نئے امریکی صدر جو بائیڈن نے عندیہ دیا ہے کہ وہ روس کے ساتھ ایٹمی ہتھیاروں اور میزائیل کی تعداد کو محدود کرنے کے اسٹارٹ نامی معاہدہ میں مزید پانچ برس کی توسیع کریں گے۔ انیس سو اکیانوے میں ہونے والا یہ معاہدہ پانچ فروری کو ختم ہونے والا ہے۔ صدر ٹرمپ کا فیصلہ تھا کہ اس معاہدہ کو ختم ہونے دیا جائے جس سے خطرہ تھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان خطرناک ایٹمی ہتھیاروں کی نئی دوڑ شروع ہوجائے گی۔ اور عالمی امن کیلیے نئے مسائل جنم لیں گے۔ جو بائیڈن ہتھیاروں پر کنٹرول کے ماہر سمجھے جاتے ہیں۔ ان سے توقع تھی کہ وہ صدر ٹرمپ کی نسبت زیادہ معقول رویہ اور حکمت عملی اختیار کریں گے۔ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ تاہم جو بائیڈن کے صرف اس ایک فیصلہ کی بنیاد پر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ امریکہ کے روس سے تعلقات میں کوئی بڑی تبدیلی آجائے گی۔ جوبائیڈن نے ایک یہودی اینٹنی بِلنکِن کو اپنا وزیرخارجہ(سیکرٹری آف اسٹیٹ) نامزد کیا ہے۔ سینٹ کی خارجہ امور کی کمیٹی میں اپنے ابتدائی بیان میں انہوں نے روس سے امریکہ کے تعلقات کو تین مرتبہ اور چین سے تعلقات کودو مرتبہ اپنے ملک کے لیے چیلنج قرار دیا۔ واشنگٹن انتظامیہ روس کے بارے میں کتنی فکرمند ہے اس کا اشارہ اس بات سے بھی ملتا ہے کہ جو بائیڈن نے اپنی انٹیلی جنس ایجنسی سی آئی اے کے نئے سربراہ کے طور پر ولیم برنز کا تقرر کیا ہے جو پہلے ماسکو میں امریکی سفیر رہ چکے ہیں اور روس کے امور کے ماہر ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ اپنی سلامتی کے لیے اب بھی روس کوخطرہ نمبر ایک سمجھتا ہے۔ خاص طور سے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے بارے میں امریکہ کے حکمران طبقہ میں شدید نفرت پائی جاتی ہے۔
روس کے سابق صدر میدویدیف نے حال ہی میں اپنے ملک کے اخبار تاس میں ایک مضمون لکھا ہے جس میں انہوں نے خیال ظاہر کیا ہے کہ زیادہ امکان یہی ہے کہ امریکہ روس کے بارے میں معاندانہ حکمتِ عملی کو تسلسل سے جاری رکھے گا۔ انکا کہنا تھا کہ اب تک جوبائیڈن نے روس کے بارے میں کوئی مثبت بات نہیں کی۔ میدویدیف کا کہنا تھااسکے برعکس نئے امریکی صدر جو بائیڈن کی چین کے بارے میں تقریریں صدر ٹرمپ کی نسبتاً امن پسندانہ ہیں گواب بھی چین پر تجارتی پابندیاں برقرار رہیں گی۔ جبکہ بائیڈن کُھل کر روس سے متعلق سخت، غیردوستانہ، اور جارحانہ اندازمیں بات کرتے ہیں۔ جو بائیڈن بار بار کہہ چکے ہیں کہ روس امریکہ کی سلامتی اور اسکے دوسرے ملکوں سے اتحادوں کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ صرف جو بائیڈن ہی نہیں انکی پارٹی کے بڑے قائدین میں ایسے لوگ ہیں جو ان جیسے خیالات کے حامل ہیں اور ماسکو سے تعلقات میں بہتری لانے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ صدر میدویدیف کی رائے ہے کہ روس اور امریکہ کے تعلقات اگلے برسوں میں بھی انتہائی سرد مہری کا شکار رہیں گے۔ انکے خیال میں جوبائیڈن کی حکومت سے سخت روس مخالف پالیسی کے سوا اور کوئی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔ ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ کوئی سابق روسی صدر اخبار میں خارجہ پالیسی پر مضمون لکھے۔ اس اعتبار سے یہ آرٹیکل اہمیت کا حامل ہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ میدویدیف کے ذریعے روسی حکومت نے بہت سلیقہ سے امریکہ کو بالواسطہ طور پر ایک پیغام دیا ہے کہ وہ روس کے بارے میں اپنی پالیسی میں تبدیلی لائے۔ دوسری طرف، امریکی اخبارات اور میگزینوں میں شائع ہونے والے مضامین اور امریکی تھنک ٹینکس کی رپورٹوں سے بھی یہی لگتا ہے کہ امریکہ کا حکمران طبقہ روس اور چین کو اپنے دشمن کے طور پر دیکھتا ہے۔ ان مضامین سے یہ امریکی سوچ ہے کہ واشنگٹن روس اور چین کو مزید قریب آنے سے روکے اور انکے درمیان اختلافات کو ہوا دے تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ روس اور چین کا معاشی اور فوجی اتحاد امریکہ سے زیادہ طاقتورہوجائے۔
یورپی یونین خصوصاً اسکے بڑے ممالک جرمنی اور چین کی روس کے بارے میں کیا پالیسی رہتی ہے اس سے بھی امریکہ کی خارجہ پالیسی کا تعین ہوگا۔ اب یورپ پہلے کی طرح امریکہ کا پکّا اتحادی نہیں رہا جو آنکھیں بند کرکے اسکی ہر با ت مان جائے۔ یورپ کے ممالک پہلے اپنی سلامتی کیلیے امریکہ کی طرف دیکھتے تھے لیکن اب جرمنی کی طرف دیکھنے لگے ہیں۔ صدر ٹرمپ کے دور میں واشنگٹن کی حکومت نے جرمنی کی روس سے قدرتی گیس حاصل کرنے کی نئی پائپ لائن نارڈ اسٹریم (دوئم) کی سخت مخالفت کی، جرمنی کو اس منصوبہ پر عمل کرنے سے روکا لیکن جرمنی کی سربراہ انجیلا مرکل نے امریکہ کی بات نہیں مانی۔ ظاہر ہے جرمنی جب روس سے گیس کی ضرورت پوری کرے گا تو اسکا اثر دونوں ملکوں کے سیاسی تعلقات پر بھی پڑے گا۔ امریکہ روس سے سختی کے ساتھ پیش آنا چاہتا ہے جبکہ یورپ کے ممالک روس کے ساتھ بات چیت اور تعلقات بڑھا کر اپنے اختلافات حل کرنا چاہتے ہیں۔ لگتا ہے کہ امریکہ آنے والے دنوں میں روسی صدر پیوٹن کے مخالف روسی رہنما الیکسی نیوالنی کی پیٹھ ٹھونکے گا کہ وہ پیوٹن کے خلاف ڈٹ جائیں۔ وہ نیوالنی کے ساتھ کیے گئے سلوک کو انسانی حقوق کا مسئلہ بنا کر پیوٹن حکومت پر دباؤ ڈالے گا۔ روسی حکام کھل کر یہ الزام لگا چکے ہیں کہ نیوالنی کے سی آئی اے سے روابط ہیں۔ امریکہ کی کوشش ہے کہ نیو النی کے ذریعے وہ پیوٹن کی حکومت کو عدم استحکام کا شکار کرے۔ تین سال بعد روس میں صدراتی الیکشن ہونگے۔ اسوقت تک امریکہ رُوس میں پیوٹن مخالف قوتوں کو کمک فراہم کرے گا اور اس مقصد کے لیے یورپی ممالک کا تعاون بھی حاصل کرنے کی سعی کرے گا۔ حالات و واقعات سے واضح ہے کہ امریکہ اور روس کے تعلقات کشیدہ رہیں گے۔ دونوں ممالک ایک دوسرے کے عزائم پر شک کرتے ہیں۔ یہ بھی غنیمت ہوگا کہ انکے تعلقات کا تناؤکسی بڑے ٹکراؤ میں تبدیل نہ ہو۔