فرض کرلیجیے کہ صدارتی تائید کو عوامی تائید حاصل ہوجاتی ہے اور ملک میں پارلیمانی نظام کی جگہ صدارتی نظام نافذ کردیا جاتا ہے توہمیں ان سوالوں پر غور اور بحث و تمحیص کرنا ہوگی کہ اس نئے سیاسی بندوبست میں کیا مسائل درپیش ہوں گے، انہیں کس طرح حل کیا جائے گا، اس سسٹم کے کیا فوائد اور نقصانات ہوسکتے ہیں۔ پہلا سوال تو یہ ہے کہ کیا صدارتی نظام اس طرز کا ہوگا جو جنرل ایوب خان لائے تھے جس میں صدر کا انتخاب براہ راست عوام کے ووٹوں سے نہیں ہوتا تھا بلکہ نوّے ہزار بلدیاتی کونسلرز صدر کے انتخاب میں ووٹ ڈالتے تھے؟ ان بلدیاتی کونسلرز کو اس وقت بی ڈی(بیسک ڈیموکریسی) ممبرز کہا جاتا تھا۔ اس طریقہ انتخاب پر ایک اعتراض تو یہ تھا کہ اس میں حکومتِ وقت دباؤ ڈال کر، سرکاری فنڈز، سرکاری مشینری استعمال کرکے اپنے پسندیدہ امیدوار کو جتوا سکتی تھی۔ ایوب خان نے محترمہ فاطمہ جناح کو شکست دی تو ان پر یہی الزامات لگائے گئے تھے۔ اس لیے اس طریقہ انتخاب کی ساکھ کوشدید نقصان پہنچا۔ اب اگر دوبارہ اسی طرز کاصدارتی نظام اختیار کیا گیا تو سیاسی طور پر فعال طبقات اور رائے عامہ پر اثر انداز ہونے والے دانشور، صحافی اسے قبول نہیں کریں گے۔ رائے عامہ اسے قبول نہیں کرے گی۔
متبادل یہ ہے کہ صدر کا الیکشن براہِ راست عوام کے ووٹوں سے کیا جائے۔ پورے ملک کے ووٹربالغ رائے دہی کی بنیاد پر اپنی اپنی پسند کے صدارتی امیدوار وں کو ووٹ ڈالیں۔ جسکے ووٹ زیادہ ہوں وہ کامیاب ہوجائے، صدر بن جائے۔ اس طریقہ میں ایک مسئلہ درپیش ہوگا کہ اگر متعدد امیدوار کھڑے ہوجائیں تو وہ شخص کامیاب ہوجائے گا جس کے تمام امیدواروں کے مقابلہ میں تو زیادہ ووٹ ہونگے لیکن ڈالے گئے مجموعی ووٹوں کی اکثریت اسکے خلاف ہوگی۔ ہوسکتا ہے کہ ایک شخص تیس پینتیس فیصد ووٹ لیکر کامیاب ہوجائے۔ بقیہ ووٹ متعدد امیدواروں میں تقسیم ہوجائیں۔ اس طرح منتخب ہونے والے صدر کی سیاسی ساکھ کمزور ہوگی۔ ملک کی اکثریت اسکے ساتھ نہیں ہوگی۔ خدشہ ہے کہ ترپن فیصد آبادی والے صوبہ پنجاب سے تعلق رکھنے والا امیدوار ہی ہر دفعہ کامیاب ہوجایا کرے گا۔ چھوٹے صوبوں میں احساس محرومی پیدا ہوگا۔ ان خطرات سے بچنے کی غرض سے بہتر یہ ہے صدر کے براہ ِراست الیکشن میں اکیاون فیصد ووٹ لینے کا اصول اختیار کیا جائے۔ پہلے مرحلہ میں اگر کوئی امیدوار ڈالے گئے ووٹوں کا اکیاون فیصد حاصل نہ کرسکے تو دوسری بار ووٹنگ کرائی جائے جس میں سب سے زیادہ ووٹ لینے والے دو بڑے امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہو۔
کئی ملکوں میں یہ طریقہ رائج ہے۔ اسے رن آف الیکشن، کہا جاتا ہے۔ اس طریقہ کو اختیار کرنے سے الیکشن کرانے کے اخراجات بہت بڑھ جائیں گے لیکن اسکے فوائد مالی نقصان پر بھاری ہیں۔ صدر کے الیکشن میں دوسری شرط یہ رکھی جائے کہ کامیاب امیدوار کے لیے کم سے کم دو صوبوں سے اکثریتی ووٹ لینا لازمی ہوتاکہ پنجاب کی عددی اکثریت کی بنیاد پر صدر بننے کا امکان ختم ہوجائے۔ اس شرط سے چھوٹے صوبوں میں اس نظام میں اعتماد پیدا ہوگا کہ اُن سے مینڈیٹ لیے بغیر کوئی صدر نہیں بن سکتا۔ درحقیقت صدارتی نظام اختیار کرنے میں سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ چھوٹے صوبوں کا اعتماد حاصل کیا جائے اور انکے خدشات کو دورکیا جائے۔ صدارتی نظام میں صدر انتظامیہ کا سربراہ ہوتا ہے۔ انتظامیہ اور قانون ساز ادارے الگ الگ ہوتے ہیں۔ موجودہ نظام میں پارلیمان ہی سے انتظامیہ کا سربراہ یعنی وزیراعظم اور اسکی کابینہ جنم لیتے ہیں۔ صدارتی طریقہ میں پارلیمان کا کام صرف قانون سازی تک محدودہے۔ ارکانِ اسمبلی انتظامی کاموں میں دخل اندازی نہیں کرسکتی۔ صدر پارلیمان کی خوشنودی کے لیے سیاسی اقدام کرنے کی بجائے ملکی نظم و نسق پر توجہ دے سکے گا۔ صدارتی نظام اختیار کرنے سے انتظامی امور میں سیاسی عمل دخل ختم شائد نہ ہو لیکن کم ضرور ہوجائے گا۔
یہی اسکا سب سے بڑا فائدہ ہے۔ صدر کیلئے ضروری نہیں ہوگا کہ وہ اپنے وزراء کا انتخاب ارکانِ پارلیمان سے کرے۔ وہ ماہرین، ٹیکنوکریٹس پر مشتمل کابینہ تشکیل دے سکتا ہے۔ عام طور سے ارکان پارلیمان مقامی مسائل کی بنیاد پر الیکشن جیت کر آتے ہیں اور بڑے قومی نوعیت کے مسائل کی سوجھ بوجھ نہیں رکھتے۔ اس کمزوری پر قابو پانے کیلئے موجودہ نظام میں وزیراعظم کو مشیروں اورمعاونین خصوصی کا تقرر کرنا پڑتا ہے۔ موجودہ پارلیمانی نظام میں خرابی کی ایک بڑی وجہ بااثر مقامی سیاستدان ہیں جنہیں الیکٹ ایبل کہا جاتا ہے۔ یہ حکمرانی کے نظام میں متعدد خرابیوں کے ذمہ دار ہیں۔ انتظامی امور میں انکی سیاسی مداخلت سے غیرقانونی کام کیے جاتے ہیں، میرٹ پامال ہوتا ہے، انکی سفارش پر افسروں کے تبادلہ اور تعیناتی سے انتظامی ڈھانچہ ناکارہ ہوچکا ہے۔ بڑے زمینداروں، قبائلی سرداروں پر مبنی الیکٹ ایبلز نے سیاسی، انتظامی نظام پر شکنجہ کسا ہوا ہے۔ صدارتی نظام میں ان مقامی سیاستدانوں کا زورٹوٹ جائے گا۔ جاگیرداروں، وڈیروں اور قبائلی سرداروں کی اہمیت کم ہوجائے گی۔ اسکے برعکس سرکاری افسروں کی طاقت بڑھ جائے گی۔ وہ زیادہ آزادی سے کام کرسکیں گے، قاعدہ قانون کے مطابق کام کرسکیں گے۔ لاقانونیت کم کرنے میں مدد ملے گی۔ اگر کوئی حکومت میرٹ اور قابلیت کی بنیاد پر دیانت دار افسران تعینات کرے گی تو ملک میں قانون کی حکمرانی قائم ہوسکے گی۔ تاہم یہ نہیں کہا جاسکتا کہ صدارتی نظام لانے سے صدر پارلیمان کے اثر سے بالکل آزاد ہوجائیگا۔
کسی بھی حکومت کو اپنا کام چلانے کے لیے اکثروبیشتر نئے قوانین بنانا پڑتے ہیں۔ صدر کو قانون سازی کے لیے پارلیمان کے پاس جانا پڑ تا ہے۔ اس موقع پر ارکانِ پارلیمان صدر سے اپنے مطالبات منواتے ہیں۔ امریکہ میں بھی یہی ہوتا ہے کہ صدر کو کانگریس کے ساتھ سودے بازی کرنا پڑتی ہے۔ کچھ لو، کچھ دو کے اصول کے تحت کام چلانا پڑتا ہے۔ ہمارے ہاں بھی صدر کو ارکان پارلیمان کی بات سننا پڑے گی۔ یوں مختلف علاقوں کے نمائندہ ارکان اپنے علاقوں کے ترقیاتی کاموں اور دیگر مسائل کے حل کے لیے حکومت سے اپنے مطالبات منواسکیں گے۔ صدارتی نظام ملک کو سیاسی استحکام اور قانون کی حکمرانی کی طرف لے جاسکتاہے۔ اس میں جاگیرداروں اور قبائلی سرداروں کی طاقت بھی کم ہوجائے گی جس سے ملک میں معاشی اور سماجی ترقی کا راستہ آسان ہوجائے گا۔ پارلیمان ا ور اننظامیہ کی علیحدگی سے انتظامی اداروں میں سیاسی مداخلت کے منفی نتائج سے بچا جا سکتا ہے۔ تاہم یہ اسی صورت ممکن ہے جب قوم کی اکثریت اس نظام کو لانے کی تائید کرے۔