نظر انتخاب دنیا بھر میں گھومی اور نصرت فتح علی پر اٹک گئی۔ اس عظیم منظر کا کرب واضح کرنے کے لئے نصرت سے بہتر کوئی کردار نہیں ہو سکتی تھی، چنانچہ نصرت نے سر ارو لے کا جادو جگایا اور یوں دنیا پہلی بار ان سے ہمہ گیر حد تک واقف ہوئی۔ یہ فلم بھی 1988ء میں ریلیز ہوئی یعنی اسی سال جب یہ غزل انہوں نے گائی۔
گائیکی میں نصرت کا کیا مقام تھا، اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ سلطان باہو کا لازوال کلام الف اللہ چنبے دی بوٹی جانے کب سے پنجاب بھر میں گایا جا رہا ہے لیکن نصرت نے گایا تو لگا، اسے ایسا ہی گایا جانا چاہیے تھا۔ اس کی تمام پرانی طرزیں نصرت کے بعد متروک(قریباً) ہو گئیں۔ اس طرح حضرت بلہے شاہ کا کلام بھی ہے۔ ہر دور میں لوک گلوکاروں نے اسے گایا ہے لیکن جب نصرت فتح علی نے گایا تو اس کلام کی پوری طاقت سامنے آئی۔ لگا جیسے بلہے شاہ قبر سے نکلے۔ نصرت کے پاس آئے اور کہا، میاں ایسے گائو اور انہوں نے ایسا گا دیا۔
٭موسیقی اسلام میں حرام ہے یا حلال، اس میں بحث ہمیں نہیں کرنی۔ ہمیں اس پر بحث نہیں کرنی ہے۔ ہر فرقہ کے علماء کی بھاری اکثریت ان روایات کو درست مانتی ہے جو اس کی حرمت میں آئی ہیں۔ البتہ علماء کی ایک قلیل تعداد ایسی ہے جو ان روایات کو ضعیف بلکہ موضوع سمجھتی ہے یا اس کی تاویل کرتی ہے۔ اس حوالہ سے مولانا جعفر شاہ پھلواروی کی تصنیف "اسلام اور موسیقی" کا مطالعہ افادے کا باعث بن سکتا ہے۔ مولانا پھلواروی جماعت اسلامی کے بانی ارکان میں سے تھے، بعدازاں انھوں نے سیاست میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا تو الگ ہو گئے لیکن مخالف کبھی نہیں رہے۔ ان کی تصنیف بائبل اور قرآن کے ادوار، اصحاب کرام اور تابیعن و تبع تابعین کے عہد کے باریک بینی کے ساتھ مطالعے کے بعد لکھی گئی ہے۔ ساڑھے تین سو صفحات کی یہ کتاب اپنی جگہ ایک حیرت انگیز کارنامہ ہے۔ اس بحث میں قطع نظر، صوفیائے اسلام میں ایک گروہ موسیقی کا علم رکھتا تھا اور اس کی باریکیوں سے ویسا ہی واقف تھا جیسا کہ خود اس فن کے استاد گھڑے۔
حضرت امیر خسرو فن موسیقی کے ماہر تھے اور ایسا ہی عبور حضرت مرزا مظہر جان جاناں کے بارے میں بھی بتایا جاتا ہے۔ حضرت مرزا بہت بڑے عالم دین اور صاحب طرز شاعر تھے اور اس سے بھی بڑے صوفی اور عارف۔ ان کے ایک عقیدت مند حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی نے اپنی شہرہ آفاق تفسیر قرآن لکھی، تو اسے حضرت مرزا صاحب کی نسبت سے "تفسیر مظہری" کا نام دیا۔ ان کے نقشبندی سلسلے کو سلسلہ مظہریہ شمسیہ کا نام دیا جاتا ہے اور ان پر عقیدت مند مرزا صاحب کو سید سادات اور میر میراں کا نام بھی دیتے ہیں۔ 1780ء میں آپ کو شہید کر دیا گیا۔
حضرت امیر خسرو اور حضرت مرزا مظہر جان جاناں کا ذکر ایک ساتھ اس لئے کیا کہ کتابوں میں ایک واقعہ دونوں سے منسوب ملتا ہے۔ ایک میں ذرا تفصیل ہے۔ امیر خسرو سے منسوب واقع کچھ یوں ہے کہ کسی کوچے سے گزر ہوا، وہاں ایک دھنیا روئی دھن رہا تھا، مصاحبین میں سے کسی نے کہا، سب دھنیے ایک ہی انداز میں روئی دھنکتے ہیں۔ لگتا ہے سب ایک ہی استاد کے شاگرد ہیں۔ حضرت امیر نے فرمایا، قدرت نے سکھایا ہے اور ایک حرکت میں بھدی(بھد۔ ای)تال کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ پھر فرمائش پر گیت کو الفاظ کے روپ میں گا کر سنایا، یوں:
درپئے جاناں جاں ہم رفت
جاں ہم رفت، جاں ہم رفت، ایں ہم رفت وآں ہم رفت
آں ہم رفت، آ ں ہم رفت، ایں ہم آں ہم اینہم آںہم رفت
رفتن رفتن، رفتن، دہ ذہ رفتن(الخ)
یہی واقعہ حضرت مرزا صاحب سے اس اضافے کے ساتھ منسوب ہے کہ حضرت نے گت سنائی تو ایک مرید باصفا تاب نہ لا سکا، نعرہ مار کر نیچے گرا اور دم دیدیا۔
ایک ہی واقعہ دونوں سے منسوب۔ ممکن ہے ایک کے بارے میں کسی نے ایجاد دہندہ والا معاملہ کیا ہو۔ محقق حضرات جانیں۔ بہرحال، اس واقعے کی نسبت علوم موسیقی سے ان کی آشنائی واضح کرتی ہے اور اس بات کو بھی کہ ہر آواز میں سر ہے۔ سررابندر ناتھ ٹیگور ایک بار کسی کے ہاں مہمان ہوئے رات کو ہوا چلی اور دروازہ بار بار بجتا تھا۔ کنڈی نہیں تھی۔
ٹیگور بہت پریشان ہوئے۔ لکھنے پڑھنے اور سوچنے کے لئے جو یکسوئی چاہیے تھی، وہ غائب ہو گئی۔ کچھ دیر کڑھتے رہے، پھر دروازہ بجنے کی آواز پر غور کرنے لگے اور اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ ایک ہی سرتال میں بج رہا ہے پھر کیا تھا، اس "چوبی سازینے" میں محو ہو گئے اور یکسوئی لوٹ آئی۔ کائنات خود ایٹمی سروں کا کھیل ہے۔ گردش شیارگان کا نغمہ سائنس دان سنتے اور سر دھنتے ہیں۔
بھارت میں جب تک مدرسے ہیں، مشاعرے ہیں، گلو کار اور موسیقار ہیں اور فلمیں ہیں، مشاعرے ہیں اردو کی کشش کم نہیں ہو گی، بڑھتی ہی جائے گی۔ ہندی سے کسے بیر ہو سکتا ہے۔ خوبصورت زبان ہے لیکن بی جے پی کا ہندی کو اردو پر بٹھانے کا شوق عارضی ہے، اردو کی مہک دائمی ہے چنانچہ اردو لوگوں کے دل کھینچتی رہے گی۔ ہندوستانی اس کی دلفریبی کے "مجے" لیتے رہیں گے اور بنگالی بھائیوں کو بھی "موجا" آتا رہے گا۔