Monday, 23 December 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Gilgit Baltistan Election

Gilgit Baltistan Election

شدید سردی کے موسم میں گلگت بلتستان کے عوام جس جوش و خروش اور والہانہ پن سے بڑی تعداد میں ووٹ ڈالنے کے لیے گھروں سے نکلے وہ متاثر کُن عمل ہے۔ الیکشن تو گزشتہ اگست میں ہونا تھے لیکن کورونا وبا کے باعث ملتوی کردیے گئے تھے اور ایسی کڑی سردی کے موسم میں کروانے پڑے۔ پچاس فیصد سے زیادہ ٹرن آؤٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ عوام میں جمہوریت سے گہری وابستگی ہے۔ لوگ اپنی سیاسی رائے کا اظہار کرنا چاہتے ہیں۔ اپنی پسند کے نمائندے منتخب کرنا چاہتے ہیں جو نظام حکومت چلائیں۔ گلگت بلتستان کے لوگوں کوپاکستان کے جمہوری عمل اور الیکشن پر اعتماد ہے جبھی تو وہ برف باری میں بھی لمبی قطاروں میں کھڑے ووٹ ڈالنے کی خاطراپنی باری کاانتظار کررہے تھے۔ جس جگہ پر لوگ انتخابات کے عمل میں اتنی پُر جوشی کامظاہرہ کریں وہاں کوئی غیر جمہوری نظام نہیں چل سکتا۔

گلگت بلتستان قانونی طور پر ریاست جموں کشمیر کا حصّہ ہے، غلط یاصحیح طورپر لیکن حقیقت یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں میں یہ بھارت اورپاکستان کے درمیان جموں اور کشمیر کی طرح ایک متنازعہ علاقہ ہے جسکا فیصلہ عوام کے استصواب رائے سے ہوگا۔ اسی لیے آج تک اس خطہ کو پاکستان میں باقاعدہ طور پر شامل نہیں کیا گیا۔ تاہم گلگت بلتستان کے عوام ایسا نہیں سمجھتے۔ وہ خود کو جموں کشمیر ریاست سے الگ آزاد علاقہ تصور کرتے ہیں۔ اس بحث سے قطع ِنظر پندرہ نومبر کے الیکشن میں ووٹروں کی زبردست دلچسپی اورووٹ ڈالنے کی بہت اونچی شرح کو دیکھا جائے تو یہ پاکستا ن کے لیے بہت خوش آئندہے کہ اس خطہ کے عوام نے پاکستان پر بھرپور اعتماد کا اظہارکیا ہے۔ اس کے برعکس بھارت کے مقبوضہ کشمیر میں جب الیکشن ہوتے ہیں تو بہت کم لوگ، پانچ سے دس فیصد، ووٹ ڈالنے نکلتے ہیں وہ بھی ریاستی اداروں کے دباؤ اور جبر و تشددکے تحت۔ گلگت بلتستان میں عوام کی پُر جوش شرکت کو پاکستان کے حق میں ایک طرح کا ریفرنڈم کہا جاسکتا ہے۔

