پاکستان میں جمہوریت کی ایک نئی قسم ایجاد ہوئی ہے کہ حکومت آئینی مدت پوری کیے بغیر محض حزبِ اختلاف کے جلسوں کے ذریعے گھر چلی جائے۔ الیکشن ولیکشن کی کیا حیثیت ہے؟ کئی ماہ سے اپوزیشن جماعتوں کے جلسے جلوس اور بڑھک بازی جاری ہے۔ آئندہ اتوار کو لاہور کے اقبال پارک میں ایک بڑا اجتماع کرنے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ اس مظاہرہ کے بعد حکومت رخصت ہوجائے گی۔ اگر حکومتوں نے اس طرح ٹوٹنا اور بننا ہے تو پاکستان کے دستور میں ترمیم کرلی جائے کہ اگرکوئی اپوزیشن جماعت حکومت کے خلاف پانچ چھ جلسے منعقدکرلے تو وزیراعظم کو مستعفی ہوکرنئے جنرل الیکشن کا انعقاد کرانا ہوگا۔ یہ کیسی مہمل بات ہے۔ ہر بڑی سیاسی پارٹی کولاکھوں لوگ ووٹ دیتے ہیں۔ کوئی بھی سیاسی جماعت مال خرچ کرکے اپنے ہزاروں سپورٹرز کو اکٹھا کرسکتی ہے۔ جلسے جلوسوں سے اگر اقتدار کی منتقلی کا فیصلہ ہونا ہے تویہ طوائف الملوکی، انارکی ہوگی۔ آئینی، جمہوری نظام نہیں ہوگا۔
اپنے بیانیہ کو عوام میں مقبول کرنے کی خاطراپنے کارکنوں کو متحرک کرنا اور میٹنگز کرنا سیاسی جماعتوں کا دستوری حق ہے۔ اظہار رائے اور اجتماع کرنے کی آزادیاں بنیادی حقوق کا لازمی حصّہ ہیں۔ لیکن ہمارے ملک میں بندروں کے ہاتھ میں اُسترے آگئے ہیں۔ جیسے ہی الیکشن ہوتے ہیں اور حکومت بنتی ہے اپوزیشن جماعتوں سے اقتدار کی دُوری برداشت نہیں ہوتی۔ وہ منتخب حکومت کو گرانے کی کوششیں شروع کردیتی ہیں۔ مسلم لیگ(ن) کے گزشتہ دور حکومت میں عمران خان نے بھی یہ غلطی کی تھی۔ ریلیاں نکالتے، دھرنے دیتے رہے۔ نواز شریف سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرتے رہے۔ وہ یہ وقت اپنی پارٹی کو نچلی سطح پر منظم کرنے اور خیبر پختون خواہ کی صوبائی حکومت کے ذریعے گورننس بہتر بنانے میں صرف کرتے توتحریک انصاف زیادہ مضبوط پارٹی بن کر اُبھرتی۔ انہیں دو ہزار اٹھارہ کے عام انتخابات میں روایتی سیاستدانوں کا کچرا نہ اُٹھانا پڑتا۔ ان کے جلسے جلوسوں کے باوجود مسلم لیگ(ن) کی حکومت نے اپنا دورانیہ پورا کیا۔ ٹھیک پانچ برس بعد الیکشن ہوئے۔ اب بھی اپوزیشن کے جلسوں دیکھ کر عمران خان استعفیٰ دینے والے نہیں۔ وہ خود ایسے اجتماعات منعقد کرسکتے ہیں۔ البتہ اگر حکومت گھبراہٹ کا شکار ہوگئی اور اس نے اپوزیشن کے خلاف ریاستی طاقت استعمال کی تو حالات خراب ہوسکتے ہیں۔ اپنے حامیوں کا مورال بلند رکھنے کو اپوزیشن لیڈرز جو بھی کہیں لیکن یہ انہیں بھی معلوم ہے کہ جلسے جلوسوں سے حکومت گرانا ممکن نہیں۔ حکومت اس وقت مستعفی ہوتی ہے جب طویل عرصہ تک ملک گیر ہڑتال اور پہیہ جام ہوجائے۔ کاروبار ِزندگی مفلوج ہوجائے۔ کارِ حکومت چلانا ممکن نہ رہے۔ اپوزیشن میں اتنی جان نہیں کہ وہ ایسا احتجاج کرسکے۔ عمران خان کی حکومت کو عوام کے ایک بڑے طبقہ میں ابھی تک حمایت حاصل ہے۔ تاہم ملک میں ایک سیاسی بے چینی کی فضا بنائے رکھنے کی غرض سے حزب اختلاف کا اتحاد اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کرسکتا ہے۔ حکومت جائے نہ جائے لیکن یہ سرگرمی کورونا وبا پھیلانے میں خاصی مددگار ثابت ہوگی۔
