Monday, 23 December 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. America Ki China, Roos Se Kasheedgi

America Ki China, Roos Se Kasheedgi

امریکی سلطنت دنیا پر اپنی بالا دستی اور واحدسُپر پاور ہونیکا مقام برقرار رکھنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہی ہے۔ اسوقت امریکہ کے تعلقات چین اور روس دونوں سے کشیدہ ہیں۔ امریکہ اب بھی ایک بڑی معاشی اور فوجی طاقت ہے لیکن چین اسکے ہم پلّہ معاشی طاقت بن چکا ہے۔ یہ بات انکل سام کو ہضم نہیں ہورہی۔ امریکی حکمران سر توڑ کوششوں میں مصروف ہیں کہ کسی طرح چین کی معاشی طاقت کو محدود کیا جائے۔ اس پر کسی قدر تجارتی پابندیاں عائد کرکے اور اسکے ارد گرد کے ممالک کو اپنا حلیف بنا کر۔ اسی طرح رُوس نے صدر پیوٹن کے دور میں اپنا اثر و رسوخ شام میں استعمال کرکے امریکی عزائم کو ناکام بنایا، ایران کی مدد کی اور اپنے ارد گرد کی ریاستوں کو امریکہ اور یورپ کے زیرِ اثر جانے سے روکا۔ روس کا عالمی سیاست میں بڑھتا ہوا کردارامریکہ کے لیے پریشان کُن ہے۔

امریکہ کو چین سے اصل تکلیف یہ ہے کہ وہ اعلی ترین ٹیکنالوجی میں اسکا ہمسر بنتا جارہا ہے۔ امریکہ صنعتی پیداوار میں بہت پہلے چین سے پیچھے رہ چکا ہے۔ اسے کم درجہ یا درمیانہ ٹیکنالوجی والی اشیا تیار کرنے میں چین سے پیچھے رہ جانے کی فکر نہیں تھی۔ دنیا میں امریکہ کی برتری سائنس اور ٹیکنالوجی میں اعلیٰ تحقیق کے باعث ہے۔ امریکہ جدید ترین ٹیکنالوجی ایجاد کرکے اسے مہنگے داموں بیچ کر ڈھیروں دولت اکٹھی کرتا ہے۔ مثال کے طور پر اسمارٹ فونز میں جودو سافٹ وئیرز انڈرائیڈ اور ایپل استعمال ہوتے ہیں وہ امریکی کمپنیاں بناتی ہیں اور ساری دنیا سے مال سمیٹتی ہیں۔ کھیل اس دن خراب ہوا جب چند برس پہلے چین نے ٹیلی مواصلات میں ففتھ جنریشن (فائیو جی) ٹیکنالوجی میں پہل کا مظاہرہ کیا۔ امریکہ میں خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگیں۔ چینی کمپنی ہوآوے نے فائیو جی میں اپنی سبقت ثابت کردی۔ امریکی ریاست ہاتھ دھو کر اسکے پیچھے پڑ گئی۔ اس کمپنی کو امریکی سافٹ وئیر بیچنے پر پابندی لگا دی۔ امریکہ نے اپنے اتحادی ممالک کو بھی ہوآوے کمپنی کیساتھ شراکت کرنے سے روک دیا۔ امریکہ کی بڑی پریشانی یہ ہے کہ چین اپنی ہائی ٹیکنالوجی کے ساتھ یورپ کی مالدار منڈی میں نہ آئے۔ چین اور یورپ کا ٹیکنالوجی میں لین دین اور اشتراک امریکہ کے لیے ایک ڈراؤنا خواب بن چکا ہے۔ اگر ایسا ہوگیا تو امریکہ کی اُجارہ داری ختم ہونے اور اسکی آمدن کم ہونے لگے گی۔ صدر ٹرمپ کے زمانے سے امریکہ نے یہ فیصلہ کیا کہ اب وقت آگیا ہے کہ چین کے پَر کاٹے جائیں۔ اس کی مصنوعات پر امریکہ میں درآمد پر ٹیکسوں میں اضافہ کردیا گیا اور اسکے ساتھ ایک تجارتی جنگ شروع کردی گئی۔

