Friday, 01 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Ta Hayat Editor

Ta Hayat Editor

کراچی کے نواحی علاقے میں پیش آنے والا واقعہ دو معاشرتی اور ایک ریاستی رویے کی ترجمانی کرتا ہے۔ یہاں ایک حکومتی ایم پی اے جام اویس جوکھیو نے ایک نوجوان ناظم الدین جوکھیو کو محض اس لئے قتل کر دیا کہ اس نے ان عربوں کو اپنے گائوں میں معصوم پرندوں کے شکار سے روکا تھا، جو مذکورہ قاتل ایم پی اے کے مہمان تھے۔ مقتول کے لواحقین نے جن کا تعلق سالار گوٹھ ضلع ملیر (کراچی) سے ہے، قومی شاہراہ پر دھرنا دیا اور واقعے کی خبر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تو سندھ حکومت کو قاتل کی گرفتاری کا حکم دینا پڑا اور پولیس نے اسے پکڑ لیا۔

ریاستی رویہ یہ ہے کہ قاتل کو ہتھکڑی نہیں لگائی گئی۔ کیونکہ وہ بااثر وڈیرا ہے اور پیپلز پارٹی(سندھ کی حکمران جماعت) کا ایم پی اے بھی۔ سوشل میڈیا پر اسی روز ایک اور تصویر بھی وائرل ہوئی، جس میں ایک کمر عمر بچے کو ہتھکڑیوں میں جکڑے دکھایا گیا، جس نے کسی دکان سے بسکٹ چوری کئے تھے۔ ریاست کے اس رویے پر کچھ مزید کہنے کی ضرورت نہیں۔ یہاں ساڑھے چار سو افراد کا قاتل رائو انوار ریاست کا اثاثہ کہلاتا ہے، اسے وی آئی پی پروٹوکول دیا جاتا ہے اور بسکٹ چرانے والے بچے کو ہتھکڑیاں لگتی ہیں۔ ریاستی رویے کی مزید تعریف Definationیہ ہے کہ قاتل ایم پی اے جلد رہا ہو جائے گا اور ایک دن بری بھی۔ جیسا کہ سانحہ ساہیوال کے قاتل سرکاری سرپرستی میں بری ہوئے۔

معاشرتی رویوں کا ماجرا یہ ہے کہ یہاں انسانی قتل بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ کچھ غل مچ جائے تو مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے، ورنہ زندگی معمول کے مطابق رواں دواں رہتی ہے۔ دوسرا رویہ یہ ہے کہ جانوروں اور پرندوں کا قتل عام ہمارا بنیادی انسانی حق ہے اور یہ رویہ ہمارا ہی نہیں، دنیا بھر کا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ بہت سے ممالک میں حکومتیں جانوروں کے حقوق کا تحفظ کرتی ہیں، بہت سے ممالک میں نہیں کرتیں۔

کچھ عرصہ پہلے خبر آئی تھی کہ سندھ کی جھیلوں میں پردیسی پرندے لاکھوں کی تعداد میں اترنے والے ہیں اور مالدار قاتلوں کے ریوڑ ان کے شکار کے لئے نکل پڑے ہیں۔ خبر میں یہ بھی تھا کہ محکمہ وائلڈ لائف، جس کی بنیادی ذمہ داری جانوروں کے تحفظ کی ہے، قاتلوں کے ریوڑوں کا مددگار ہے، محکمہ کے کرپٹ افسر لاکھوں روپے کی رشوت لے کر ان معصوم پرندوں کے شکار کا"اوپن لائسنس" جاری کرتے ہیں، یہ قاتل ریوڑ صرف سندھ نہیں، پنجاب اور باقی صوبوں میں بھی ہیں۔ ٹی وی کے میزبان پڑھے لکھے تصور کئے جاتے ہیں لیکن ایک نامور ٹی وی اینکر نے سینکڑوں مرغابیاں اور تیتر ایک ہی ھلّے میں مار ڈالے پھر ان کی لاشیں اپنی قیمتی گاڑی پر سجا کر تصویر وائرل بھی کی۔ کسی نے اعتراض کیا تو پینترا بدلا اور کہا کہ میں نے اتنے نہیں مارے، کسی اور نے گیلے تیتر مار کر میری گاڑی پر رکھ دیے۔

