مجھے پرانی کہانیاں اور کلاسیکل لٹریچر بہت پسند ہے میں ان سے زندگی کے متعلق معاملات کے بارے میں رہنمائی اور استفادہ لیتا رہتا ہوں۔ اگراردو مضمون کی کہانیاں آج کل کے نوجوانوں کو سنائیں تو انہیں ان کے بارے میں کوئی خاطر خواہ دلچسپی نہیں ہوتی لیکن پھر دوسرے طریقے سے انہیں سمجھانا پڑتا ہے حالانکہ اسی مضمون میں انہوں نے دس میں سے دس نمبر لے رکھے ہوتے ہیں۔
ایگزامینر سے اگر اسی بارے میں پوچھیں تو وہ کہتا ہے کہ اگر ان کی لکھائی اچھی ہوتی تو وہ نمبر مزید بڑھا بھی سکتا تھاکیونکہ بندہ بڑا دیانت دار ہے۔ ہوا یوں کہ دو بلیاں جنہیں دیار غیر سے کسی نے پنیر کا تحفہ بھیجا تو بجائے اسے آپس میں تقیسم کرنے کے وہ الجھ پڑیں اور پنجہ آزمائی کرکے آپس میں سینگ پھنسا بیٹھیں (یہاں دست و گریبان کا صیغہ استعمال نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ایک تو یہ متعلقہ سلیبس میں شامل نہیں دوسرا ایگزامینر یہ قدغن بھی لگا سکتا ہے کہ بلیوں کا دست و گریبان ہونے سے کیا تعلق)۔
چنانچہ جنگل میں قانون کے دائرے کے اندر رہنے والے دوسرے جانوروں کے لئے ان بلیوں کی دھینگا مشتی اور بے جا شور شرابے سے نقص امن کا خطرہ پیدا ہونا شروع ہوا۔ دریں اثناء ان بلیوں کو کسی کے پیروں کی "بندراہٹ" محسوس ہوئی انہوں نے ادھر ادھر دیکھا پھر انہوں نے اپنے سامنے "وزن دار" بندر ایک ماہرِقانونِ جنگل کی شکل میں اپنے سامنے پایاکیونکہ پورے جنگلی ماحول میں بس وہی دردِ دل رکھتا تھا اور اس کا مسکن بھی ان کے قریب ہی تھا۔ اس نے بلیوں سے "درخواست" کی اور کہا کہ آپس میں لڑلڑکر کیوں اپنا وقت ضائع کرتی ہو اور تم نے یہاں "بلودھم" مچا رکھا ہے۔ سیدھا میرے پاس آؤ۔ میں کس لئے سارا دن اونچی چھلانگیں لگاتا ہوں اور لمبی چھوڑتا ہوں میری بل کھاتی ہوئی دانشمندی کس دن اور کس کے کام آئے گی۔
I'am wating for your best companyمیرے پاس آئیے ہم آپ کے اس معمولی جھگڑے کوفوری نمٹا دیتے ہیں۔ بلیوں نے دل میں سوچایہ کتنی اچھی vision رکھتاہے اتنا مصروف وقوف اور معروف ہونے کے باوجود یہ ہمارہ قضیہ نمٹانے کی کوشش میں ہے لگتا ہے اس کے اندر اب"حیوانیت"جنم لے چکی ہے۔
چنانچہ وہ دونوں اپنا جھگڑا ختم کرانے کی کوشش میں خوشی خوشی سے اس کے ہاں حاضر ہوگئیں۔ بندر نے ادھر ادھر دیکھا اسے کوئی بیٹھنے کے لئے کوئی اونچی جگہ یا بنچ نظر نہ آیا اس نے فوراً امرود کے درخت کے نیچے بیٹھک لگانے کا فیصلہ کیاتاکہ بلیوں کو چھچھڑوں کے علاوہ "امرودیت" سے بھی کچھ واقفیت ہو۔ اس نے جس درخت کا انتخاب کیا تھا اس پر ایک نوٹس بورڈ لٹک رہا تھا جس پر لکھا تھا "دیکھیں مت سنیں"۔
