ہمارے اگلے مشاعرے میں سردار سدھو سنگھ ڈنگی براستہ یورپ تشریف لا رہے ہیں۔ انہوں نے بہت ہنس مکھ اور ملنسار طبیعت پائی ہے بس انہیں دیکھ کر آپ ہنسے بغیر رہ نہیں سکتے کیونکہ ایکسپورٹ کوالٹی کی غزل کہتے پائے جاتے ہیں لیکن پتا نہیں کیوں انہوں نے ایک نئے "بھوترتے" ہوئے گلوکار چاہت فتح علی خان کے ساتھ البم بنانے کا معاہدہ کر لیا ہے اب ان کی غزل کے ساتھ فوٹو چاہت فتح علی خان کی لگے گی۔
اس مشاعرے کا سارا انتظام ہمارے معروف شاعر وصی شاہ کر رہے ہیں کیونکہ دونوں ایک دوسرے کی تحریروں سے خاصے متاثرہ ہیں اتنے متاثر ہیں کہ اب ان کا شمار بھی ڈنگوی متاثرین میں ہونے لگا ہے۔ یہ ایک دوسرے کے اشعار اور کتابوں کے نام الٹا وِنگا اور ڈِنگا کرکے اپنا کام سیدھا کرتے ہیں اور اپنے کلام کا یونہی علاج کرتے ہیں پھر "دادِ ویکسین" پاتے ہیں۔ ہمارے وصی شاہ ان سے اس لئے متاثر ہیں کہ ڈنگی ان کی تحریروں کی ایسی صحت خراب کرتا ہے کہ اس کا علاج کوئی بام عروج پر پہنچا ماہر عروض بھی نہیں کر سکتا۔ کیونکہ ڈِنگی نام ہے اعتماد۔ سردار سدھو سنگھ ڈنگی اپنی کتابوں کے نام یوں بدل کر رکھتے ہیں مثلا
بھیگیں آنکھ جاتی ہیں۔۔ جو چربہ ہے آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔۔ کا
آنکھیں بھیگ جاتی ہیں کانپیں ٹانگ جاتی ہے۔ سردار سدھوسنگھ وِنگی نے اپنی ایک اور کتاب کا نام یہ رکھا
کاش میں تیرے کنگنوں کا ہاتھ ہوتا۔۔ جو چربہ ہے۔۔ کاش میں تیرے ہاتھ کا کنگن ہوتا
ایک اور کتاب۔۔ تجھے چٹول دھواں دوں گا جس کا آسان ترجمہ ہے۔۔ تجھے دھول چٹا دوں گا
"خطاں اوساں ہو گئے ہیں"۔۔
جو تبدیلی ہے "اوساں خطا ہو گئے ہیں" کی
طوطے کے ہاتھوں اُڑنا
اس کا اسلوب تو اب آپ خود بھی سمجھ سکتے ہیں
ان کی ہائیکو کی کتاب "لگ بھگ" سمیت لگ بھگ کئی کتابیں چھپ چکی ہیں جو ساری کی ساری لگ بھگ کی طرح "رنگ بھنگ" ہیں۔ اپنی کتابیں "مدِنظر" اور "حدِ نظر" کو خطرات میں دیکھتے ہوئے انہوں نے پندرویں کتاب "بدِ نظر" سب سے پہلے چھپوائی۔ ان کا موٹو تھا "سب سے پہلے کتاب" کتاب چھپوانے کا طریقہ صرف انہیں آتا ہے اور ہر پبلشر ان کی ہر کتاب چھاپنے کے لئے تیار رہتا ہے کیونکہ پبلشر اس کی سائیکی سمجھ چکے ہیں اور یہ پبلشرز کی۔ ہر کسی کو معلوم ہے پبلشر نئے لکھنے والوں اور نئی تحریروں کو گھاس نہیں ڈالتے اس لئے یہ کتاب کے نام کو نیا تڑکا لگا کر انہیں رام کر لیتے ہیں۔
جیسے ان کی کتاب کا نام اداس نسلیں بولڈ سا نظر آتا ہے اس کے ساتھ چھوٹا سا لکھا ہوتاہے چڑیا گھر کی۔۔ یوں "چڑیا گھر کی اداس نسلیں" ان کی اعلی نسل کی کتاب ہے۔ ان کی ایک اور کتاب کا نام راجہ گدھ ہے ساتھ باریک لکھا ہے بھارت کے۔ یوں" بھارت کے راجہ گدھ" ناولوں میں نمبر۔۔ ون گنا جاتا ہے۔ ان کی تین صد صفحات پر مشتمل کتاب کا پورے بھارت میں بہت چرچا رہا جس کا نام تھا "دگڑ دگڑ" کتاب کے انتساب کے نیچے کچھ نہیں لکھا تھا لیکن ایک جانور کی فوٹو تھی اور اس کا آغاز یوں ہوا تھا
