Friday, 01 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Afghanistan, Pakistan Ko Kin Ghaltiyon Se Bachna Chahiye?

Afghanistan, Pakistan Ko Kin Ghaltiyon Se Bachna Chahiye?

افغانستان میں اس وقت صورتحال ایسی ہے جس کے لئے مائع (Fluid)سیچویشن کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ چیزیں تیزی سے تبدیل ہو رہی ہیں۔ ایک چیز بہت واضح ہے کہ طالبان افغانستان کی سب سے بڑی حقیقت ہیں اور وہ آ رہے ہیں۔ ان کی طاقت بڑھ رہی ہے، وہ منظم ہوچکے اور انہیں غیر معمولی کامیابیاں مل رہی ہیں۔ ان کے مخالفوں کے حوصلے پست، وہ کمزور پڑ رہے اوران کی صفوں میں کھڑے پیادے تیزی سے گرنے کے باعث جگہ جگہ خلا پیدا ہورہے ہیں۔

بظاہر یہ لگ رہا ہے کہ طالبان اگلے چند ماہ میں پورے افغانستان پر چھا جائیں گے۔ امریکی اور نیٹو فوجوں کے انخلاکے بعد طالبان بڑے شہروں پر بھی حملہ آور ہوں گے اور مزار شریف سے لے کر کابل تک ان کی یلغار کی زد میں ہوں گے۔ یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ موجودہ افغان حکومتی سیٹ اپ کس قدر مزاحمت کر پائے گا، دوسرے لفظوں میں کتنا وقت نکالے گا؟

افغانستان میں روسی فوج کے انخلا (1988)کے بعد جنرل نجیب کی زیرقیادت تب کی افغان حکومت چار سال نکال گئی تھی۔ جنرل نجیب کی حکومت ختم ہونے کے بعد حکمت یار اور احمد شاہ مسعود کے گروپ ایک دوسرے سے نبردآزمارہے، کسی کو حتمی برتری نہیں ملی۔ کابل کے مختلف کونوں میں بیٹھ کر وہ ایک دوسرے پر گولے برساتے رہے۔ تب افغانستان مختلف گروپوں اور دھڑوں تقسیم ہوگیا تھا۔ مختلف وارلارڈز سرگرم ہوگئے تھے۔ افغان عوام بدمعاشوں، لٹیروں اور اخلاق باختہ گروہوں کی زد میں تھے۔ طالبان اسی کا ردعمل تھے اور انہیں غیر معمولی پزیرائی بھی اس لئے ملی۔ طالبان کابل سمیت افغانستان کے بیشتر حصوں پر قابض ہوگئے تھے۔ تب سنٹرل افغانستان میں پنج شیر صوبہ کے علاوہ شمال میں چند ایک علاقوں پر شمالی اتحاد کا کنٹرول رہا تھا۔ بعد میں ایک وقت آیا جب مزار شریف بھی شمالی اتحاد کے ہاتھ سے نکل گیا تھا اور طالبان کا ملک کے پچانوے فیصد حصے پر کنٹرول ہوگیا تھا۔ پنج شیر البتہ آخر وقت اپنی جغرافیائی پوزیشن کی وجہ سے احمد شاہ مسعود کے پاس رہا۔ رشید دوستم وغیرہ فرار ہو کر ترکی، مختلف سنٹرل ایشیائی ممالک اور حکمت یار ایران پناہ لینے پر مجبور ہوگئے تھے۔

آج صورتحال یکسر مختلف ہے۔ طالبان متحد ہیں اور ان میں پھوٹ یا دھڑے بننے کا کوئی امکان نہیں۔ طالبان نے بڑی سمجھداری سے مذاکرات کا مرحلہ طے کیا۔ عام طور سے گوریلا تنظیمیں مذاکرات کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتی ہیں کہ کمانڈر اور جنگجو سیاسی مصلحتوں سے ناآشنا ہوتے ہیں۔ مذاکرات کی میز پر فریقین کو کبھی آگے بڑھنا اور کبھی پیچھے ہٹنا ہی پڑتا ہے۔ طالبان کی موجودہ قیادت نے ہوشیاری سے اپنے کارڈز کھیلے۔ انہوں نے تین کام کئے۔ اپنے بنیادی نکات پر سمجھوتہ نہیں کیا، افغان حکومت کو امریکہ سے مذاکرات سے باہر رکھا، امریکہ سے انخلا کی تاریخ کا اعلان کرایا اور نیٹو فورسز کی روانگی کا سلسلہ بھی فوری شروع کرایا جبکہ اس کے ساتھ افغان قید میں موجود اپنے ہزاروں جنگجوئوں کو رہا کرا لیا۔ اس سے یہ تاثرملا کہ طالبان قیادت نے موقف سے پیچھے ہٹے بغیر مطالبات منوا لئے۔ طالبان نے ایک پیچیدہ مگر مسلسل پراسیس کے ذریعے اپنے اہم کمانڈروں کو اعتماد میں لیا، انہیں کسی بھی مرحلے پر اندھیرے میں نہیں رکھا گیا۔ طالبان کی اصل کامیابی علما اور مفتی صاحبان کو بھرپور طریقے سے استعمال کرنا ہے۔ افغان خاص کر طالبان کی دنیا میں یہ مذہبی فیکٹر بڑا اہم اور طاقتور ہے۔ جہادی کمانڈروں اور جنگجوئوں کو بھی اپنی جدوجہد کے لئے مذہبی حمایت کی ضرورت پڑتی ہے۔ طالبان قیادت نے اس کا خاص خیال رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے ڈیڑھ دو سال کے مذاکراتی عمل کے دوران طالبان کے اندرونی حلقوں سے کسی ناراضی یا ناخوشی کی خبر نہیں ملی۔ طالبان کا متحد ہونا ہی ان کی اصل قوت ہے۔

