ہی عرصہ پہلے تک یہاں غداری اور مودی کی پارٹی کے سرٹیفکیٹ تھوک کے حساب سے تقسیم کئے جا رہے تھے۔ غنیمت ہے، کسی نے کسی کو یہ کہہ کر Lynch نہیں کر دیا کہ غدار تھا، بدبخت جہنم رسید کر دیا، لائو میرا انعام۔
٭انقلاب چرخ دوراں پھر کچھ یوں ہوا کہ مقبوضہ کشمیر والا معاملہ ہوگیا۔ کیا معاملہ ہوگیا۔ بتانے کی ضرورت نہیں۔ نہ سمجھ آئے تو اشاراتی الفاظ حاضر ہیں۔ ٹرمپ، وائٹ ہائوس، دوسرا ورلڈ کپ، انضمام، خاموشی (ایک منٹ والی نہیں، وہ جو تین سال سے جاری ہے) مودی کی جیت کے لیے دعائیں، پاکستانی نقشوں سے مقبوضہ کشمیر کا اخراج وغیرہ۔ تب سے غداری کی تقسیم اسناد کی منڈی میں مندا چل رہا ہے۔