نیا کٹا کھلا نگر در نگر۔۔ دگڑ دگڑ دگڑ ہی ڈگڑ اور پھر یہ دگڑ ڈگڑ کی تحریر تین سو صفحات عبور کر گئی اور کچھ دگڑ دگڑ ان جھولی میں بھی آن پڑے۔
ایک مشاعرے میں ان کی صدارت رکھی گئی سامعین ان کے آنے کا انتظار کرتے رہے لیکن یہ آنے سے گریزاں تھے۔ وہ اس لئے کہ انہوں نے بوتل ہوٹل اور تناول کی شرط رکھی تھی۔ سارے لوگ ان کی خوراک سے آگاہ تھے کہ جتنا کھاتے ہیں اس زیادہ ہی کھاتے ہیں۔ ان کی ساری شرائط مان کر انہیں لایا گیا۔ کھانے کے لئے پوچھا گیا کون سی "فوڈ" کھائیں گے کہنے لگے جو مرضی ہے منگوا لیں۔ کسی نے مشورہ دیا ہاتھی کی سونڈ روسٹ کروا لیں اور کسی نے اپنی دانست کی مطابق کچھ اور مشورہ دیا بہرحال اسی وقت ان کے سامنے Lame روسٹ فوڈ پانڈا کے ذریعے منگوانے کا آرڈر کیا گیا۔ چند منٹوں میں آدھا Lame اکیلے پانی کے ساتھ ڈکار کر کہنے لگے تم نے تو پانڈا روسٹ منگوایا تھا "یہ کیا لے کر آگئے ہو" میں نے تو پانڈا روسٹ کا مو ڈ بنا لیا تھا اٹھا لو اسے۔ منگوانے والوں نے اس بارے میں کچھ مجبوریاں بیان کیں تو بلند آواز سے کہنے لگے میرے ساتھ Lame excuses نہیں چلیں گی بہرحال اسی وقت مکمل پانڈا روسٹ کا آرڈر دیا گیا پھر کہیں ان کی جان میں جان آئی۔ اس وقت ان کی طرف دیکھ کر ایک شاعر نے کہا۔۔
تم کو دیکھا تو یہ خیال آیا
زندگی میں تو نے گھنا کھایا
ان کی کوشش ہوتی ہے کہ اپنی غزلیں سود پر دے دیں ایک شاعر نے تنگ آ کر ایک ایسی ہی سود یافتہ غزل تتی کرکے انہیں ہی لگا دی تھی۔ لکھاری عام طور پر اپنا تخلص خود اپنی مرضی سے طبیعت اور کیفیت کے مطابق رکھتے ہیں لیکن ڈِنگی کو تخلص محلے داروں اور دوستوں نے ان کی ذات کا بغور مطالعہ کرتے ہوئے گفٹ کیا اور انہوں نے اسے بخوشی قبول بھی کر لیا تھا کیونکہ کوئی بھی ان سے چھیڑ خانی کرے تو وہ چھیڑنے والے سے زیادہ خود تفریح لیتے ہیں کیونکہ طبیعتا یہ ایسے ہی وِنگے ہیں۔ نا صرف پیدائشی لیفٹ ہینڈڈ ہیں اور ہر کام الٹے ہاتھ سے کرتے ہیں لیکن سیدھا معدے سے سوچتے ہیں مگر سارے محاورے الٹے بولتے ہیں جب یہ پورے اعتماد سے کہیں گے چور کے تنکے میں داڑھی تو کیا لوگ انہیں لوگ سدھو کہہ کر بلائیں گے؟ نہیں کبھی نہیں، وہ لازمی طور پر ساتھ سردار سدھو سنگھ ڈنگا بھی لگائیں گے۔۔
ویسے دل کے برے نہیں ہیں اگر کوئی انہیں کسی قسم کا Gift دے تو اس گفٹ پر آدھا گھنٹہ "giftگو" کرتے ہیں اور مزید گفٹ کی تاکید بھی "چھچھڑوں کو بلی کے خواب"۔
دنیا کے ہر کونے میں نئے کٹے کھل رہے ہیں۔ انہیں اس بات پر بڑا غرور ہے کہ بچپن میں یہ اپنے گاؤں کا ہر پرانا کٹا اپنے بائیں ہاتھ سے کھولنے کا ورلڈکپ بھی جیت چکے ہیں۔ "سر کا غرور نیچا" ظاہر ہے اس موضوع پر ان کی ایک کتاب بھی ہے۔
