دنیا سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کے سفر پر بگٹٹ دوڑ رہی ہے۔ کئی ملکوں میں کمپیوٹر اور ڈجیٹل انقلاب کے بعد مصنوعی ذہانت، روبوٹس اور مائیکرو الیکٹرانکس پر مبنی چوتھے صنعتی انقلاب کازبردست آغاز ہوچکا ہے۔ اس کے برعکس ہم پاکستان میں ابھی تک اپنی پُوری آبادی کو بجلی تک مہیّا نہیں کرسکے جس سے ترقی یافتہ دنیا ایک سو سال سے پہلے فیض یاب ہوچکی تھی۔ ہم قبائلی عہد کے تعصبات اور رسم و رواج میں جکڑے ہوئے ایسے مہمل کاموں میں مشغول ہیں جنکا نتیجہ پسماندگی اور غربت کے سوا کچھ نہیں۔ دنیا جدید ترین ٹیکنالوجی کی مدد سے ہر سال کھربوں ڈالر کما رہی ہے جبکہ پاکستانی پلاٹ، پراپرٹی ایک دوسرے کو بیچ کر ترقی کرنا چاہتے ہیں۔
آج سے اڑھائی سو سال پہلے 1765ء میں دنیا میں پہلا صنعتی انقلاب آیا تھاجس کی بنیا د کوئلہ کی دریافت سے ملنے و الی توانا ئی اور بھاپ کی طاقت سے چلنے والے اسٹیم انجن پر تھی۔ انسانی ہاتھوں کی بجائے توانائی سے چلنے والی مشینوں کی مدد سے پیداوار میں بہت اضافہ ہوگیا۔ ریل گاڑی ایجاد ہوگئی۔ اس تبدیلی کے ایک سو سال بعد دوسرا صنعتی انقلاب1870ء میں شروع ہوا جب بجلی ایجاد ہوئی۔ پیٹرولیم دریافت ہوگیا۔ بھاپ کے انجن کی جگہ کمبسشن انجن ایجاد کرلیا گیا۔ اب صنعتی کارخانوں میں اسمبلی لائن وجود میں آگئی۔ صنعتی پیداوار بہت بڑے پیمانے پر ہونے لگی۔ ایک سو سال بعد 1969ء میں تیسرے صنعتی انقلاب کا آغاز ہوگیا۔ کمپیوٹر کی ایجاد کے بعد بتدریج الیکٹرانکس، انٹرنیٹ، انفارمیشن ٹیکنالوجی کی دنیا وجود میں آگئی۔ اسے ڈجیٹل انقلاب کہا گیا۔ خود کار، آٹومیٹک مشینیں بنالی گئیں۔ پیداواری نظام کی نوعیت اور ماہیت ہی بدل کر رہ گئی۔ تیز رفتار انٹرنیٹ نے فاصلوں کو مختصر کردیا۔ مغرب کے ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ ساتھ چین اور انڈیا اس انقلاب سے مستفید ہوئے۔ انڈیا نے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی اہمیت کو بروقت سمجھا اور اس میں بھاری سرمایہ کاری کی۔ آئی ٹی کی تعلیم کو سرکاری سطح پر فروغ دیا۔ تحقیق کے ادارے بنائے۔ حکومت نے آئی ٹی کے کاروبار کی سرپرستی کی۔ اس وقت بھارت انفارمیشن ٹیکنالوجی سے سوا سو ارب ڈالر سے زیادہ کی برآمدات کررہا ہے۔ ہم نے یہ کام نہیں کیے۔ ہم آئی ٹی کی برآمدات سے صرف سوارب روپے کمارہے ہیں یعنی انڈیا سے سو گناسے بھی کم۔
ایسے وقت میں جب ہماری انڈسٹری کو بجلی اور گیس بھی پوری طرح دستیاب نہیں اور ہمارے ہاں اعلیٰ تعلیم کے معیاری ادارے موجود نہیں دنیا چوتھے صنعتی انقلاب کے عہد میں داخل ہوچکی ہے۔ نئی ٹیکنالوجیز وجود میں آگئی ہیں اور مزید آرہی ہیں۔ مختلف ٹیکنالوجیز کا انضمام ہورہا ہے۔ اربوں افراد موبائل فون اور اس قسم کے دیگر آلات کے ذریعے ایک دوسرے سے جڑ گئے ہیں اور انہیں ڈیٹا کو ذخیرہ کرنے، اسے پراسیسس کرنے اور علوم و فنون تک وہ رسائی حاصل ہوگئی ہے جو آج سے پہلے دستیاب نہیں تھی۔ دنیا کی تیس فیصد آبادی سوشل میڈیا استعمال کررہی ہے۔ مصنوعی ذہانت (آرٹی فیشل انٹیلی جنس) کا استعمال عام ہوتا جارہا ہے۔ اسکی ایک سادہ سے مثال گوگل وغیرہ پر ایک زبان سے دوسری زبان میں فوری ترجمہ کی سہولت ہے۔ آپ اس میں موجود سافٹ وئیر کے باعث ایک عبارت کاکسی بھی دوسری زبان میں پلک جھپکتے ترجمہ کرلیتے ہیں، کسی مترجم انسان کی مدد کے بغیر، مصنوعی ذہانت کے ذریعے۔ انٹرنیٹ اور کئی ایپلی کیشنز ایلگوردم کی مدد سے آپ کی پسند اور ناپسند، ذہنی رحجانات کواسٹور کرتی جاتی ہیں اور انکے مطابق آپکو خدمات مہیا کرتی ہیں۔ مثلا اگر ٓپ گوگل پر کوئی موضوع سرچ کرتے ہیں تو وہ آئندہ اسی عنوان کے تحت اورچیزیں آپ کے سامنے لے آتا ہے۔ آواز پہچاننے والی ایپلی کیشنز کا استعمال شروع کردیا گیا ہے۔ مصنوعی ذہانت کا زیادہ پیچیدہ استعمال بڑے کارخانوں اور جنگی ہتھیاروں میں شروع ہوچکا ہے۔ پائلٹ کے بغیر ڈرون جنگی طیارے استعمال کیے جارہے ہیں۔ ڈرائیور کے بغیر خودکار نظام سے چلنے والی کاریں بنالی گئی ہیں۔ ان میں سنسرز لگے ہوتے ہیں۔ جیسے ہی ان کی بڑے پیمانے پر پیداوار شروع ہوجائے گی تو ٹرانسپورٹ کا نظام بدل کر رہ جائے گا۔
جدید کمپیوٹروں کی مدد سے انسان کی ڈیٹا محفوظ کرکے اسکا تجزیہ کرنے اور اس سے نتائج اخذ کرنے کی صلاحیت ہزاروں گنا بڑھ چکی ہے۔ یہ انٹر نیٹ آف تھنگز، کا دور ہے، کوانٹم کمپیوٹنگ کا دور ہے۔ انٹر نیٹ آف تھنگز (آئی او ٹی) ایک پلیٹ فارم کا نام ہے جس سے ڈیٹا جمع کرکے، اسکا تجزیہ کیا جاتا ہے اور اسکو استعمال کیا جاتا ہے۔ دنیا میں چوبیس ارب آلات اس کے ذریعے آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ اس نظام سے دنیا میں اگلے دس برسوں میں تین سو ارب ڈالر سے زیادہ کمائی ہوگی۔ انتہائی تیز رفتار فائیو جی اور سکس جی انٹرنیٹ کی ایجادات محیرالعقول تبدیلیوں کا باعث بننے جارہی ہیں۔ کارخانوں میں روبوٹس کا استعمال بڑھتا جارہا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں نینو ٹیکنالوجی اور انرجی اسٹوریج کو بروئے کار لایا جارہا ہے۔ سورج اور ہوا سے بجلی بنا کر انہیں بڑی بڑی بیٹریوں میں ذخیرہ کیا جارہا ہے۔ بجلی سے چلنے والی کاریں چلنا شروع ہوگئی ہیں۔ بہت جلد ان کی قیمت کم ہوجائے گی اور انکا چلن عام ہو جائے گا۔ تھری ڈی پرنٹنگ سے انسانی اعضا بنائے جارہے ہیں۔ ڈیجیٹل اور بائیولوجیکل دنیاؤں کا امتیاز کم ہورہا ہے۔ زندہ چیزوں کی بنیادی اکائی جینوم (ایک خلیہ کامکمل ڈی این اے) میں جینز کو ایڈٹ کیا جاسکتا ہے جس سے کئی بیماریوں کا علاج ممکن ہے۔ بلاک چین ٹیکنالوجی کی ایجاد سے بینکوں تک عام لوگوں کی رسائی بہت بڑھ جائے گی۔ غرض نت نئی ایجادات سے صنعتی پیداواری عمل، معاشی سرگرمی تیز، بہت تیز ہوگئی ہے۔ انڈسٹری کے لیے ہر شخص کی ضرورت، پسند کے مطابق مخصوص، کسٹمائزڈ اشیا تیار کرنا ممکن ہوگیا ہے۔
دنیا جب ڈجیٹل انقلاب میں جارہی تھی تو ہم اس سے فائدہ نہیں اٹھاسکے کیونکہ علم و تحقیق ہماری ترجیحات میں شامل نہیں۔ چوتھے صنعتی انقلاب کی صورت میں ایک اور موقع ہمارے سامنے ہے۔ ہمیں آرٹی فیشل انٹیلی جنس اور روبوٹکس میں سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے۔ اسکے تعلیمی، تحقیقی ادارے کھول کر اس ٹیکنالوجی پر مبنی صنعتی پارکس بنائے جائیں۔ نئی معیشت میں مصنوعی ذہانت کا حصہ سولہ ارب ڈالر ہوگا۔ دنیا کے بڑے تحقیقی ادارے میک کنزی کے مطابق چوتھے صنعتی انقلاب کے نتیجہ میں وجود میں آنے والی ٹیکنالوجی کی مختلف اقسام کا عالمی معیشت میں حصّہ ایک سو ٹریلین (ایک ٹریلین برابر ہے ایک ہزار ارب) ڈالر ہوگا۔ پاکستان کی ریاست اور عوام کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ اس نے دنیا کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر ترقی کا راستہ اختیار کرنا ہے یا پسماندگی کی دلدل میں دھنسے رہنا ہے۔