پھراچانک بندر نے بڑی چابک دستی سے پنیر کا اختلافی ٹکڑا اپنے ہاتھ میں لے لیا اور اسے دو ٹکڑے کرکے اپنے سامنے رکھے ترازو کے پلڑوں میں ڈال دیا۔ بلیوں نے دیکھا کہ ایک پلڑا دوسرے سے بھاری ہے۔ بندر نے بڑے محتاط انداز میں بھاری والے پلڑے سے پنیر کا ٹکڑا اٹھایااور اس کو اپنے موتیوں کی طرح چمکتے دانتوں سے کاٹااور پھر اسے دوبارہ پلڑے میں ڈالا۔ حالانکہ اس نے بڑے سلیقے قاعدے اور قواعد کی روح کے مطابق پنیر کوچبایا تھا تاکہ دونوں ٹکڑے باہم وزن ہو جائیں لیکن ایک ٹکڑا ذرا زیادہ کٹ گیااور لذیز ہونے کی وجہ سے بندر نے اسے ہڑپ بھی کر لیا۔
بندرنے ان دونوں ٹکڑوں کو دوبارہ پلڑے میں ڈالا تو اسے محسوس ہوا کہ دونوں پلڑے ابھی بھی برابر نہیں ہیں۔ اب اس نے وزن برابر کرنے کے لئے دوبارہ بھاری والا ٹکڑا اٹھایااور اسے اپنے غنچہ دہن میں لے کر دوبارہ چبایا تاکہ اس میں سے کچھ کم کرکے پلڑوں میں رکھا جائے اور وہ جلد ان کا فیصلہ بھی کرے اور فریقین کو راضی کر ے۔ بلیاں سمجھ رہی تھیں کہ اس میں بندر کی بدنیتی کا کوئی عمل دخل نہیں لیکن اس نے فریقین کے لیے کوئی حل بھی نکلالنا تھا۔ لیکن ہر بار یہی ہوتا رہا بندر اپنی پوری کوشش کرتا رہالیکن پنیر بھی پتا نہیں کس مٹی کا بنا ہوا تھا کہ برابر ہونے کو نہیں آ رہا تھا۔
پنیر کی اپنی ایک"کلاس" ہوتی ہے یہ نجانے کتنے بچوں کی بھوک چھین کر بن پاتا ہے اور پھر چند ہائی کلاس لوگوں کے پیزے کے کام آتا ہے۔ بہرحال دو نوں بلیاں بے چینی سے سارا جغرافیائی اور منصفائی منظر دیکھ رہی تھیں۔ یہ پنیر چونکہ دیار غیر سے بطور تحفہ آیا تھا اس لئے اس میں کوئی برکت و وسعت بھی نظر نہیں آ رہی تھی۔
بندر نے اپنی آخری حد تک جا کر انصاف برپا کرنے کی کوشش کی اور اسے اپنے دانتوں کی دانست کے مطابق تھوڑا بہت چباکر برابر تقیسم کرنے کی کوشش کر بھی کرلی حالانکہ اس کا وجود اسے ہضم کرنے کی اجازت نہیں دے رہا تھامگر اسی کشمکش میں تمام اختلافی پنیر بھی ختم ہو کر بندر کے معدے میں جا پہنچا ورنہ بندر کے لئے یہ اتنا مشکل کام نہیں تھا کہ وہ اس جھگڑے کا کوئی معقول فیصلہ نہ کر سکے۔
اب دونوں بلیاں ایک دوسرے کا منہ دیکھ رہی تھیں اور دل ہی دل میں یہ کہہ رہی تھیں کہ کاش کہیں سے تھوڑا سامزید پنیر مل جائے تاکہ بندر کو کوئی سبکی نہ ہو اور وہ ہمارا مسئلہ بھی حل کر دے مزید یہ کہ ہمیں عدلی بدلی اور جنگلی شرمندگی سے نجات بھی دلادے مگرہمارا حال "ہم علاج کروانے جائیں اور لنگڑاتے واپس آئیں" والا ہے۔ بندر مزید یہ بھی سوچ رہا تھا کہ سائلات ایسے ہی پریشان ہو رہی ہیں ایسے ٹیڑھے مسائل کا حل تو میراشب و روز کا اور دائیں جبڑے کا کام ہے بظاہر اس کا یہ وہم بھی تھا کہ ایسے ریکارڈ تو میں ہر روز بناتا ہوں مگر وہ اندر اندر سے کچھ پریشانی میں مبتلا بھی تھا کیونکہ اس نے جنگل میں پنیر کے دو عدد ٹرک بھی چھپا رکھے تھے۔ اسے یہ خطرہ بھی تھا کہ بلیاں دیگر جانوروں کو اپنے ساتھ ملا کر کہیں اس کے خلاف کوئی پریشر گروپ ہی نہ بنا لیں۔
