Friday, 01 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Terha Aangan

Terha Aangan

اہل ایمان نے ایک بار رات ہی رات میں پوری مسجد کھڑی کر دی تھی۔ علامہ اقبال صاحب کا مصرع یاد ہو گا کہ مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے،۔ شاہ عا لمی چوک میں مسجد شب بھر، آج بھی موجود ہے۔ حیرت ہے، لوگ اعتبار ہی نہیں کر رہے کہ راتوں رات ہماری جی ڈی پی جمپ مار کے دوگنی ہو گئی۔ اہل ایمان اگر ایک ہی رات میں گنبد و محراب سمیت پوری مسجد بنا سکتے ہیں تو جی ڈی پی کیا چیز ہے، اسے دوگنا کیا، اہل ایمان راتوں رات چوگنا بھی کر سکتے ہیں۔ یہ تو وزیر اعظم کی انکساری ہے کہ انہوں نے محض 5.3بتانے پراکتفا کیا، وہ چاہتے تو جی ڈی پی کی شرح گیارہ فیصد بتا کر پاکستان کو بھارت کے ہم پلّہ بھی دکھا سکتے تھے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا، آخر کسر نفسی بھی کوئی شے ہوتی ہے۔

٭٭لوگوں کی تو عادت سی پڑ گئی ہے کہ اٹھتے بیٹھتے "حقائق" کو چیلنج کیا کرتے ہیں۔ ایک صاحب ٹی وی پر عالمی بنک کی اب تک کی تازہ ترین رپورٹ کا حوالہ دے رہے تھے جس میں لکھا تھا کہ پاکستان نے درآمدات برآمدات کا توازن اور توانائی کے شعبے میں استحکام کر لیا تو اس سال یعنی 2022ء میں پاکستان کی جی ڈی پی 3.5ہو سکتی ہے۔ اس رپورٹ یعنی رپورٹ کی اس سطر میں "استحکام کر لیا تو"کے الفاظ اور 3.5کے عدد اور ہو سکتی ہے کہ "کلمۂ امکانیہ"کو انڈر لائن کرنے کی ضرورت ہے نہ ان کے گرد گول دائرے لگانے کی۔

آپ کو سچی حکومت کے وعدے پر اعتبار کرنا چاہیے اور اسے مبارکباد دینے کی سعادتِ دارین کا حصہ دار بننا چاہیے اور عالمی بنک کی اس رپورٹ کو اس کے خبث باطن سمیت مسترد کر دینا چاہیے۔ ٹی وی پر بیٹھے بعض "اینکراز اور اینکرات" پر تین حرف بھیجتے ہوئے حکومت کی انکشاف کردہ اس اضافی مسرت پر رقص کناں ہو جانا چاہیے کہ راتوں رات جی ڈی پی ہی پھول کر دوگنی نہیں ہو گئی بلکہ فی کس آمدن میں 200ڈالر کا اضافہ بھی ہو گیا ے۔ پہلی دو مسرّتوں کو دائیں بائیں کندھے پر رکھنا مت بھولئے کہ پاکستان میں کپاس باقی دنیا سے 5گنا سستی ہے اور یہ کہ پاکستان دنیا کا سستا ترین ملک ہے۔

٭اچھا تو "سستی ترین کھاد" پر شکر گزاری کرنے کے بجائے بلاول میاں نے کسان مارچ کے نام پر احتجاج شروع کر دیا ہے۔ ان کے ساتھ سختی سے پیش آنے کی ضرورت ہے۔ کھاد سستی بھی ہے اور وافر بھی، چنانچہ نام نہاد گرانی اور مزید نام نہاد قلت کا غوغا مچانے کاشتکاروں کی اطمینان بخش حد تک دھلائی کرکے پولیس نے نہایت نیک کام سرانجام دیا ہے۔ پولیس کے ساتھ ساتھ اس نیک کام کا ہہراپنجاب کے نیکو کار وزیر اعلیٰ کے سر پر بھی بندھتا ہے جو ایک سروے کے مطابق مقبول ترین وزیر اعلیٰ ہیں۔ سروے مبنی بر حقیقت ہے، ایک ذرا سی چوک ہو گئی۔ سروے نے انہیں وزیر اعظم سے بھی زیادہ مقبول دکھایا ہے۔ خیر کوئی بات ہیں، کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے۔

