امریکہ کے ہاتھ سے دنیا اِسطرح نکل رہی ہے جسطرح مٹھی سے ریت۔ کورونا وبا کے بعد عالمی سیاست میں اہم تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں۔ امریکہ اپنی کم ہوتی ہوئی معاشی اور عسکری اہمیت سے پریشان ہوکر دو اُبھرتی ہوئی بڑی طاقتوں چین اور رُوس کے خلاف بیک وقت کئی محاذوں پر کام کررہا ہے۔ اس نے پہلے چین کے خلاف ہانگ کانگ میں ہنگامے کروائے جن پر چین نے کامیابی سے قابو پالیا۔ اب چین کے خلاف تائیوان اور جنوبی بحیرہ چین میں امریکی سرگرمیاں، اشتعال انگیزیاں بڑھتی جارہی ہیں۔ دوسری طرف، روس کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے لیے امریکہ نے اسکے ہمسایہ ملک بیلا رو س میں اپوزیشن کی تحریک کو ہلّہ شیری دی ہوئی ہے تاکہ وہاں اپنی پٹھو حکومت کو اقتدار میں لاسکے۔ جُوں جُوں امریکہ کا روس اور چین پر دباؤ بڑھ رہا ہے یہ دونوں ملک ایک دوسرے کے قریب آتے جارہے ہیں حالانکہ امریکہ نے بہت کوشش کی کہ ان کے درمیان فاصلہ پیدا کیا جائے۔
عالمی سیاست میں روس اور چین کے قریبی اتحاد پر مشتمل طاقت کا ایک نیا مرکز وجود میں آچکا ہے۔ اسکا ایک مظاہرہ حال میں اس وقت دیکھنے میں آیا جب صدر ٹرمپ کی ایران کے خلاف پابندیاں سخت سے سخت کرنے کی پالیسی پر رُوس اور چین نے امریکہ کا ساتھ نہیں دیا۔ بلکہ ان دونوں ملکوں نے یورپ کے بڑے ملکوں کے تعاون سے سلامتی کونسل میں امریکہ کی یہ کوشش بھی ناکام بنادی جس کے تحت ایران پر ہتھیاروں کی فروخت کی پابندی میں توسیع کرنا تھا۔ چین نے ایران سے چار سو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا معاہدہ کرکے مشرق وسطیٰ کی سیاست میں امریکہ کو سخت دھچکا پہنچایا۔ اسی طرح چین نے بیلا روس میں روس نواز صدر الیگزینڈر لوکا شینکو کی حکومت کی کھل کر حمایت کی ہے جنکے خلاف سی آئی اے نے احتجاجی مظاہرے شروع کروارکھے ہیں۔ روس اور چین کے بڑھتے ہوئے قریبی تعلقات کا اندازہ حالیہ برسوں میں دونوں ملکوں کے درمیان اقتصادی تعاون سے بھی لگایا جاسکتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک سعودی عرب چین کو سب سے زیادہ تیل بیچنے والا ملک تھا۔ اب اسکی جگہ رُوس ہے۔ گزشتہ ماہ اگست میں روس اور چین گیارہ ارب ڈالر کے مشترکہ منصوبہ کے تحت دونوں ملکوں کی سرحد کے قریب واقع چینی علاقہ آمر، میں دنیا کا سب سے بڑا پولیمرپلانٹ لگا رہے ہیں۔ روس تقریبا تین ہزار کلومیٹر طویل پائپ لائن کے ذریعے چین کو قدرتی گیس کے فراہمی شروع کرچکا ہے جسے پاور آف سائبیریا کہا جاتا ہے۔ اب ایسی دوسری پائپ لائن پر بھی کام شروع کردیا گیا ہے۔ روس چین کوقدرتی گیس کی فراہمی تین گنا کرنے کے منصوبہ پر کام کررہا ہے۔ مزید، کورونا ویکسین کی تیاری میں دونوں ملک ایک دوسرے سے تعاون کررہے ہیں۔ دونوں ملک بیرونی تجارت کی غرض سے امریکی ڈالر کا استعمال بھی بتدریج کم کررہے ہیں۔ ڈالربحیثیت عالمی کرنسی دنیا میں امریکی سامراج کی برتری کا ایک بڑا سبب ہے۔ عالمی تجارت میں ڈالر کا استعمال کم ہونے سے دنیا پر امریکی گرفت کمزورہوجائے گی۔