زندگی میں صرف ایک دفعہ ان سے نیا کٹا کھولنے کی غلطی سرزد ہوئی تھی مگر دوبارہ انہوں نے ہاتھوں کو کان لگا لئے اور گاؤں والوں نے بھی توبہ کر لی کہ آئندہ اسے کبھی کھلا نہیں چھوڑنا۔ "چور کے تنکے میں داڑھی"جیسے ہی اس نے چلچلاتی دوپہر میں ایک نیا کٹا کھولا تو مستریوں نے اسے رنگ برنگے ہاتھوں سے پکڑ لیا دریں اثنا اسی مضروب کٹے کے منہ پر کالک مَل کر اور اِسے اسی کٹے پر بٹھا کر گاؤں کے چکر لگوانا شروع کیے جب یہ اپنے گھر کے سامنے سے گزرا تو اس کی بیوی نے اس کو گلے میں پڑے جوتوں سے پہچان لیا اور پست آواز میں شور ڈالنے لگی "بھاگتے لنگوٹ کی چوری ہی سہی" ڈِنگی بیوی سے کہنے لگا پریشان نہ ہو بس دو گلیاں رہ گئی ہیں تم چائے کا پانی رکھو میں یہ کٹا وہیں باندھ کر آتا ہوں جہاں سے کھلا تھا۔ لہذا صبح کا بھولا لوٹ کے سدھو گھر آ گیا۔ اب جہاں بھی کوئی نیا کٹا کھلتا ہے چھاپہ اس کے ہاں پڑ جاتا ہے کیونکہ "بد سُرا اور بدنام برا"۔۔ چھوڑیں ہمیں اس سے کیا؟ جٹ جانے یا بجو جانے۔۔ خیرو کی ماں کب تک خیر منائے گی۔۔
ان کا مختصر تعارف یہ ہے کہ 15 اگست 1947کو مشرقی پنجاب کے ایک گاؤں سدھا پٹھہ کے باہر سخر اندھیرے میں پیدا ہوئے اس "حساب" سے عمر ستتر اعشاریہ 17 سال ہو چکی ہے۔ والدین نے نام تو سدھو رکھا اور اس امید کے ساتھ کہ ان کی قسمت کی لیکھائیں جلد سیدھی ہو جائیں گی اور ان کی زندگی کو بھاگ لگے رہیں گے لیکن سدھو نے سب کچھ ڈِنگا کرکے رکھ دیا۔ ڈنگے نے ایک کمال یہ کیا کہ ایک سال کی عمر میں پہلے سیدھا چلنا شروع کیا لیکن پھر گھٹنوں پر آگئے اور رڑنا شروع کر دیا۔
جب ڈھیرہ سال کی عمر میں بولنا شروع کیا تو پہلا جملہ یہ بولا باپو جی کیا ہم آزاد ہیں؟ باپو نے فوراََ کہا گوروں سے تو ہم ہو چکے ہیں مگر ڈیڑھ برس سے ہم مقدر کے غلام ہو چکے جب سے تم پیدا ہوئے ہو اب ہمارے گھر کا راستہ توڈاکیا بھی بھولنے لگ گیاہے اور ساتھ ہی یہ جملہ داغ دیا۔
کنگا کچھا اور کیس کَرپان
سیدھے ہو گئے ڈنگے پلان
باپو نے ہاتھ جوڑ کر کہا اچھا ہوتا اگر تو دو تین سال کے بعد بولنا شروع کرتا اور ہم تمہاری الٹی سیدھی باتوں اور حرکتوں سے محفوظ رہتے اور رشتہ داروں سے بے عزت نہ ہوتے۔ سردار سدھو سنگھ ڈنگی سے نہ صرف ہر کام الٹا ہو جاتا ہے بلکہ ان کی تحریر بھی الٹی سیدھی آگے پیچھے ہو جاتی ہے اور ان کی تعریف میں پڑھے جانے والے "مزاح مِین" بھی۔ جب سے سوشل میڈیا آیا ہے یہ مشہور ہونے کے لئے شاید جان بوجھ کر بھی ایسا کرنے لگے ہیں اوراس لئے بھی کہ ان کے لائیکس اور ویوزدن بدن بڑھتے جا رہے ہیں۔
ان سے کسی نے پوچھا کہ آپ کے بہت سے لطیفے مشہور ہیں۔ رونی صورت بنا کر کہنے لگے سارے سچے واقعات ہیں کسی نے بددیانتی کرتے ہوئے ان کو لطیفوں کا رنگ دے دیا ہے۔ اس نے دوبارہ پوچھا مثلا؟ کہنے لگے ایک دفعہ بازار سے گزرتے ہوئے وہ کسی شئے سے ٹکرا گئے اور سر بری طرح پھٹ گیا۔ لوگ اکٹھے ہو کر پوچھنے لگے سردار جی کیا ہوا؟ الٹا ان سے پوچھنے لگے کیا یہ سائن بورڈ نظر آرہا ہے؟ سب نے کہا ہاں نظر آ رہا ہے۔ ادھر ایک اور سردار جی بھی کھڑے تھے ان سے علیحدہ پوچھا کیا آپ کو بھی نظر آ رہا ہے۔ اس نے نہایت سخت لہجے میں مہذب سی گالی دے کر کہا کس کو نظر نہیں آ رہا؟ کہنے لگے "لو جی مجھے نظر نہیں آیا" ایسے دردناک واقعات کے لطیفے بنانا ویسے بھی بداخلاقی ہے۔ ان سے پوچھا گیا وہ کیا ہے جو زمین پر پڑا نظر آتا ہے مگر میلا بھی نہیں ہوتا کہنے لگے میرا۔۔ سایہ۔۔ ڈِنگی کبھی کبھی نہا بھی لیتا ہیں کیوں کہ یہ واش اینڈ و یئر پروڈکٹ ہے۔۔ کہتے ہیں میں پرتھوی کا ایک برانڈڈ ڈِنگا ہوں لیکن اپنے مدمقابل ڈنگے کو سنبھل کر سیدھا کر دیتا ہوں۔۔
اب تو بات یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ کوئی لکھاری ان پر مضمون لکھے تو اس کا قلم بھی سلپ ہو جاتا ہے اور اس کے الفاظ بھی آگے پیچھے ہو جاتے ہیں اور وہ ہانگ کانگ کو کانگ ہانگ لکھ دیتا ہے۔۔
1992 میں ایک گورے کے ساتھ ان کی تو تو میں میں ہوگئی اور یہ ویزا لگوا کر اس کے پیچھے لندن پہنچ گئے تاکہ وہاں جا کر اس کی ہوم گراونڈ میں تو تو میں میں کا ورلڈ کپ جیت کر آئیں۔ کیونکہ اس چھچھڑے کو بلیوں کے خواب پہلے ہی آ رہے تھے وہاں یہ ُاس گورے کی تلاش میں تو ناکام رہے مگر ایک افریقن عورت سے شادی کر بیٹھے اور اس وقت سے ان کی میں میں تو تو کی چمپئین ٹرافی جاری ہے۔ بیوی لیفٹی ہے اور لفتی بھی اور یہ دونوں اپنی جگہ راءٹ ہیں مگر اب یہ دونوں مل کر گوروں کی مرچوں میں بھی آنکھیں ڈالنے لگے ہیں کیونکہ یہ پنجابی مکس انگریزی بولتے ہیں۔ "ڈھنڈورا بغل میں بچہ شہر میں" ایک دفعہ ان کا یہی بچہ بیمار ہوا اسے ڈاکٹر کے پاس لے گئے اور ڈاکٹر سے کہنے لگے۔ ذرا میرے روبن سنگھ کو چیک کریں۔ نا اے Eat دا۔۔ نا ای Drink دا۔۔ بس weep دا ای weep دا۔۔ ڈاکٹر بھی سردار جی تھے کہنے لگے۔۔ سردار جی اینا نئیں worry ہوئی دا۔۔ کل تک Okay ہوئے گا بس اسے appleلاں تے orangجاں داجوس پلاوَ۔۔ اُدھر بھی " پھیکے کی دوکان میٹھا سا پکوان" مل جاتا ہے۔۔
بچپن میں ان کوکئی قسم کے پیشہ ورانہ کاموں میں ڈالا گیا لیکن سب کے سب "سیکھ" کر کامیابی سے بھاگ نکلے۔ شروع میں ان کو دندان ساز ی کے کام پر ڈالا گیا۔ مریض ان کو دیکھتے ہی دانت نکالا کرتے تھے۔ یہ بھی ان کے دانت کھٹے کرنے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے۔ انہوں نے ایک منجن بھی تیار کر رکھا تھا۔ جس کے بارے میں ان کا دعویٰ تھا کہ یہ سر کا چمکاتا ہے اگر سر پر رگڑا جائے تو۔۔ کارپینٹر کا کام بہت جلد سیکھ گئے تھے اس لئے وہاں کے مکھ منتری نے اپنی اسمبلی کی کیبنٹ کی تیاری بھی ان کے سپرد کر دی تھی لیکن یہ کچن کیبنٹ کے خوف سے بھاگ نکلے۔ پھر ان کو اسی سے ملتے جلتے کام یعنی انہیں حجام کے سپرد کیا گیا لیکن یہ استرا الٹے ہاتھ میں پکڑ کر ایسا لہراتے تھے کہ لوگ شیشے میں دیکھ کر سہم جاتے تھے کیونکہ "اُسترا تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں" یوں کئی گاہک الٹا ان کی حجامت کی کوشش میں ہوتے تھے کیونکہ یہ انہیں بال بڑھانے کا درس دیتے تھے۔ چنانچہ گھر والوں نے اندازہ لگایا کہ "کالے میں کچھ دال ہے" بلآخر انہیں گرم حمام استرے سمیت بھاگنا پڑا۔