٭کھاد پانچ گنا سستی ہے۔ ڈی اے پی کی بوری یہاں دس ہزار سے کچھ اوپر میں مل رہی ہے(مطلب جہاں جہاں یا جسے جسے مل رہی)تو مطلب یہ ہوا کہ باقی دنیا میں 50ہزار روپے سے کچھ اوپر میں ملتی ہو گی؟ اور بھارت میں بھی اتنی ہی مہنگی ہو گی۔ یقینا۔ بہرحال گوگل سرچ کرنے کی کو شش مت فرمائیے گا کہ مفت میں پریشانی ہو گی۔ وہاں جھوٹ لکھا ہوا ملے گا۔ یہ کہ بھارت میں 50کلو ڈی اے پی کھاد کی بوری گیارہ سو روپے کی ہے، ڈیڑھ سو کی سب سڈی ہے اور یوں کاشتکار کو دس سو سے اوپر کچھ کی ملتی ہے۔ بھارتی رو پیہ ہم سے تین گنا تگڑا ہے تو گویا یہ قیمت تین ہزار روپے بوری ہوئی۔ آپ 5گنا کم کے چکر میں مت پڑیے، خواہی مخواہی کا جھنجھٹ اچھا نہیں۔ حب الوطنی کا تقاضا ہے کہ وزیر اعظم نے جو فرمایا، اس پر آمنا و صدقنا کہہ ڈالئے۔

٭وزیر اعظم تین بار بلکہ تین سے زیادہ بار یہ بتا چکے ہیں کہ پاکستان دنیا کا سستا ترین ملک ہے لیکن الٹی کھوپڑی والوں کو یہ سچ ہضم نہیں ہو رہا۔ مشہور عالمی الٹی کھوپڑی والے رسالے اکانومسٹ نے اپنی تازہ اشاعت میں لکھا ہے کہ پاکستان دنیا کا تیسرا مہنگا ترین ملک ہے۔ پہلا ارجنٹائن اور دوسرا ترکی ہے۔ دونوں ملک ہم سے کہیں ترقی یافتہ ہیں (گردش دوراں کا شکریہ کہ اب تو بنگلہ دیش بھی ہم سے ترقی یافتہ ہے اور آنے والے سال میں شاید افغانستان بھی ہمارے مقابلے میں ترقی یافتہ کہلانے لگے) اس لئے الٹی کھوپڑی والے اکانومسٹ نے ہمیں اس فہرست میں شامل کر کے میرٹ کی خلاف ورزی کی ہیجو زیادتی ہے۔ کامیاب وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو چاہیے کہ یہ مسئلہ عالمی عدالت انصاف میں اٹھائیں اور اسے بتائیں کہ حضور، ہم تیسرا مہنگا ترین نہیں، پہلا سستا ترین ملک ہیں۔ شہزاد اکبر کو وکیل کر لیں۔ امید ہے انصاف ملے گا۔

٭ہمیں چین کا ماڈل اپنانا ہو گا۔ پاکستان کے لئے رول ماڈل ملائشیا کا ماڈل ہونا چاہیے۔ میں سویڈن کا ماڈل اپنانا چاہتا ہوں، پاکستان میں سعودی عرب کا ماڈل مثالی رہے گا۔ شمالی کوریا کا ماڈل بہترین ہے۔ ہماری منزل ریاست مدینہ ہے۔ یہ تین سال کا خلاصہ تھا، چوتھے سال کا دیباچہ یہ ہے کہ صدارتی نظام لانا ہو گا۔ ساری کہانی کا عنوان ناچ نہ جانے آگن ٹیڑھا رکھا جا سکتا ہے۔