چند روز پہلے رُوس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے خاصے کھلے الفاظ میں چین کے ساتھ ملکر کام کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے ایسے الفاظ میں روس اور چین کے اشتراک پربات کی جوحالیہ تاریخ میں اس سے پہلے کبھی سننے میں نہیں آئے تھے۔ روسی خبر رساں ایجنسی تاس کے مطابق روسی صدر نے چین کے صدر شی جن پنگ کو جاپان کے خلاف چینی عوام کی مزاحمت کی کامیابی اور دوسری جنگ عظیم کے خاتمہ کے پچہتر سال پورے ہونے کے موقع پر ایک مبارکباد کا ٹیلی گرام بھیجا۔ اس پیغام میں صدر پیوٹن کا یہ جملہ تو سفارتی اعتبار سے بہت اہم ہے جس میں انہوں نے کہا کہ وہ اس بات پر تیار ہیں کہ عالمی استحکام اور سلامتی یقینی بنانے کی خاطر اور دنیا میں مسلح تنازعوں اورجنگوں کو روکنے کے لیے اپنے اتحادی چین کے ساتھ مشترکہ کوششیں سرگرمی سے جاری رکھیں۔ ، اس بیان میں سفارتی زبان استعمال کی گئی ہے جس میں پنہاں مطلب کودیکھا جائے تو عالمی استحکام اور سلامتی کے الفاظ کا اصل مفہوم یہ بنتا ہے کہ روس امریکہ کے غلبہ کے خلاف جدوجہد اور اسکے ساتھ تزویراتی (اسٹریٹجک) برابری کے لیے چین کے ساتھ ملکر کام کرنا چاہتا ہے۔
جس طرح امریکہ نے کوشش کی کہ پاکستان چین کے ساتھ سرمایہ کاری کے معاہدہ سی پیک کو ترک کردے اسی طرح یورپ کے ملکوں پر بھی دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ روس اور چین کے ساتھ اپنے تعلقات کم کریں۔ جرمنی یورپ کی سب سے بڑی معاشی طاقت ہے۔ یہ قدرتی گیس کی رسد کا بڑا حصہ روس سے حاصل کرتا ہے۔ روس اور جرمنی کی کمپنیاں قدرتی گیس کی روس سے سپلائی کی ایک نئی بڑی پائپ لائن بچھانے پر کام کررہے ہیں جسے نورداسٹریم ٹو، کا نام دیا گیا ہے۔ یہ منصوبہ تقریبا ً مکمل ہونے کو ہے۔ امریکہ جرمنی کی وائس چانسلرانجیلا مرکل پربہت دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ اس پراجیکٹ کو ختم کردیں اور اسکی بجائے امریکہ سے اسکی ایل این جی خریدیں تاکہ امریکہ کو اربوں ڈالر کی آمدن ہوسکے۔ امریکہ نہیں چاہتا کہ جرمنی اور یورپ کے دیگرملکوں کا روس کی قدرتی گیس پر انحصار مزید بڑھ جائے جسکے طویل مدتی مضمرات ہوں گے۔ حال ہی میں روس کے حزب مخالف کے سیاستدان ناوَلنی شدید بیمار ہو کر کومے میں چلے گئے۔ الزام لگایا گیا کہ صدر پیوٹن نے انہیں زہر دلوایا ہے۔ امریکہ اوریورپ میں امریکی اتحادی صدر پیوٹن کے خلاف اس معاملہ پر مہم چلارہے ہیں جبکہ روسی میڈیا میں خبریں گردش کررہی ہیں کہ یہ کام سی آئی اے نے انجام دیا ہے تاکہ پیوٹن کے خلاف یورپ میں رائے عامہ ہموار کی جاسکے۔ جرمنی اور یورپ میں پیوٹن حکومت کے خلاف عوام کے جذبات بھڑکائے جائیں۔ مقصد یہ ہے کہ روس اور یورپ میں دُوری پیدا کی جاسکے۔ بیلاروس کے دارالحکومت مِنسک میں روس کے دوست صدر لُوکا شینکاکے خلاف اپوزیشن کی تحریک چل رہی ہے۔ قرائن بتا رہے ہیں کہ بیلاروس میں امریکی ریاست اپنی پٹھو حکومت قائم کرنے کے بعدماسکو میں بھی پیوٹن کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے اسی قسم کی تحریک شروع کرواسکتا ہے۔
چین اور رُوس کے خلاف امریکہ کی بڑھتی ہوئی سرگرمیاں اس بات کی غماز ہیں کہ امریکہ اپنے واحد سپر پاور ہونے کا رُتبہ چھن جانے کی حقیقت سے سمجھوتہ نہیں کرپارہا۔ امریکی ریاست ہاتھ پاؤں مار رہی ہے کہ کسی طرح یورپ اور ایشیا پر اپنی گرفت کو قائم رکھ سکے۔ سرد جنگ کے دوران میں امریکہ کا مقابلہ صرف کمیونسٹ روس سے تھا۔ اب روس اور چین کی مشترکہ طاقت اسکے مدمقابل ہے۔