چین اور بھارت کے درمیان مقبوضہ لداخ میں جوفوجی کشیدگی چل رہی ہے اُسکا دائرہ اب بھارت کے اہم فوجی اڈہ دولت بیگ اولڈی کے نواح میں واقع دِپسَینگ وادی تک پھیل چکا ہے۔ چین اور بھارت کی عارضی سرحد پر پین گونگ جھیل اور گلوان وادی کے بعد یہ تیسرا مقام ہے جہاں بھارت کو چین کے ہاتھوں پسپائی کا سامنا ہے۔ د ِپسَینگ وادی لدّاخ کے بالکل شمال مشرقی کونہ میں ایک بہت ہی بلنداور انتہائی سرد مقام ہے۔ یہ علاقہ دفاعی اعتبار سے اس لیے اہم ہے کہ اس سے متصل شمال میں بھارت کا فوجی اڈہ دولت بیگ اولڈی واقع ہے جوچین اور بھارت کی سرحدسے صرف آٹھ نو کلومیٹر دُور ہے۔
پین گونگ اور گَلوان کے واقعات کے بعدبھارت اور چین کے مقامی فوجی کمانڈر وں نے تناؤ کم کرنے کی غرض سے دو مرتبہ بات چیت کی لیکن مذاکرات کامیاب نہیں ہوئے۔ اسکے برعکس دونوں ملکوں نے سرحد پر اپنی فوجوں کی تعداد میں اضافہ کردیا ہے۔ جنگی جہاز اور ہیلی کاپٹر سرحد کے قریب اپنے اپنے فوجی اڈوں پر بھیج دیے ہیں جو اس علاقہ میں پروازیں کرتے رہتے ہیں۔ تناؤ اتنا بڑھ چکا ہے کہ چین اور بھارت کے وزرائے خارجہ گزشتہ دنوں روس میں اکٹھے ہوئے لیکن انہوں نے سرحدی تنازعہ کو سلجھانے کے لیے ایک دوسرے سے بات چیت نہیں کی۔ بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی پرانکے ملک میں سخت تنقید ہورہی ہے کہ گلوان وادی میں بھارتی فوجی ہلاک ہوگئے لیکن وہ چین کو جواب نہیں دے سکے۔ چین کے حالیہ اقدامات سے بھارت کی چین کے مقابلہ میں فوجی کمزوری اور کمتری کھُل کر سامنے آگئی ہے۔ کچھ عرصہ سے بھارتی حکمران اپنی اوقات سے باہر ہوگئے تھے۔ چین نے انکا دماغ ٹھکانے لگا دیا ہے۔
لدّاخ میں چین اور بھارت کے درمیان جو سرحدی تنازعہ ہے اس میں جنگی اعتبار سے چار اہم مقامات ہیں جہاں دونوں ملکوں کی فوجوں کا ماضی میں آمنا سامنا ہوچکا ہے اور آئندہ بھی ہوسکتا ہے۔ جنوب میں گرم چشمہ (ہاٹ اسپرنگ) ہے۔ اِس سے اُوپر پین گونگ جھیل ہے۔ تیسرا مقام جھیل کے شمال میں چوشُول اور گلوان وادی کے علاقے ہیں۔ ان سب سے اُوپرانتہائی شمال میں دریائے چِپ چاپ کی دِپسَینگ وادی ہے۔ چِپ چاپ سندھ کے معاون دریا شیوک میں ضم ہوجاتا ہے۔ گزشتہ ماہ مئی کے شروع میں پین گونگ جھیل میں چینی فوجیوں نے بھارتی فوجوں کو پیچھے دھکیلا تھا اور انکی مکوں، لاتوں اور لاٹھیوں سے اچھی خاصی پٹائی کی تھی۔ پندرہ جون کو گلوان وادی میں دونوں ملکوں کے فوجیوں کا ٹکراؤ ہوگیا تھا جس میں بھارت کے بیس فوجی ہلاک اور درجنوں زخمی ہوگئے تھے۔ اب دِپسَینگ کا محاذ گرم ہورہا ہے۔ اس وادی میں چین نے بھارتی فوج کو گشت کرنے سے روک دیا ہے۔ یُوں تو تقریباًساری دپسَینگ وادی چین میں شامل ہے لیکن یہاں پربیس کلومیٹر کا علاقہ کسی ایک ملک کے قبضہ میں نہیں تھا۔ دونوں ملکوں کی فوجیں اس، نو مین لینڈ، پر پیٹرولنگ کیا کرتی تھیں۔ چین نے بھارتی فوج کی گشت پرکبھی اعتراض نہیں کیا۔ البتہ اب چین کا روّیہ بدل گیا ہے۔