مسلم لیگ(ن) اور جمعیت العلمائے اسلام(ف)کی ہر ممکن کوشش ہے کہ اگلے چند ماہ میں اسمبلیاں ٹوٹ جائیں تاکہ مارچ میں سینٹ کے الیکشن نہ ہوسکیں کیونکہ اگر یہ انتخابات ہوگئے توپارلیمان کے ایوانِ بالا میں بھی تحریک انصاف کو اکثریت حاصل ہوجائے گی۔ وہ اپنی مرضی سے قانون سازی کرسکے گی۔ حکومت زیادہ آسانی سے کام کرسکے گی۔ اسے ہلانا مشکل ہوجائے گا۔ اپوزیشن کے پاس موجودہ نظام کو جھٹکا دینے کے لیے سب سے بڑا ہتھیا ریہ ہے کہ اسکے ارکان اسمبلیوں سے استعفیٰ دے دیں۔ اگر پیپلز پارٹی بھی راضی ہوجائے تو قومی اسمبلی کی تقریباً ڈیڑھ سو سیٹیں خالی ہوجائیں گی۔ اوّل تو پیپلزپارٹی کا اس اقدام پر راضی ہونا مشکل دکھائی دیتا ہے کیونکہ سندھ اسمبلی میں اسکی بڑی اکثریت ہے۔ سینٹ میں سندھ سے پیپلزپارٹی کے اچھے خاصے ارکان منتخب ہونگے۔ لیکن بالفرض ایسا ہوبھی جائے تو حکومت کے اعصاب پر منحصر ہے کہ وہ دباؤ میں نہ آئے اورخالی نشستوں پر ضمنی الیکشن کرادے۔ بہت زیادہ امکان ہے کہ ضمنی انتخابات میں ن لیگ اور پیپلز پارٹی کو نقصان ہوگا۔ قومی اسمبلی میں انکی تعدادمزید کم ہوجائے گی۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اتنی زیادہ تعداد میں ارکان مستعفی ہوجائیں تو اسمبلیوں کی حیثیت متنازعہ ہوجاتی ہے اور وزیراعظم کو استعفیٰ دیکر عام انتخابات کروانا پڑیں گے۔ اگر وہ نہیں کروائیں گے تو اپوزیشن قومی اسمبلی کی قانونی حیثیت کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرسکتی ہے۔ تاہم ضروری تو نہیں کہ عدالت عظمیٰ حزب اختلاف کے موقف کی تائید کرے۔ وہ ضمنی انتخابات کرانے کے حق میں بھی فیصلہ دے سکتی ہے۔ آئین تو اس بارے میں واضح نہیں ہے۔ دستور میں تو کہیں نہیں لکھا کہ اگراسمبلی ارکان کی بڑی تعداد استعفے دے تو عام انتخابات کرانا لازم ہیں۔ اگر اس اصول کو تسلیم کرلیا جائے کہ کسی پارلیمان کو حزب اختلاف کے ارکان چھوڑ دیں تو جنرل الیکشن کرانا لازمی ہونگے تو ہر منتخب حکومت کے ساتھ ایسا ہوسکتا ہے۔ فرض کیجیے نئے الیکشن ہوجائیں اور تحریک انصاف حزب اختلاف میں ہو تو وہ بھی یہ طریقہ اختیار کرسکتی ہے۔ اسکے ارکان قومی اسمبلی سے مستعفی ہوجائیں توکیا ایک بار پھر نئے الیکشن کرانا پڑیں گے؟ یہ تو کھیل تماشا بن جائے گا۔ اسطرح تو دنیا کا کوئی سیاسی، جمہوری نظام نہیں چل سکتا۔ جمہوریت کی مضبوطی اور آئین کی بالادستی اسی بات میں ہے کہ ہر منتخب حکومت اپنی پانچ برس کی مدت پوری کرے۔ اُسے تبدیل کرنا ہے توپارلیمان کے اندر تحریک عدم اعتماد لائی جائے۔
یہ بات حزب اختلاف کو بھی معلوم ہے کہ وہ جو کھیل کھیل رہی ہے اس سے جمہوری تسلسل قائم نہیں رہ سکے گا۔ لیکن ن لیگ اور پیپلزپارٹی اپنے لیڈروں پر کرپشن مقدمات سے اتنے پریشان اور تنگ ہیں کہ وہ ہر حال میں عمران خان کی حکومت کو رخصت کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے ہر حربہ استعمال کرکے دیکھ لیا کہ کسی طرح وزیراعظم نیب قانون میں ترمیم کرکے انہیں ریلیف دے دیں لیکن وہ راضی نہیں ہوئے۔ ریاستی اداروں کے بعض عناصر نے بھی کوشش کرلی کہ سیاسی استحکام کی خاطر کرپشن مقدمات میں کچھ ریلیف دے دیا جائے لیکن بات نہیں بنی۔ اب ملک کو جمہوریت کی پٹری پر چلائے رکھنا ہے تو ا پوزیشن کے استعفوں کی صورت میں خالی نشستوں پر صاف ستھرے ضمنی الیکشن کرادیے جائیں۔ آزاد مبصرین کو مکمل اجازت دی جائے کہ وہ انکی شفافیت کا معائنہ کرسکیں۔ اگرایسا ہوجائے تو آئندہ کے لیے سیاسی جماعتوں کی بلیک میلنگ کا یہ راستہ بند ہوجائے گا۔ جمہوری تسلسل اور سیاسی استحکام کی خاطر کبھی نہ کبھی یہ کام کرنا پڑے گا۔ آئین سے انحراف اور کوئی نیا سیاسی تجربہ مزید پیچیدگیوں کو جنم دے گا۔ اس ملک میں فسادیوں کی کمی نہیں۔