پندرہ نومبر کے الیکشن کے نتائج توقع کے مطابق ہیں۔ دھاندلی کا شور مچانا ہر شکست خوردہ لیڈر اور سیاسی جماعت کا پرانا وطیرہ ہے۔ کسی آزاد مبصر نے ووٹنگ میں منظم دھاندلی کی شکایت نہیں کی۔ اخبارات کے کالموں اور ٹیلی ویژن کے نمائندوں کاانتخابات سے پہلے اس بات پر اتفاق تھا کہ تحریک انصاف کو سب سے زیادہ سیٹیں ملیں گی اسکے بعد پیپلز پارٹی کو۔ مسلم لیگ ن کو بہت کم نشستیں ملنے کی اُمید تھی۔ رائے عامہ کے جو جائزے ہوئے جیسے گیلپ پولز اور دیگر کمپنیوں کے سروے ان سب میں بھی پی ٹی آئی کی واضح برتری کی پییشین گوئی کی گئی تھی۔ گلگت بلتستان کے دس ضلعوں میں چوبیس حلقے ہیں۔ ایک حلقہ میں ایک امیدوار کی وفات کے باعث پولنگ ملتوی کردی گئی تھی جو بائیس نومبر کو منعقد ہوگی۔ غیرسرکاری نتائج کے مطابق اب تک تئیس میں سے نو سیٹیں پی ٹی آئی کے امیدواروں نے حاصل کی ہیں۔ تین پیپلز پارٹی اور دو مسلم لیگ(ن) نے۔ ایک غیر متوقع نتیجہ یہ آیا ہے کہ آزاد امیدوار بڑی تعداد میں کامیاب ہوئے ہیں۔ سات آزاد امیدوارمنتخب ہوئے ہیں جن میں سے چار کا تعلق الیکشن سے پہلے پی ٹی آئی سے تھا لیکن پارٹی سے ٹکٹ نہ ملنے کے باعث وہ آزاد حیثیت میں کھڑے ہوگئے تھے۔ کسی جماعت کو حکومت بنانے کے لیے سادہ اکثریت نہیں ملی۔ جو پارٹی آزاد امیدواروں کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی وہ حکومت بنالے گی۔ ایک اہم مرحلہ خواتین کی چھ مخصوص سیٹوں اور ٹیکنوکریٹ کی تین نشستوں کا ہوگا۔ ان کا انتخاب عام نشستوں پر منتخب ہونے والے ارکان کریں گے۔ ان سیٹوں کے نتائج اسمبلی میں اکثریتی پارٹی کا تعین کرنے میں اہم ثابت ہوں گے۔ جمہوری روایت کی پیروی کی جائے تو سب سے بڑے اکثریتی جماعت پی ٹی آئی کو حکومت بنانے کا موقع ملنا چاہیے۔ اگر وہ کامیاب نہ ہو تب دوسری جماعتوں کو آگے بڑھنا چاہیے۔ پی ٹی آئی کو مجلس وحدت المسلمین کے ایک کامیاب رکن کی حمایت بھی حاصل ہوگی کیونکہ دونوں پارٹیوں نے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی تھی۔ بلاول زرداری نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ دیکھیں گے کہ پی ٹی آئی کیسے حکومت بناتی ہے۔ انہوں نے پیپلز پارٹی کی جانب سے وزیراعلیٰ کا امیدوار بھی نامزد کردیا ہے۔ اگر چار سیٹوں والی پیپلز پارٹی حکومت بناتی ہے تو یہ ہارس ٹریڈنگ کے بغیر ممکن نہیں ہوگا۔ ایک تو بلاول کومسلم لیگ کے دو ارکان کو ساتھ ملانا پڑے گا۔ دوسرے، پیپلزپارٹی وہی فارمولا استعمال کرے گی جوتین سال پہلے اس نے بلوچستان میں کیا تھا جہاں وزیراعلیٰ کو ہٹانے کے لیے آصف زرداری دعا اوردوا، دینے بنفس نفیس کوئٹہ پہنچے تھے۔ پیپلز پارٹی گلگت میں حکومت تو شائد نہ بناسکے لیکن پی ٹی آئی کے لیے مشکلات ضرور بڑھا سکتی ہے۔

وزیراعظم عمران خان کو سوچنا چاہیے کہ گلگت بلتستان کے الیکشن میں ان کی پارٹی نے غلط امیدواروں کو کیوں پارٹی ٹکٹ دیے، انکی پارٹی نے ایسے اُمیدواروں کو نظر انداز کیوں کیا جنکے جیتنے کے زیادہ امکانات تھے۔ یقیناً تحریک انصاف کے ٹکٹوں کی تقسیم کے نظام میں خامیاں موجود ہیں۔ اس خطہ کے تین ڈویژن ہیں۔ گلگت، بلتستان اور دیامر۔ حقیقت یہ ہے کہ ان تمام جگہوں میں مقامی بااثر سیاستدان ہی الیکشن کی سیاست میں اہم ترین کردار ادا کرتے ہیں۔ انتخابات الیکٹ ایبلز کا کھیل ہے۔ سیاسی جماعتوں کا مجموعی وو ٹ میں حصہ خاصا کم ہے۔ برادری اور مسلک بھی اہم عوامل ہیں۔ تاہم سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس خطہ کے لوگ عموماً اس پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں جس کی وفاق میں حکومت ہو کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ گلگت، بلتستان کی حکومت فنڈز اور دیگر کاموں کی تکمیل کی خاطر وفاق پر انحصار کرتی ہے۔ اس لیے ایسی پارٹی کی حکومت ہونی چاہیے جو وفاق سے محاذآرائی کی بجائے اسکے ساتھ ہم آ ہنگی سے مل کر کام کرے اور لوگوں کے مسائل حل کرواسکے۔ تمام بڑی سیاسی پارٹیوں نے گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کا وعدہ کیا ہے۔ پی ٹی آئی نے اِسے عبوری صوبہ بنانے کا اعلان کیا ہے تاکہ اس علاقہ کی پارلیمان میں نمائندگی بھی ہوجائے اور اقوام متحدہ کی ریاست جموں کشمیر کے ایشو پر قراردادوں کی خلاف ورزی بھی نہ ہو۔ یہ زیادہ بہتر راستہ ہے۔ اگر پی ٹی آئی اپنا وعدہ پورا کرتے ہوئے جلد ہی آئینی بل پارلیمان میں پیش کردے تو اپوزیشن بھی اسکی مخالفت نہیں کرسکے گی۔ گلگت بلتستان سی پیک کے حوالہ سے بہت اہمیت رکھتا ہے اور یہاں چین کی سرمایہ کاری ہے۔ چین کی بھی دلچسپی ہے کہ اس خطہ کو پاکستان کے مرکزی دھارے سے جوڑا جائے۔