اگلے چند ماہ میں اصل کشمکش طالبان اور موجودہ افغان حکومت سیٹ اپ کے درمیان ہوگی۔ اپنے سنگین اختلافات نظرانداز کر کے اشرف غنی، عبداللہ عبداللہ، رشید دوستم، استاد محقق اور دیگر ازبک، تاجک، ہزارہ لیڈر اکٹھے ہو رہے ہیں۔ ان کی کوشش ہے کہ اینٹی طالبان بنیاد پر عوامی گروہوں، ملیشیاز اور نسلی، لسانی، مسلکی بنیاد پر جذباتی نوجوانوں کو اکھٹا کیا جائے۔ کابل سمیت مختلف شہروں میں ایسا کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ سوال پھر وہی ہے کہ کیا یہ سب مل کر بھی طالبان کی یلغار کو روک سکیں گے؟ امریکی انٹیلی جنس رپورٹ کے مطابق امریکی انخلا کے بعد چھ سے بارہ ماہ کے دوران طالبان چھا جائیں گے۔ طالبان کی کوشش ہے کہ سرکاری فوج اور انتظامیہ کو نیوٹرل کیا جائے۔ طالبان کی جانب سے انہیں ہتھیار رکھ کر اپنے گھروں کو لوٹنے کی صورت میں محفوظ راستہ دینے اور عام معافی دینے کے اعلانات کئے جار ہے ہیں۔

پچھلے پندرہ بیس برسوں میں امریکیوں کا ساتھ دینے والے مخبر، جاسوس، مترجم اور دیگر خدمات انجام دینے والے فطری طور پر متفکر ہیں۔ طالبان کی عام معافی کے اعلان کے باوجود انہیں خطرہ ہے کہ بعد میں سخت کارروائی ہوسکتی ہے۔ امریکہ نے وعدہ کیا ہے کہ ساتھ دینے والوں کو ویزا دے کر بچایا جائے گا۔ سب لوگ مگر ظاہر ہے نہیں جا سکیں گے۔ یہاں پر طالبان کا امتحان ہے کہ وہ موجودہ سیٹ اپ میں سے کتنے دھڑوں، لیڈروں یا لوگوں کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہوں گے؟ اپنے پچھلے دور میں طالبان اس حوالے سے سخت اور بے لچک رہے تھے۔ وہ تب غیر مشروط بیعت کے علاوہ کسی بات پر رضامند نہیں تھے۔ اسی وجہ سے گلبدین حکمت یار اور بعض دیگر اہم لیڈر طالبان کے ساتھ نہیں مل سکے تھے۔ اس بار دیکھیں طالبان کیا رویہ اپناتے ہیں؟ پاکستان کے لئے سب سے اہم یہ ہے کہ سوچ سمجھ کر درست فیصلے کئے جائیں۔ دو تین نکات ہمیں سمجھنے چائیں۔

دبائو یا عجلت میں کوئی بھی غلطی دو عشروں کی محنت ضائع کر سکتی ہے۔ سب سے بہتر یہی ہے کہ افغانوں کو اپنے فیصلے خود کرنے دیں۔ طالبان کو اپنے حملوں کے لئے پاکستانی مدد کی ضرورت نہیں، پاکستان پر اب یہ الزام نہیں لگایا جا سکتا ہے۔ زیادہ تر لڑائی شمالی افغانستان میں لڑی جا رہی ہے، جو پاکستان سے کئی سو کلومیٹر دور ہے۔ اس لئے اشرف غنی حکومت کے بے سروپا الزامات سے دبائو میں نہیں آنا چاہیے۔

