معاملہ گنجلک ہو گیا ہے۔ حکومت چیئرمین نیب جناب جاوید اقبال کی شاندار احتسابی خدمات کے عوض انہیں توسیع دینا چاہتی ہے لیکن قانون میں گنجائش نہیں۔ کچھ وزیران باتدبیر جنہوں نے ماضی قریب میں بھی ایک قلعہ فتح کرنے کی مہم شروع کی تھی، وزیر اعظم کو آرڈیننس لاکر توسیع دینے کا مشورہ دیا لیکن پھر پتہ چلا کہ یہ آئینی معاملہ ایسا ہے کہ آرڈیننس کی بھی گنجائش نہیں۔ دوسرا راستہ یہ ہے کہ نئے چیئرمین کی تقرری کی جائے، اس کے لئے اپوزیشن لیڈر سے مشورہ ضروری ہے لیکن وزیر اعظم کو اپوزیشن لیڈر کا نام بھی سننا پسند نہیں۔ اپوزیشن لیڈر کا نام کیا ہے، اکثر حضرات کو علم نہیں۔
اکثر حضرات کا تو ذکر ہی کیا، خود اپوزیشن کو بھی یہ پتہ نہیں کہ اس کا لیڈر کون ہے۔ بہرحال، ہم بتائے دیتے ہیں۔ اپوزیشن لیڈر کا نام شہباز شریف ہے۔ کچھ ستم ظریف حضرات اس طرح کے فقرے گھڑ لیتے ہیں کہ مبینہ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے یہ کہا ہے تو یہ زیادتی ہے۔ وہ مبینہ لیڈر نہیں، سچ مچ کے اپوزیشن لیڈر ہیں، بھلے آپ نہ مانیں لیکن وہ ہیں۔ شہباز شریف کی صورت میں عمران حکومت کو جیسی"قبول صورت" اپوزیشن ملی ہے، کرہ ارض کی مابعد والی تاریخ میں آج تک کسی حکومت کو نہیں ملی اور نہ ہی آئندہ کسی کو ملنے کے کچھ زیادہ امکانات ہیں۔ حیرت کی بات پھر یوں ہے کہ عمران خاں کو ایسی حد سے زیادہ قبول صورت اپوزیشن بھی قبول نہیں تو پھر کیسی اپوزیشن چاہئے؟
٭باخبر حضرات کہتے ہیں کہ دراصل خاں صاحب کو شہباز پر نہیں "اپوزیشن" کے لفظ سے چڑ ہے اور یہ چڑ معروضی حقائق کے حساب سے بالکل بجا اور برحق ہے۔ غیر جانبدار ایماندار اور نیکو کار تجزیہ کاروں کا اتفاق ہے کہ حالیہ دور میں مشکلات و آفات کا جتنا بھی نزول ہوا ہے، وہ اس لئے ہوا ہے کہ پاکستان میں اپوزیشن کا وجود رکاوٹ بن رہا ہے۔ ویسے آپس کی بات ہے، اپوزیشن کے موجودہ وجود پر عدم وجود کی پھبتی زیادہ سجھتی ہے۔ اس کے باوجود ارباب انصاف کا کہنا ہے کہ عدم وجود بھی دراصل وجود ہی کی ایک قسم ہے۔ جیسے آسمان میں خلا ہے لیکن یہ خلا کچھ موجودات سے بھرا ہوا ہے۔ مثلاً ایسے غیر مرئی دھاگوں سے جنہوں نے سیارگان دستارگان کو تھام رکھا ہے۔ یہ تازہ ترین فلکیاتی دریافت ہے، کشش ثقل کی غیر مرئی ناقابل شکست لہروں پر مستزاد۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ یہ عدم وجود رکاوٹ بنا ہوا ہے اور اسی لئے خاں صاحب کا یہ یقین مستحکم ہے کہ ریاست مدینہ کی منزل چین اور شمالی کوریا کا ماڈل اپنائے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی۔
