پچھلے بیس برسوں میں افغانستان کے بنیادی سٹیک ہولڈر تو تین ہی رہے ہیں۔ امریکہ، افغان حکومت اور طالبان۔ پاکستان بھی اس معاملے کا اہم سٹیک ہولڈر ہے کہ افغانستان کے حالات یہاں گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ افغانستان کے پڑوسی ممالک میں ایران، تاجکستان، ازبکستان اور ترکمانستان بھی شامل ہیں، ایک کونہ چین کے ساتھ بھی ملتا ہے۔ روس کا بھی خطے سے گہرا تعلق ہے۔ افغانستان کے تین بنیادی سٹیک ہولڈرز اور روس، چین بلکہ بھارت کے کردار کے حوالے سے اپنے پچھلے دونوں کالموں میں بات ہو چکی ہے۔ طالبان پر پچھلے پندرہ روز میں میرے سات کالم شائع ہوچکے ہیں۔
آگے بڑھنے سے پہلے ممتاز عسکری ماہر اور افغان سپیشلسٹ میجر (ر)عامر کی بات ہوجائے۔ میجر عامر پڑھنے والے آدمی ہیں، کئی اخبار روز دیکھتے ہیں، کسی کالم میں کوئی خاص نکتہ ہو تو اس کے حوالے سے فون بھی کر لیتے ہیں۔ گزشتہ روز طالبان پر لکھے کالم کے بارے میں ان کا فون آیا۔ کالم کی تائید کے بعد کہنے لگے کہ افغانستان میں طالبان کو ہر طرف کامیابیاں ہو رہی ہیں۔ میجر عامرنے دو تین نکات بیان کئے، کہنے لگے، " طالبان کے حملے کو سوویت یونین کے فوجی انخلا کے بعد جنرل نجیب کے خلاف مجاہدین کمانڈروں کی فوج کشی سے موازنہ نہیں کرنا چاہیے۔ جنرل نجیب سن آف سوائل (Son Of Soil)تھا، اس کا تعلق ایک معروف قبیلے سے تھا جبکہ افغانستان میں اسے پرچم، خلق پارٹیوں کی سپورٹ بھی حاصل تھی جبکہ نجیب کے مقابلے میں افغان جہادی تنظیموں کے کمانڈر منقسم تھے، ان میں اتحاد نہیں تھا۔ اشرف غنی ایک تنہا اورقبائلی اعتبار سے کمزور شخص ہے، اس کی افغانستان میں جڑیں موجود نہیں، وہ افغانستان کے ڈائنامکس کو نہیں سمجھتا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ طالبان پوری طرح متحد اور یکسو ہیں، انہیں اشرف غنی حکومت کے کئی عناصر کی ڈھکی چھپی تائیدبھی حاصل ہے۔ یہ طالبان پچھلی بار کے طالبان سے بھی بہت مختلف ہیں۔ اس بار انہوں نے پہلے سے تاجک، ازبک، ترکمان اور کسی حد تک ہزارہ میں کام کر رکھا ہے، مقامی سطح پر بعض ازبک، تاجک کمانڈروں نے ان کا ساتھ دیا، اس لئے شمال میں انہیں تیزرفتار کامیابیاں ملی ہیں۔ ان طالبان کے ایران سے رابطے ہیں، چین اور روس کے ساتھ ان کی بات چیت ہوئی ہے، تاجکستان وغیرہ کے ساتھ بھی معاملہ بہترہے، ان کا موقف اینٹی شیعہ نہیں، یہ جبری بیعت کے بجائے عام معافی کی بات کر رہے ہیں اور بڑی حکمت عملی، افہام وتفہیم کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔ اس لیے ان کی کامیابی بڑی حد تک یقینی نظر آ رہی ہے۔"
آج پاکستان کے سٹیک اور ممکنہ آپشنز پر بات کرتے ہیں۔ اہم ترین سوال کہ پاکستان کو افغانستان کے حوالے سے کیا کرنا چاہیے؟ عرض یہ ہے کہ اس معاملے کو صرف طالبان حمایت مخالفت سے زیادہ سٹریٹجک انداز میں دیکھا جائے۔