حالیہ برسوں میں دو اہم واقعات ہوئے جن سے چین کو اپنے تحفظ کے بارے میں تشویش لاحق ہوئی اور اسے فوجی اقدامات کرنے پڑے۔ ایک تو بھارت نے شمال میں اپنے فوجی اڈہ دولت بیگ اولڈی کو جنوبی مقام دمچوک سے ملانے کے لیے ایک بڑی شاہراہ بنالی جس کاواحد مقصد فوجیوں کی نقل و حرکت اور فوجی ساز و سامان لانا لیجانا ہے کیونکہ یہاں سینکڑوں میل تک انسانی آبادی نہیں ہے۔ دوسرے، بھارت نے فوجی اڈہ دولت بیگ اولڈی کو عارضی سرحد پر واقع پیٹرولنگ مقامات سے ملانے کے لیے چھوٹی سڑکیں (فیڈرز) بنانی شروع کردیں۔ پیٹرولنگ مقامات تو چین کی طرف سے بھارت کو نو مین لینڈ، میں دی گئی ایک طرح کی رعایت تھے تاکہ دونوں فوجوں کے درمیان اعتماد کی فضا قائم رہے۔ لیکن بھارت نے انکو اپنامستقل حصّہ سمجھنا شروع کردیا، وہاں ایسی سرگرمیاں شروع کردیں جنکا مقصدتھا کہ چین کی سرحد تک بھارتی فوج کی نقل و حرکت کوآسان بنایا جاسکے۔ یہ متنازعہ معاملات چل ہی رہے تھے کہ بھارت نے گزشتہ سال اگست میں ریاست جموں و کشمیر اور لدّاخ کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرکے انہیں اپنا وفاقی علاقہ قرار دے دیا حالانکہ لداخ ایک متنازعہ علاقہ ہے۔ بھارت نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اس کے وزراء بار بار یہ بیان دیتے رہے کہ بھارت اکسائے چن کا علاقہ بھی چین سے چھینے گا۔ ان اشتعال انگیز بیانات نے چین کو اپنی سلامتی کے بارے میں چوکنا کردیا۔ چین نے سرحد پر اُن مقامات کو محفوظ بنانا شروع کردیا جہاں سے اکسائے چن پربھارتی فوج حملہ کرسکتی ہے۔
بھارت کے زیر قبضہ لداخ اور چین کے درمیان قراقرم کا پہاڑی سلسلہ ایک قدرتی سرحد کی طرح ہے جو شمال مغرب سے جنوب مشرق کی طرف ایک ٹیڑھی لکیر کی طرح پھیلا ہوا ہے۔ تاہم بھارت کے قبضہ میں کچھ ایسے علاقے بھی ہیں جو قراقرم کے مشرق میں چینی علاقہ سے متصل ہیں۔ ان میں ایک دِپسینگ کی وادی بھی شامل ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان عارضی سرحد (لائن آف ایکچوئل کنٹرول )اس وادی میں سے گزرتی ہے۔ انیس سو باسٹھ میں چین اور بھارت کے درمیان جن علاقوں میں جنگ ہوئی تھی ان میں دِپسینگ وادی بھی شامل تھی۔ اپریل دو ہزار تیرہ میں بھی یہاں دونوں ملکوں کی فوجوں میں کشیدگی ہوگئی تھی اور وہ ایک ماہ تک آمنے سامنے کھڑی رہیں۔ تاہم سفارتی مذاکرات کے ذریعے یہ کشیدگی دُور ہوگئی تھی۔
دِپسینگ وادی سے جُڑا ہوا دولت بیگ اولڈی (ڈی بی او) کا فوجی اڈہ بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم کا بڑا مرکز ہے جسے انیس سو باسٹھ میں تعمیر کیا گیاتھا۔ اگر بھارت کے عزائم نیک ہوتے تو اس دور دراز، سرد علاقہ میں فوجی سرگرمیاں بڑھانے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ سردی کے موسم میں یہاں درجہ حرارت منفی پچپن تک گر جاتا ہے۔ ساڑھے سولہ ہزار فٹ کی بلندی پر واقع یہ دنیا کی بلند ترین ائیر فیلڈ سمجھی جاتی ہے۔ جب سے بھارت اور امریکہ کے درمیان اتحاد ہوا ہے دِلّی کے حکمران اس فوجی اڈّہ کو مسلسل توسیع دے رہے ہیں۔ اسکاصاف مطلب یہ ہے کہ بھارت اس جگہ کو عالمی سیاست اور چین، امریکہ سرد جنگ میں استعمال کرنے کی تیاریاں کررہا ہے۔ ان عزائم کو بھانپتے ہوئے دپسینگ وادی میں چین نے کاروائی کی ہے اور فوجی نوعیت کے اہم مقامات پر اپنی پوزیشن مستحکم کرلی ہے۔