٭تو پھر چیئرمین نیب والی الجھن کی سلجھن کیسے ہو گی؟ سنا ہے کہ ایک اور آرڈیننس کے ذریعے عدم وجود والی قبول صورت اپوزیشن سے مشورے کی شرط ہی اڑا دی جائے گی لیکن اس طرح اڑانے سے بھی اڑچن کا اندیشہ ہے۔ خیر، خان صاحب عظیم وژن والے عظیم تر لیڈر ہیں۔ اس بحران کو بھی حل کر لیں گے۔ ماضی کی حکومتوں کی لوٹ مار کے باوجود انہوں نے ملک کی معیشت کو پٹڑی پر چڑھا دیا، 75فیصد غریب آبادی کو مالدار بنا دیا، آٹے، چینی کا بحران حل کر دیا اور دوائوں کا بھی، ملک اوپر اٹھا دیا اور نہ جانے کتنے ہی دوسرے بحران بھی تحلیل کر دیے حتیٰ کہ پختونخواہ میں 360ڈیم بنا ڈالے، 72سال سے درپیش کشمیر کا مسئلہ بھی حل کر دیا تو یہ چیئرمین کی تقرری والا مسئلہ کس کھلیان کا ڈنٹھل ہے۔ چٹکی بجاتے حل ہو جائے گا۔
٭سندھ آباد کار بورڈ نے زراعت کی (مبینہ) تباہی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ کسان کہاں جائیں۔ پونے چار سو والی کھاد کی بوری لگ بھگ سات سو میں مل رہی ہے، زرعی دوائیں تین گنا، بجلی چار گنا مہنگی مل رہی ہیں۔ آباد کار بورڈ والوں نے وفاقی وزیروں کے بیان نہیں پڑھے۔ ہمارے ملک میں باقی دنیا کی نسبت اب بھی بہت سستائی ہے۔ ڈریں اس وقت سے جب آپ کے ناشکرے پن کی وجہ سے یہ سستائی ختم ہو جائے گی اور مہنگائی ہو جائے گی۔ پھر آپ کیا کریں گے۔
٭پنجاب حکومت نے سڑکوں کی مرمت وغیرہ کیلئے مختص رقم میں سے دس ارب کی کٹوتی کر دی ہے۔ اچھی بات ہے۔ ترقی سڑکوں وغیرہ سے نہیں ہوتی۔
٭وزیر اعظم نے غیر ملکی تحائف کی وصولی کی تفصیل بتانے سے انکار کیا۔ وجہ یہ ہے کہ اس سے عالمی برادری میں ملکی وقار مجروح ہوتا ہے۔ پنجاب کے وزیر اعلی نے اپنے استعمال میں کاروں کی تعداد و تفصیل اور صوابدیدی فنڈ وغیرہ کے بارے میں تفصیل بتانے سے انکار کیا۔ وجہ ظاہر ہے، اس سے وقار مجروح ہوتا ہے۔ وفاقی وزراء نے انکشاف کیا ہے کہ نواز شریف نے موٹر وے کی تعمیر میں کرپشن کی اور لندن میں فلیٹ خریدے۔ بالآخر، ایک پیشرفت تو ہوئی۔ چار سال سے پوری کی پوری امّہ اس پریشانی میں گرفتار تھی کہ نواز شریف نے جو تین سو ارب روپے کی چوری کی، وہ کہاں سے کی اور کب کی۔
تین سال سے تحریک انصاف کی حکومت سے لوگ یہی مطالبہ کر رہے تھے کہ یہ تو پتہ چل گیا کہ تین سو ارب چوری ہوئے، لیکن اب یہ بھی بتا دیا جائے کہ کب اور کہاں سے چوری ہوئے۔ مقام شکر ہے، کہاں سے چوری ہوئے کا پتہ چل گیا۔ اسی چوری کی رقم سے نواز شریف نے لندن میں فلیٹ بنائے۔ باقی 299 ارب 73 کروڑ کہاں خرچ کئے۔ یہ بھی معلوم ہو جائے گا چلیے ایک پیشرفت تو ہوئی۔ معاملہ پارلیمنٹ میں اٹھانے کا اعلان کیا گیا ہے جو ٹھیک نہیں، معاملہ عدالت لے جایا جائے۔ کیسے چوری کی، کس تاریخ کو کی، سب بتایا جائے۔ پہلے ہی پتہ چل جاتا تو نیب کو "اثاثے آمدنی" کے چکر میں سزا سنانے کی زحمت نہ اٹھانا پڑتی۔ چلئے، پھر سے مقدمہ شروع کیا جائے۔ اللہ بھلا کرے۔