دراصل انصاف کی کوئی زبان یا وطن نہیں ہوتا وہ جہاں بھی میسر آ جائے اس کا بول بالا ہوجاتا ہے بعض اوقات اس کی "خاموشی" کا بھی اس وقت بول بالا ہوجاتا ہے بشرطِ سائلین اپنے مسائل خود ہی حل کر لیں اور آپ کو کہیں انصاف کا دروازہ کھٹکھٹانہ ہی نہ پڑے مگر بدقسمتی سے بلیوں کو کسی قسم کا سسٹم بھی سپورٹ نہیں کر رہا تھا۔ بلیاں دبے الفاظ میں بندر کو صرف یہ سوال کرکے جنگل کی طرف سر پٹ دوڑگئیں کہ ڈارون کی تھیوری کے برعکس صرف تیرا ارتقائی عمل ہی کیوں راستے میں رک گیا کاش تو بھی؟ گھبرائی ہوئی بلیوں کو ذہن میں یہ تھا؎
تالاب میں رہ کر مگر مچھ سے بیر
بندر کیا جانے سمندر کی سیر
گزشتہ روز جب یہ کہانی میں نے وقار مجروح کو سنائی تو کہنے لگا اگر پنیر کی جگہ کھانے کی کوئی اور چیز ہوتی تو شاید بندر اتنی جلدی یہ معاملہ ختم نہ کرتا اور انہیں اگلی تاریخ دے دیتا۔ پوچھا گیا کونسی چیز؟ کہنے لگا"چیز"۔ دیگر جانوروں کو اس کی طرف سے کیا گیا انگریزی ترجمہ بالکل
پسند نہیں آیا کیونکہ معاملہ بلیوں کا تھا زبان کا نہیں۔ اس دوران خرگوشوں کا ایک اور جوڑا آپس کے خانگی اور اختلافی مسائل لے کر اپنے تین معصوم بچوں کے ساتھ اسی بندر کے پاس آیا تاکہ وہ ان کے بچوں کے بارے میں یہ فیصلہ کرے کہ وہ کس کے ساتھ رہیں گے۔
بلیوں نے بڑے بچے کو سہلاتے ہوئے خرگوش کے کان میں کہا کہ ابھی اطمینان سے دوبارہ اپنی بلوں میں جا گھسو اور اس وقت تک یہاں نہ آنا جب تک ان کی تعداد آٹھ یا چار تک نہ پہنچ جائے مگر جاتے جاتے خرگوش نے بندر سے کہا اوہ بلنڈر ا! تو کہاں کا بیرسٹر بنا بیٹھا ہے جھانسے کا پنیر کھا کے اب تیرے دماغ میں تبخیر اٹھ رہی ہے تیرے تو خمیر میں ہی "حیوانیت" نہیں ہے۔ اب سارا جنگل تجھے جان گیا ہے کہ تو کیا ہے۔ بندر آگے سے کہنے لگا بلیاں بھی تو کسی کاپنیر چرا کر لائیں تھیں۔۔ چور کہیں کی۔۔ مزید کہنے لگا الزام لگانا میرا کام تھا ثبوت دینا ان کا کا م ہے۔۔
اسی دوران جانوروں کا ایک اور جوڑا گوشت کا ٹکڑا لیے اس کے پاس آیا تو بندر ان سے کہنے لگا تم کل میرے پاس آنا آج میں مزید عدالت نہیں لگا سکتا کیونکہ مجھے "فلو" ہوگیاہے حالانکہ اسے فلو نہیں وہ ویسے ہی "Full" ہوگیا تھا۔۔ دیسی مرغے سے نہیں پنیر سے۔ دریں اثنا اس نے پھر ایک نیا ضابطہء اخلاق جاری کیا کہ اگلے منگل تک اس کو جنگل میں منگل منانا ہے لہذا بلیاں دم سادھے۔۔
قبل ازیں اس نے ایک بندر گاہ کے قریب پنسار کی دوکان کھول رکھی تھی۔ اب یہ "ٹین کا بندر گھر کے اندر" ہی مالا پہننے الٹالٹکا رہتا ہے۔ بقول اس کے اگر میرا جیون بھارت میں امرت ہوتا تومیرا ہنومان سے کم درجے پر سواگت نہ ہوتا۔ ان کہانیوں سے یہ سبق ملتا ہے کہ اپنے جذبات جزیات اور کیفیات کو ہمیشہ قابو میں رکھیں اور اپنے معاملا ت دوسروں کے ہاتھوں میں نہ دیں۔