Friday, 01 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Takheer Se Milne Wali Khabrain

Takheer Se Milne Wali Khabrain

کہتے ہیں یہ تیز ترین اطلاعاتی دور ہے۔ ادھر وقوعہ ہوا، ادھر خبر کُل جہان تک پہنچی۔ موبائل فون اطلاعات و خبریات کی زنبیل بلکہ جام جہاں نما بن چکا ہے۔ بات ادھر منہ سے نکلی، ادھر موبائل پر چڑھی۔ دوسری طرف چوبیسوں گھنٹے خبریات کے نشر نامے بعنوان ٹی وی بے حساب تعداد میں موجود ہیں۔ لیکن اس کے باوجود بعض خبریں دیر سے بلکہ بہت دیر سے آتی ہیں یہاں تک کہ انہیں نشر ہونے میں تین سال سے بھی اوپر کا عرصہ لگ جاتا ہے۔

وزیر اعظم نے یہ خبر ایک تقریب میں لوگوں سے ملاقات میں دی۔ بتایا کہ کرپشن ختم کرنے کا وعدہ تو میں نے اقتدار میں آنے کے 90روز میں ہی پورا کر دیا تھا۔ یعنی 2018ء کے اواخر کی بات ہے اور اب 2021ء بھی گزر گیا، 2022ء کا دوسرا مہینہ آ پہنچا۔ وزیر اعظم نہ بتاتے تو لوگوں کو کہاں پتہ چلتا۔ زمانہ قیامت کی چال سے رواں ہے۔ کچھ چیزیں اتنی تیز رفتار ہیں کہ زمین کے مدار سے نکل جاتی ہیں، جانے کتنی کہکشاوں کا چکر لگایا اور واپس پاکستان پہنچ گئیں۔ شاید وزیر اعظم نے جب کرپشن کا خاتمہ کیا تو یہ خبر عوام تک پہنچنے کی بجائے راستہ بھٹک کر افلاک پیمائی کے لئے نکل گئی، اب واپس پلٹی تو وزیر اعظم نے لوگوں تک پہنچا دی۔

٭وزیر اعظم کی یہ تقریب ملاقات دراصل ترجمانوں کا اکٹھ تھا جو پہلے تو ہر تیسرے چوتھے روز ہوا کرتا تھا، اب کچھ بحرانی حالات سے نمٹنے کے لئے لگ بھگ ہر روز ہی ہو رہا ہے۔ اس اعتبار سے اسے "روزنامہ تقریب ملاقات" یا روزنامہ جلسہ بھی کہا جا سکتا ہے۔ روزنامہ سے یاد آیا کہ اردو میں یہ لفظ اخبار کا مترادف ہے حالانکہ اس کا مطلب اخبار ہرگز نہیں ہے۔ اردو اخبارات نے اپنی پیشانی پر اس کی اشاعت کا دورانیہ بتانے کے لئے انگریزی لفظ dailyکے مترادف کے طور پر چھاپنا شروع کیا اور رفتہ رفتہ یہ اخبار کا مترادف ہو گیا۔ حالانکہ روزنامہ کا مطلب ہے، دن بھر کی روداد، یا دن بھر کا کچاّ چٹھّا۔

پرانے دور میں کتابوں کے نام میں بھی "روزنامہ" لکھا جاتا تھا۔ مثلاً حیدر آباد دکن کی صدی بھر پہلے کی ایک کتاب کا نام ہے، روزنامہ سفر عراق و ایران۔ مصنف کی جگہ "سپرنٹنڈنٹ تعمیرات" لکھا ہوا ہے۔ نام کا مطلب ہے عراق و ایران کے سفر کی روز بروز کی روداد۔ اسی طرح 1946ء میں لیاقت جنگ بہادر کی کتاب "روزنامہ سفر یورپ و امریکہ" چھپی۔ روزنامہ دراصل روزنامچے کا مترادف ہے۔ خواجہ حسن نظامی کے روزنامچے بہت مشہور ہوا کرتے تھے۔

