Friday, 29 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Url Of Chakri Ki Meda Shahab Press Conference

Url Of Chakri Ki Meda Shahab Press Conference

وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال قاتلانہ حملے میں زخمی ہوئے، جان بچ گئی لیکن ملک میں اندیشے چھا گئے ہیں کہ آئندہ کیا ہوگا۔ کچھ کا کہنا ہے اور آج اخبار میں رپورٹ چھپی ہے کہ ملک کو عدم استحکام کا شکار کرنے کی سازش ہے۔ عدم استحکام تو پہلے ہی ہے اور بہت زیادہ ہے، کہنا چاہیے کہ ایک اور سازش ہے یا سازش کا اگلا باب ہے۔ کچھ لوگ تو ایسے ہیں کہ انہیں اس سلسلے میں پیشگی باخبر بھی کہا جاسکتا ہے۔ چند دن پہلے کی بات ہے۔ لاہور میں جان عالم دلارے پیا کا جلسہ ہوا جس میں ان سے پہلے شیخ جی نے خطاب کیا۔ انہوں نے اپنی تقریر میں "ان" لوگوں کو سرعام چوکوں میں گولی مارنے کی بات کی۔ ٹی وی چینلز پر ان کے الفاظ جوں کے توں چلے، کسی نے "میوٹ" نہیں کیا۔ اس لیے کہ اس باب میں ملکی مفاد کے خلاف کچھ نہیں تھا، امن عامہ کو خطرہ تھا نہ آئین کی خلاف ورزی ہوئی تھی۔ میوٹ صرف نوازشریف کی تقریر ہوتی ہے۔ میوٹ کرنے کا جس دن پہلا روز تھا، نوازشریف کے خطاب میں جونہی یہ الفاظ آئے کہ "1958ء میں … آواز خاموش کردی گئی۔ ظاہر ہے، جب 1958ء کا ذکر ہوگا تو طے ہے کہ آگے چل کر ملکی مفاد کے خلاف بات ہوئی۔ شیخ جی ملکی مفاد کے علمبردار ہیں چنانچہ ان کی تقریر کبھی میوٹ نہیں ہوئی۔ ان کے ہر خطاب میں مارو یا مرجائو، آگ لگادو، قتل کردو" کے الفاظ ہوتے ہیں لیکن یہ ظاہری بات ہے، باطنی بات ان کا وہ خلوص ہے جو وہ ملکی مفاد کے لیے کی جانے والی بات کو میوٹ کرنے کا سوال ہی کہاں ہے۔ ٭٭٭٭٭ یہ گمان نہیں کرنا چاہیے کہ اس نئے سلسلہ واقعات کا کوئی تعلق اس "کریش" پروگرام سے ہے جس کا مقصد انتخابات کو "شفاف" بنانا ہے۔ شفاف بنانے کے لیے جتنے بھی اقدامات کئے جائیں گے، وہ پرامن ہوں گے۔ پرامن نااہلی، پرامن ٹیلیفون، پرامن لاپتگیاں، سارے کا سارا سنجرانی ماڈل پرامن ہے۔ پرامن انگلی سے گھی نکل رہا ہے تو بدامن انگلی کی کیا ضرورت! ٭٭٭٭٭ احسن اقبال کو گولی مارنے کی مذمت سبھی جماعتوں نے کی ہے۔ یہاں تک کہ تحریک انصاف نے بھی اور خیال رہے تحریک انصاف کی طرف سے اظہار مذمت کو بادل نخواستہ نہیں کہا جا سکتا۔ ٭٭٭٭٭ ہفتہ رفتہ کا ایک قدرے اہم وقوعہ "ارل آف چکری" کی پریس کانفرنس تھی۔ ارل صاحب کے موڈ اور لہجے کے حساب سے اسے میدہ شہاب پریس کانفرنس کہا جا سکتا ہے۔ مایوسی کا میدہ غصے کا سندھور، ملا کر جو آمیزہ تیار ہوا، وہ یہ پریس کانفرنس تھی۔ بظاہر مقصد اس پریس کانفرنس کا نوازشریف کے اس بیان پر گہرے غم و غصے کا اظہار کرنا تھا جن میں انہوں نے کسی خلائی مخلوق کا ذکر کیا اور حق تو یہ ہے کہ ارل آف چکری نے خلائی مخلوق کے دفاع کا حق ادا کیا لیکن لہجے کی مایوسی بتا رہی تھی کہ وہ ان اندازوں کے غلط ہونے پر حد سے زیادہ دل گرفتہ ہیں جو انہوں نے اپنے "قائد" کی نااہلی کے بعد لگائے تھے۔ فرمایا، پچاس ارکان میری جیب میں تھے۔ یہ تب کی بات ہے جب ستر ارکان شیخ جی اور پچاس قاف لیگ کی جیب میں تھے۔ کل ملا کر 180 ارکان بنتے تھے۔ ایک ہی پیج پر، مطلب ایک ہی جیب میں آ جائے تو عباسی کی جگہ ارل آف چکری وزیراعظم ہوتے لیکن اب افسوس کا کیا فائدہ، وہ وقت نکل گیا اور ارل آف چکری کی جیب فی الوقت خالی ہے۔ ارل جی نے کہا کہ خلائی مخلوق کا ذکر کر کے نوازشریف محمود خان اچکزئی کی صف میں شامل ہو گئے۔ صرف اچکزئی کا ذکر کیوں؟ اس صف میں تو اور بھی شامل ہیں۔ دوسروں کا ذکر چھوڑیئے، جس سندگاہ سے جان عالم دلارے پیا اور سب سے بھاری پیا کو صادق و امین کی سند جاری ہوئی، اسی کے سند یافتہ صادق و امین سراج الحق نے بھی بیان دیا ہے کہ خلائی مخلوق اپنا کام کرے، ہم زمین والوں کو اپنا کام کرنے دیں۔ ارل آف چکری نے اس صف میں انہیں شامل نہیں کیا اور آج ہی خورشید شاہ نے بھی اس مخلوق کی تصدیق کی ہے۔ ارل صاحب مزید کچھ فرمائیں گیے؟ ٭٭٭٭٭ خورشید شاہ صاحب کا ایک اور بیان بھی آیا ہے جس میں اطلاع ہے کہ نگران وزیراعظم کے نام کا اعلان 15 مئی تک کردیا جائے گا یعنی ہفتہ بھر میں۔ نگران وزیراعظم کون ہو گا، اس پر بہت تجسس موجود ہے۔ ایک خبر یہ بھی آئی ہے کہ جسٹس ریٹائرڈ تصدق حسین گیلانی کے نام پر غور ہورہا ہے۔ وہ تو کبھی ہو ہی نہیں سکتے۔ یاد ہوگا کہ 2014ء میں دھرنوں کے موقع پر جان عالم دلارے پیا نے کیا کہا تھا؟ یہ کہا تھا کہ تصدق جیلانی کے بعد جو آئے گا، وہ ہمارا ہوگا، وہ وزیراعظم کو نااہل کرے گا، جوڈیشل مارشل لا لگائے گا اور ہمیں حکومت دلوائے گا۔ یہ بات جاوید ہاشمی نے ایک نہیں، پچاس بار بتائی تھی اور رنگیلے پیا نے ایک بار بھی اس کی تردید نہیں کی۔ باقی بیان سے کوئی بحث نہیں لیکن ایک بات اس سے ازخود برآمد ہوئی ہے جو یہ ہے کہ تصدق جیلانی ہمارا آدمی نہیں۔ اب جو "ہمارا" آدمی نہیں ہے، وہ نگران وزیراعظم کیسے بن سکتا ہے۔ ایں خیال محال است و خبری! ٭٭٭٭٭ کراچی کے گلشن اقبال پارک میں دو صادق و امین جماعتوں میں ایک ہی دن، ایک ہی وقت جلسہ کرنے کی ٹھن گئی ہے۔ 12 مئی کو یہ جلسہ ہونا ہے۔ انتظامیہ مشکل میں پڑ گئی ہے، کسے اجازت دے، کسی نہ دے۔ دونوں ہی یکساں صادق و امین ہیں اور دلارے میاں تو ٹھہرے پہلے ہی سے دلارے میاں، جب سے اینٹ کے ساتھ اینٹ جڑی ہے، سب سے بھاری میاں بھی مقرب بارگاہی ہو گئے ہیں۔ فیصلہ کرنا مشکل ہے پر اتنا بھی مشکل نہیں، دلارے دونوں ہیں لیکن ایک بہرحال زیادہ دلارا ہے یعنی راج دلارا ہے۔ چنانچہ دلارے پہ راج دلارے کا حق فائق ہے۔ لیجئے، طے ہو گیا، جلسہ سب سے بھاری کی پارٹی نہیں، جان عالم، پیا کی پارٹی کرے گی۔