پچھلے پندرہ برسوں سے افغانستان پاکستان کے خلاف سازشوں کا مرکز (Hub)بنا رہا۔ 2006ء میں نواب اکبر بگٹی کی آپریشن میں ہلاکت کے بعد بلوچستان میں جو آگ بھڑکی، اس کے لئے ایندھن بھارت کے ایما پر افغانستان سے فراہم ہوا۔ نواب اکبر بگٹی کے ساتھ آخری وقت میں ان کے پوتے براہمداغ بگٹی اور نواب خیر بخش مری کے صاحبزادے بالاچ مری تھے۔ یہ دونوں بچ نکلنے اور پھر افغانستان پناہ لینے میں کامیاب ہوگئے۔ بالاچ مری مسلح شدت پسند عسکری تنظیم بلوچستان لبریشن آرمی (BLA)کے چیف کمانڈر تھے جبکہ براہمداغ بگٹی بلوچستان ری پبلک آرمی (BRA)کے سربراہ ہیں۔ دونوں نے افغانستان کو اپنا بیس کیمپ بنا کر بلوچستان میں عسکریت پسندی کی بنیاد ڈالی۔ بالاچ مری مبینہ طور پرافغانستان سے پاکستان آتے ہوئے فائرنگ سے ہلاک ہوئے تھے، جبکہ براہمداغ بگٹی اور بالاچ کے بڑی بھائی حیربیار مری افغانستان ہی مقیم رہے، پاکستانی حکومت نے بمشکل امریکہ پر دبائو ڈال کر انہیں افغانستان سے نکلوایا، مگر ان کا تنظیمی نیٹ ورک، ان کے ریکروٹنگ سنٹرز، سیف ہائوسز وغیرہ افغانستان ہی میں ہیں۔
یہ کوئی سنی سنائی بات نہیں۔ بی ایل اے کے ایک سربراہ اسلم اچھو دو سال پہلے قندھار میں نامعلوم افراد کے حملے میں ہلا ک ہوئے، اس ہلاکت کو خود بی ایل اے نے کنفرم کیا، بی بی سی سمیت عالمی نشریاتی اداروں کی ویب سائٹ پر خبر آج بھی موجود ہے۔ اسلم اچھوہی کراچی میں چینی قونصل خانہ پر حملے اور دیگر دہشت گرد کارروئیوں کا ذمہ دار تھا۔ بی ایل اے کے موجودہ سربراہ عالم زیب بھی افغانستان میں موجود ہیں۔ بلوچستان میں دہشت گردی کے ایک اور اہم فریق ڈاکٹر اللہ نذر کے گروپ بی ایل ایف کو بھی افغانستان ہی سے مدد فراہم ہوتی رہی۔ افغانستان ہی میں تحریک طالبان پاکستان (TTP)کے مختلف گروہ پناہ لئے ہوئے ہیں۔
طالبان اقتدار میں آ گئے توبلوچستان میں شورش جاری رہ سکتی ہی نہیں۔ دنیا کی ہر گوریلا تنظیم کو محفوظ سپلائی لائن اورپناہ لینے، سستانے، علاج کے لئے سیف ہائوسز درکار ہوتے ہیں۔ بلوچستان کے ساتھ ایران یا افغانستان کی سرحد ملتی ہے یا پھر سمندر ہے۔ ایرانی بلوچستان چونکہ ایرانی حکومت کے لئے اہم اور حساس ایشو ہے، اس لئے وہ کبھی بلوچ گروہوں کی سرپرستی یا مدد نہیں کرتے۔ یہ ان فرینڈلی، اینٹی پاکستان افغان حکومت ہے جو بھارت کے کہنے پرپاکستان میں آگ بھڑکانے کی کوشش کرتی رہتی ہے۔ ٹی ٹی پی کے مختلف گروپوں کو بھی پاکستان میں منظور پشتین، علی وزیر وغیرہ کی پی ٹی ایم ہو یا پھر لر وبر افغان کا نعرہ لگانے والے جناب اچکزئی کے قوم پرست، ان سب کو افغانستان ہی سے سپورٹ ملتی ہے۔ اگر افغانستان میں طالبان حکومت برسراقتدار آ جائے تو ان تمام گروہوں کو فوری طور پر مدد ملنا بند ہوجائے گی۔ آکسیجن پائپ بند ہونے سے جو حالت ہوتی ہے، ان کے ساتھ ویسا ہی ہوگا، سب دیکھ لیں گے۔