روزنامہ "ڈیلی" کا مترادف نہیں ہے۔ ڈیلی کا ترجمہ ہر روز یا روزانہ ہے۔ سندھی اخبارات اپنی پیشانی میں روزانہ یا روزانو کا لفظ لکھتے ہیں۔ بنگلہ میں ڈیلی کا باکل درست مترادف ہے۔ دینک۔ بہت سے اخبار نکلتے ہیں۔ دینک بنگلہ دیش، دینک اتفاق، دینک امادر شوہوئے وغیرہ۔

٭یہ سچ میں اتنا لمبا چوڑا "پیرائے معترضہ" آ گیا۔ کئی خبریں اور بھی اتنی ہی دیر سے پہنچیں۔ مثلاً پاکستان دنیا کا سستا ترین ملک عمران خاں صاحب کے وزیر اعظم بنتے ہی بننے لگا تھا اور چھ ہی مہینوں میں یہ دنیا کا سستا ترین ملک بن چکا تھا لیکن اس کی خبر بھی وزیر اعظم نے بہت تاخیر سے دی۔ یعنی سال گزشتہ کے اخیری مہینوں میں دینا شروع کی۔ گویا اس میں بھی تین پونے تین سال کی تاخیر ہو گئی۔ اب تو خیر سے یہ دنیا کے نظام شمسی کا سستا ترین ملک بن چکا ہے۔ انگریزی لکھت پڑھت کرنے والوں سے التجا ہے کہ سستے ترین کا ترجمہ Cheapestسے نہ کریں۔ مہربانی ہو گی۔

٭جب بھی بحرانی فضا پیدا ہوتی ہے، وزیر اعظم ترجمانوں سے تقریب ہائے ملاقات کا سلسلہ تیز کر دیتے ہیں اور انہیں بتاتے ہیں کہ عوام میں جا کر بتائو کہ مہنگائی ہے نہ کھاد کی قلّت۔ سب اچھا ہے، ترجمان حضرات موقع پر تو وعدے وعید کر لیتے ہیں لیکن وعدہ پورا کبھی نہیں کرتے جس کی وجہ سے عوام اس طرح کی مفید صحت خبروں سے محروم رہ جاتے ہیں اور اپوزیشن کی مضر صحت خبروں پر اعتبار کر لیتے ہیں۔

یہ اچھی بات نہیں ہے۔ دراصل وزیر اعظم نے اپنا عملہ بہت کم رکھا ہے جس کی وجہ ان کی سادگی اور بچت کی پالیسی ہے۔ اب دیکھ لیجیے، وزیروں اور مشیروں کی تعداد سو سے بھی کم ہے۔ ترجمان حضرات اور معاونین خصوصی مل کر بھی دوسو نہیں بنتے۔ حضور، ایسی بھی کیا بچت کرنی جس کے نتیجے میں عوام خوشخبریوں سے محروم رہیں۔ کم سے کم سو پچاس وزیر اور رکھیں، ترجمانوں کی تعداد فی ضلع دس سے کم تو وارا ہی نہیں کھاتی۔ یہ کمی پوری کر دیں، پھر دیکھیں، ملک کو اوپر پہنچانے کی خبریں ملک والوں کو کس تیزی سے ملتی ہیں۔

٭ٹرانسپیرنسی کی کرپشن ریٹنگ والی لسٹ پر میڈیا میں حکومت کے خلاف کچھ زیادہ ہی اچھل کود ہو رہی ہے۔ لسٹ کے مطابق پاکستان نواز دور کے مقابلے میں کرپشن کی 16منزلیں اور ترقی کر گیا۔ یہ منفی رپورٹنگ کا شاخسانہ ہے۔ مثبت رپورٹنگ کیجیے، پھر آپ کو عمران حکومت کی تعریف کئے بغیر چارہ نہیں رہے گا۔ یوں ملاحظہ کیجیے کہ نواز شریف چار برس کی محنت کے بعد 124سے "لڑھک کر117نمبر پر آ گئے یعنی 180میں سے صرف 117نمبر لئے جبکہ عمران خاں کی مستعد حکومت نے محض تین سال کے دوران 180میں سے 140نمبر حاصل کر لئے۔ اسے فرسٹ کلاس فرسٹ نتیجہ نہ کہئے تو اور کیا کہئے۔