یہ بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ میں اس کے بعد کبھی کسی گرم حمام کے پاس سے بھی نہیں گزرا۔ یوں میں نے اپنی زندگی میں ایک بڑی رقم بڑی صفائی سے بچائی ہے مزید یہ کہ میری چھوٹی موٹی حجامت وغیرہ تو محلے دار کردیتے ہیں اگر ہر مہینے بارہ سو بھی بچاؤں تو پچھلے ساٹھ سالوں میں ساڑھے آٹھ لاکھ بچا چکا ہوں۔ سب کے خیال میں اس کا نام ڈنگا سنگھ بچتی ہونا چاہئے تھا۔ بچت کے بارے میں ان کی بات انکم ٹیکس والوں کے علم میں آ گئی انہوں نے انہیں نوٹس بھیج دیا۔ لیڈی انسپکٹر کے پا س جا کر کہنے لگے
میں اتنا جو کھل کھلا رہا ہوں
آنکھیں تم سے ملا رہا ہوں
بیلنس جو کم ہے بینک میں اب
کیا مال ہے کیا دکھا رہا ہوں
اب انہیں شعروں اور مشاعروں کا اتنا شوق نہیں رہا لیکن مشاعروں میں ان کو اپنی صدارت اور "سردارت" کا گھمنڈ ضرور ہوتا ہے۔ لوگ نئے بال لگواتے ہیں انہوں نے شاید پرَ لگوا رکھے ہیں یہ ہر مشاعرے میں اڑ کر پہنچ جاتے ہیں اور پر بھی کانوں کے اطراف میں لگوا رکھے ہیں یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہاں منہ اٹھا کے آ گئے ہیں یوں کئی شاعر یہ گمان کرتے ہیں جیسے انہوں نے مشاعروں کا ایم ٹیگ لگوا رکھا ہو۔ "کام کے نہ کاج کے دشمن سماج کے" ایک منتظم مشاعرہ کو مشاعرے میں شرکت کے لئے بارعب انداز میں کہنے لگے مجھے شرافت اور اعزاز کے ساتھ مشاعرے میں بلائیں ورنہ دیکھوں گا آپ مشاعرہ کیسے کرتے ہیں بعد میں پتا چلا کہ وہ اپنے ان دونوں دوستوں کے گروپ کے ساتھ آنا چاہتے ہیں۔ آج کل پیسوں کے معاملے میں بھی بڑے محتاط ہیں اپنی بیوی کو کہنے لگے مجھے شام والی چائے ناشتے ہی میں دے دواور ناشتے والا سامان ڈنر کے لئے رکھ لو۔ لوگ شوگر فری چائے پیتے ہیں مگر ان کی چائے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس ملک میں شوگر فری ملتی ہے۔۔
ایک دفعہ اس نے اپنے ایک رشتہ دار سردار باہروں سنگھ باروی کا قطعہ تبدیلی کے بعد یوں سنا دیا
آپے سی کے کپڑے پائیے
پنگڑے پی کے دارو پائیے
Sorry لکھنے والے پر بھی اس کا اثر آ گیا
دارو پی کے پنگڑے پائیے
ڈانگاں پھڑ کے میلے چلئے
نال شریکاں چگڑے پائیے
اب انہیں بار بار اس کی فرمائیں کی جاتی ہے کہ سردار جی اپنا قطعہ "ان لا" سنائیں
ایک دفعہ منیر نیازی مرحوم الحمرہ ہال میں اپنا مشہور کلام ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں سنا رہے تھے انہوں نے جیسے ہی شروع کیا "ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں" ہال سے آواز آئی دوسرے نکاح کو تو دیر نہیں لگائی۔۔ بقول سردار سدھو سنگھ ڈنگی اسے کہتے ہیں "سرسوں پر ہتھیلی جمانا"۔۔