پرندے ہماری طرح حساس ہوتے ہیں، دکھ درد محسوس کرتے ہیں اور پیار کیا جائے تو جواب میں اس طرح ٹوٹ کر پیار کرتے ہیں کہ آدمی کو حیران کر دیتے ہیں۔ شوق پورا کرنے کے لئے ان کی جان لینا انسانی نہیں، شیطانی سوچ ہے۔ اس کے سوا کیا کہیے۔

٭نامور صحافی اور ایڈیٹر قدرت اللہ چودھری بھی چل بسے۔ کورونا کا شکار ہوئے تھے اور علاج کے بعد گھر منتقل ہو گئے تھے لیکن نصف صدی سے مشقت کا مارا بدن اندر سے کھوکھلا ہو چکا تھا۔

ان کے بارے میں لکھنے کو بہت کچھ ہے لیکن ایک سطر میں بات مکمل ہو تو یہ کہنا کافی ہے کہ ایک فرشتہ صفت انسان تھے، جو پوری پیشہ ورانہ زندگی میں دنیا کی محبت کے کبھی شکار نہیں ہوئے۔ پیشہ ورانہ اعتبار سے ان کا شمار کاملوں میں کیا جا سکتا ہے۔ زیادہ ذمہ داری نیوز روم میں رہی۔ ایک بار رپورٹر تعینات ہوئے اور نیوز ایڈیٹر حیران ہوتے تھے کہ یہ واحد رپورٹر ہے، جس کی خبر میں سے ایک بھی سطر نہ کاٹی جا سکتی ہے نہ بڑھائی جا سکتی ہے، ایجاز و اختصارکا فن جانتے تھے اور صحت زبان کے عالم، ایک لفظ بھی ایسا نہ لکھتے، جسے بدلنے کی ضرورت ہو۔ پھر طویل عرصہ ایڈیٹر کے عہدے پر رہے اور تادم مرگ یعنی تاحیات ایڈیٹر۔

2014ء سے شروع ہونے والے بحران میں بڑے بڑے اسلام دوست صحافی ڈول گئے اور جمہوریت کے خلاف مورچہ بند ہو گئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے جگمگاتے بنگلوں اور چم چماتی گاڑیوں کے مالک بن گئے، چار چار پلاٹ الاٹ کرا لئے۔ چودھری صاحب نے ضمیر فروشی کا کبھی سوچا بھی نہیں اور غریبی میں نام پیدا کر کے مالک حقیقی سے جا ملے۔ جمہوریت سے وابستگی میں ان کا قدم کبھی ڈولا تک نہیں۔ صاحب علم بھی تھے، صاحب حلم بھی۔ جتنے نرم دل تھے اتنے ہی دلیر بھی۔ اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائیں، ان کی وفا پرستی اور صفا مطلبی کا اجر عنایت فرمائے۔

٭وزیر اعظم فرماتے ہیں، مہنگائی کی صورتحال باقی دنیا سے بہتر ہے۔ معاشی ماہرین کہہ رہے ہیں کہ بدترین معاشی بحران ابھی آنا ہے۔ امید ہے، بدترین ہونے کے باوجود باقی دنیا سے بہتر ہی ہو گا۔ وزیر اعظم نے بتایا کہ دنیا میں مہنگائی کی مجموعی شرح 50فیصد ہے۔ یہ اعداد و شمار انہیں یہاں سے کہاں سے ملے؟ نیٹ پر جہاں بھی ڈھونڈا، ساڑھے تین فیصد شرح ہی ملی۔ ساڑھے 40فیصد کا یہ فرق کیسے پورا ہو گا۔ پتہ چلے تو ناسمجھ لوگوں کو بھی سمجھانے میں مدد ملے جو یہ کہتے ہیں کہ نواز شہباز کا دور سستائی کا دور تھا۔ ناسمجھ نہیں جانتے کہ وہ سستائی مصنوعی تھی۔ موجودہ "بہتر مہنگائی" اصلی ہے۔ اصلی کی قدر کرو بھائی، نقلی اور مصنوعی سے جان چھوٹنے پر شکر ادا کرو بھائی۔