پاکستان طالبان کو ڈکٹیٹ کرانے کی پوزیشن میں کبھی نہیں رہا۔ طالبان جب دنیا بھر میں تنہا تھے، تب بھی ملا عمر کی حکومت نے آزادنہ فیصلے کئے تھے۔ جنرل مشرف انہیں جھکانے میں بری طرح ناکام رہے۔ آج طالبان کا ساتھ دینے کے لئے کئی قوتیں متحرک ہیں۔ چین افغانستان میں اپنا اثر ورسوخ بنانا چاہے گا۔ روس کی بھی یہی خواہش ہوگی۔ ایران اور طالبان کے مابین ماضی والی تلخی موجود نہیں۔ تاجکستان، ازبکستان، ترکمانستان اور دیگر سنٹرل ایشیائی ریاستیں بھی شائد کھل کر مخالفت نہ کریں۔ بھارت بھی طالبان سے ہاتھ ملانے کو بے تاب ہے۔ ہم نے شدیدامریکی دبائو کے باوجودطالبان کی جدوجہد کو سپورٹ کیا۔ جہاں تک ہوسکا، ان کی مدد کی۔ طالبان یقینا اس کااحترام کریں گے، مگر ہمیں ان پر دبائو نہیں ڈالنا چاہیے۔ سلیقے اور حکمت سے نہ چلا گیا تو یہ رشتہ متاثر ہوگا۔

ہمیں امریکہ کو کسی بھی صورت میں اڈے نہیں دینے چاہئیں۔ اس حوالے سے وزیراعظم عمران خان کا موقف درست اور قابل ستائش ہے۔ یقینی طور پر اس فیصلے کو سول ملٹری مکمل سپورٹ حاصل ہوگی۔ یہ وقت ہے کہ ہماری انٹیلی جنشیا، میڈیا اور سیاسی جماعتوں کو بھی اس حوالے سے یکسو ہونا چاہیے۔ اڈے نہ دینے کے بارے میں پارلیمنٹ کو بھی استعمال کرنا چاہیے۔ جو غلطی ہم نے ماضی میں کی تھی، اسے کسی بھی صورت میں نہیں دہرانا چاہیے، امریکی دبائو خواہ کس قدر بڑھ جائے۔

بظاہر یوں لگ رہا ہے کہ ترک صدر امریکہ سے اپنے تعلقات بحال کرنے کے لئے افغانستان میں ایک بڑی غلطی کرنے جار ہے ہیں۔ کابل ائیرپورٹ کی حفاظت کے لئے ترک فوجی دستوں کی تعیناتی کی پیش کش غیر منطقی اور نامناسب ہے۔ ترک دستے نیٹو کا حصہ ہیں، انہیں نیٹو کے ساتھ ہی چلا جانا چاہیے۔ افغان طالبان نے واضح الفاظ میں ترک پیش کش کی مخالفت کی ہے، انہیں اس کا حق پہنچتا ہے۔ ترکی اس کا اشارہ دے رہا ہے کہ کابل ائیرپورٹ کی حفاظت کے لئے پاکستانی دستے بھی اس کے ساتھ شامل ہوں۔ اس ٹریپ میں نہیں پھنسنا چاہیے۔ کابل ائیر پورٹ کی حفاظت ہمارا مسئلہ نہیں۔ پاکستان کو(طالبان کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہوئے) غیر جانبدار رہنا چاہیے۔

افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے ہمارے کچھ آئیڈیاز، تجاویز، خواہشات ہوسکتی ہیں، مگر ان کی افغان منظرنامے میں کوئی خاص اہمیت نہیں۔ طالبان ہمارے نہیں، اپنے ایجنڈے پر چلیں گے۔ افغان حکومت کے پاس بھی زیادہ آپشنز نہیں۔ اس لئے فغانستان کا معاملہ افغانوں پر چھوڑ دینا چاہیے۔ اس وقت طالبان ہی مستقبل کی سب سے بڑی افغان قوت نظر آ رہے ہیں، انہیں چھیڑنے اور مشتعل کرنا دانش مندی نہیں۔ مجھے شدید حیرت ہوئی کہ اس وقت وزارت خارجہ نے اسلام آباد کی ایک سٹرک کانام احمد شاہ مسعود کے نام سے منسوب رکھنے کا مشورہ دیا۔ اس سے زیادہ بے تکی اور غیر دانشمندانہ بات اس پورے سال میں نہیں کہی گئی۔ احمد شاہ مسعود زندگی بھر اینٹی پاکستان رہے، اب ہمارے دل میں ان کی محبت کہاں سے جاگ اٹھی؟ اگرکسی مصلحت کے تابع یہ کام کرنا بھی تھا تو پانچ سال پہلے کیا جاتا۔ طالبان آ رہے ہیں، اب تو کسی سڑک کا نام ملا عمر سے منسوب کرنے کی تجویز آنی چاہیے۔