میری معلومات، تجزیے اور رائے کے مطابق پاکستان کو جو کرنا چاہیے، وہی کر رہا ہے۔ جو کچھ نظر آ رہا ہے، ویسا ہے نہیں۔ سفارت کاری میں سموک سکرین کا استعمال عام بات ہے۔ افغانستان میں طالبان اکیلے نہیں اور وہ جو کچھ کر رہے ہیں، اس کے لئے اہم سٹیک ہولڈرز کو باقاعدہ اعتماد میں لیا گیا ہے۔ ریجن کے اہم سٹیک ہولڈر پاکستان، ایران، روس، چین، تاجکستان، ازبکستان وغیرہ ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ کہیں نہ کہیں ان سب کو کچھ یقین دہانی کرائی گئی ہے بلکہ بہت کچھ پہلے سے طے شدہ سکرپٹ کے مطابق ہو رہا ہے۔ طالبان اچانک اتنے سیانے نہیں بنے، پیچھے بہت کچھ ہوا ہے، جس کی تفصیل ظاہر ہے اس وقت نہیں آ سکتی۔ مختلف کڑیاں اگر ملائی جائیں تو تصویر بنانا مشکل نہیں۔ بظاہر تو یہ لگ رہا ہے کہ پاکستانی ترجمانوں کے بیانات بھی دنیا کے لئے ہیں، ا ن کا مقصداپنے اوپر دبائو کم کرنا ہے۔ طالبان ترجمان کاگزشتہ روز کا جوابی بیان بھی اسی تناظر میں لیا جائے۔ اس بیان کے بعد پاکستان سے دبائو خاصا کم ہوجائے گا۔ یہی تو پاکستان کہہ رہا ہے کہ ہم افغانستان میں امن قائم کرنا چاہتے ہیں، مگر ہم طالبان کو ڈکٹیٹ کرانے کی پوزیشن میں نہیں۔ طالبان نے بھی یہی بات کہہ دی۔ اب اشرف غنی یا امریکی کس طرح پاکستان پر مزید دبائو ڈال سکتے ہیں؟ اگر صرف اتنا دیکھ لیا جائے کہ پچھلے ایک سال میں پاکستان نے افغانستان کے پڑوسی ممالک تاجکستان، ازبکستان وغیرہ کے ساتھ تعلقات کو کتنی وسعت دی ہے تو بات سمجھنا مشکل نہیں۔ ان چھوٹے ممالک کے حکمرانوں کو آخر کیوں بار بار یہاں بلایا جاتا اور غیر معمولی پروٹو کول دیا جاتارہا؟
یہ سٹریٹجک الائنسز کا زمانہ ہے۔ امریکہ نے بھارت، جاپان اور آسٹریلیا کو ساتھ ملا کر ایک سٹریٹجک الائنس کواڈ (Quad)بنا رکھا ہے۔ افغانستان کے حوالے سے چین، روس، ایران اور پاکستان پرمشتمل جوابی سٹریٹجک الائنس کام کر رہا ہے۔ طالبان کا پاکستان ہمارے لئے کئی اعتبار سے بہتر اور فرینڈلی ہوگا۔ پاکستان کو افغانستان سے کچھ نہیں چاہیے، وہ ہمیں کچھ دینے کی پوزیشن میں نہیں نہ ہی ہم انہیں اپنا پانچوں صوبہ بنانا چاہتے ہیں۔ افغانستان جیسی سرکش، شوریدہ سر دھرتی کو کون اپنا صوبہ بنانا چاہے گا؟ افغان اپنے ملک میں امن قائم کریں، اپنی قوم کی تعمیر کریں۔ ہم پاکستانی صرف یہ چاہتے ہیں کہ افغانستان ہمارے دشمنوں کے ہاتھوں استعمال نہ ہو۔ طالبان آنے کے بعدپاکستان میں ٹی ٹی پی کے ابھرنے کا خوف بلاسبب ہے۔ طالبان یہ کمٹمنٹ کر کے آ رہے ہیں کہ وہ یہاں سے کسی کو آپریٹ نہیں کرنے دیں گے۔ پچھلی بار اسی وجہ سے ان کا اقتدار ختم ہوا، ان کے دو امیر اور ہزاروں جنگجو جان دے بیٹھے۔ اب طالبان آخر ٹی ٹی پی جیسے بے فائدہ اوردھرتی کے بوجھ گروپ کی خاطر اپنے آپ کو دائو پر کیوں لگائیں گے؟
بظاہر یوں لگ رہا ہے کہ ہمارے ہاں اہم حلقے بار بار یہ بات بریفنگز میں کہہ رہے ہیں، یہ بھی کسی اور سنا نے کے لئے ہے۔ ویسے تو یہ بات بھی سمجھ نہیں آئی کہ اچانک پارلیمنٹ کو بریفنگ کیوں دی گئی؟ ہمارے اراکین پارلیمنٹ کو اگلے سو سال تک بھی افغانستان میں دلچسپی پیدا نہیں ہوسکتی، نہ کسی کو یہ خیال آتا ہے کہ خارجہ پالیسی یا نیشنل سکیورٹی پالیسی پر پارلیمنٹ میں بحث ہو۔ پھر اچانک کیوں بریفنگ دی گئی؟ کیا یہ اسی ڈبل گیم کا حصہ ہے، جس کے ذریعے ہم نے امریکہ جیسی سپر پاور کو بیس برسوں تک کامیابی سے ہینڈل کئے رکھا؟ ایسا ہے تو بہت اچھی بات ہے۔ پاکستان کے مفاد کو ہی اول اور عزیز رکھنا چاہیے۔