امریکہ کا ایک روایتی طریقہ ہے کہ جب کسی ملک کو دباؤ میں لانا ہو تو اسکے خلاف جمہوریت اور انسانی حقوق کے معاملات کو شد و مد سے اٹھانا شروع کردو۔ اصل مقصد اپنے ٹھوس سیاسی اور معاشی مفادات کا تحفظ اورفروغ ہوتا ہے لیکن ان پر اُصولوں کا پردہ ڈال دیا جاتا ہے۔ مثلاً عرب ملکوں میں بدترین آمریت ہے، انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں عام ہیں لیکن وہ امریکہ کے اتحادی ہیں، اس سے اربوں ڈالر کا اسلحہ خریدتے ہیں، اسکے بینکوں، مالی اداروں میں کھربوں ڈالر جمع کرواتے ہیں اور اِن ملکوں میں امریکہ کے فوجی اڈے قائم ہیں اسلیے امریکہ مشرق وسطیٰ کے ممالک سے جمہوریت قائم کرنے اور انسانی حقوق کی پاسداری کے مطالبے نہیں کرتا۔ چین سے اسکی برتری کو خطرات لاحق ہوچکے ہیں اسلیے اس نے چین پر دباؤ ڈالنا شروع کردیا ہے کہ وہ سنکیانگ میں یغور مسلمانوں کے انسانی حقوق بحال کرے، ہانگ کانگ میں جمہوریت پسندوں کونہ کچلے۔ تبت کے لوگوں کو انکے حقوق اور آزادیاں فراہم کرے۔

چند روز پہلے الاسکا میں چین اور امریکہ کے حکام کے مذاکرات میں امریکہ نے یہ معاملات اٹھائے۔ چین نے انہیں اپنے داخلی معاملات میں مداخلت قرار دیا۔ اس اجلاس میں دونوں ملکوں کے درمیان خاصی تلخی ہوئی۔ بہر حال، امریکہ کی مشکل یہ ہے کہ وہ چین سے کشمکش تو جاری رکھے گا لیکن محاذ آرائی کو ایک حد سے آگے نہیں بڑھاسکتا۔ اسکی کمپنیوں کا چین میں کھربوں ڈالر کا سرمایہ لگا ہُوا ہے۔ چین نے ایک ہزار ارب ڈالر سے زیادہ امریکی کرنسی(ٹرژری بلز) خریدی ہوئی ہے جو وہ بیچناشروع کردے تو ڈالر کی قدر کم ہوتی جائے گی۔ چین ہر برس سینکڑوں ارب ڈالر کا سامان امریکہ کو فروخت کرتا ہے۔ وہ بھی اس تناؤ کو بڑھانے کی پوزیشن میں نہیں۔ یہ سرد جنگ طول پکڑے گی۔

چین سے اختلافات کو کم کرنے کی خاطر امریکہ نے بات چیت شروع کردی لیکن رُوس کے بارے میں اسکا روّیہ زیادہ سخت اور رعونت آمیز ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے ایک حالیہ بیان میں روسی صدر ولادی میر پیوٹن کو قاتل (کلر) قرار دیا۔ اسکے احتجاج کے طور پر رُوس نے امریکہ سے اپنے سفیر کو واپس بلا لیا۔ رُوس کی معیشت امریکہ اور چین کے مقابلہ میں بہت چھوٹی ہے۔ آبادی کم ہے۔ صرف پندرہ کروڑ۔ البتہ اسکا رقبہ دنیا کے کسی بھی ملک سے زیادہ ہے جسکے باعث اسکی جغرافیائی، سیاسی، دفاعی اہمیت ہے۔ رُوس چنداعلیٰ نوعیت کی ٹیکنالوجیز میں بہت ترقی یافتہ بھی ہے۔ ان میں خلائی ٹیکنالوجی، بائیو سائنس اور جنگی طیاروں اور میزائیل نظام شامل ہیں۔ رُوس کا پرانامنصوبہ ہے کہ ایشیا اور یورپ کے براعظم جو ایک دوسرے سے زمینی طور پر جڑے ہوئے ہیں ان پر مشتمل ایک یوریشین اتحاد تشکیل دیا جائے۔ سارے ایشیا اور یورپ کو فی الحال اکٹھاکرنا خاصا مشکل کام ہے۔ اسلیے روس نے وسط ایشیا، کاؤکیسس (بحیرہ کسپئین اور بحیرہ اسود کے درمیان کا علاقہ) اور مشرقی یورپ کے کچھ ممالک پر مشتمل یوریشین بلاک بنانے پر خاصا کام کیا ہے تاکہ امریکہ اور یورپ وہاں قدم جما کر اسکا محاصرہ نہ کرسکیں۔

یہ بات امریکہ کو کھٹکتی ہے۔ سات سال پہلے رُوس نے یوکرائن میں اپنے پرانے علاقہ کریمیا کو بھی طاقت کے زور پرحاصل کرکے اُسے اپنے ملک میں شامل کرلیا تھا جس سے یورپ اور امریکہ سخت ناراض ہوئے۔ اسوقت سے انہوں نے رُوس پر متعدد پابندیاں عائد کی ہوئی ہیں۔ امریکہ کی روس اور چین سے بیک وقت معاندانہ حکمت عملی کا ایک نتیجہ تو یہ نکلا ہے کہ رُوس اور چین ایک دوسرے سے اشتراک بڑھا رہے ہیں۔ یوریشین اتحاد مزید وسیع ہونے کے قوی امکانات ہیں۔