بڑے فنکاروں، ادیبوں اور کھلاڑیوں وغیرہ کے بارے میں عمومی روایت سے ہٹ کر کہنا آسان نہیں۔ ان کے لاتعداد مداح اپنے ممدوح کو ہر قسم کی خامی سے پاک اور بلند تصور کرتے ہیں۔ دراصل یہ بڑے فنکار، لکھاری، کھلاڑی اپنی شاندار پرفارمنس اور غیر معمولی کام سے لاکھوں، کروڑوں لوگوں کو محظوظ کرتے ہیں۔ ان لوگوں کی خوشگوار یادوں میں انبساط کے یہ لمحات ہمیشہ کے لئے محفوظ ہوجاتے ہیں۔ جب کوئی ان ہیروز پر سوال اٹھائے، اعتراض کرے تو یہ سب مداحین ہڑبڑا کر اٹھ جاتے ہیں، انہیں یوں لگتا ہے جیسے کسی نے ان حسین یادوں کو بے ترتیب کر دیا، ان لمحات کا حسن مجروح ہوگیا۔ یوں ان سوال اٹھانے والوں، اعتراض کرنے یا کھل کر عظمت کا اعتراف نہ کرنے والے ناہنجاروں پر یہ سب مداح حملہ آور ہوجاتے ہیں۔
ایسے میں محفوظ کھیلنے کا طریقہ یہی ہے کہ خاموش رہا جائے یا ایسے ملفوف الفاظ میں تبصرہ ہو کہ پڑھنے والے اصل بات سمجھ ہی نہ سکے۔ محفوظ انداز میں کھیلنے کا مگر نقصان یہ ہے کہ رنز بنا لینے کے باوجود کھیلنے والے کو مزا نہیں آتا۔ کرکٹ جاننے والے نکتہ آسانی سے سمجھ لیں گے۔ بلے کا ان سائیڈ ایج لگ کر گیند بائونڈری کے پار چلی جاتی ہے، چار رنز مل جاتے ہیں، مگر جو مزا مڈ آف یا مڈ آن کے فیلڈر کے سر کے اوپر سے اٹھا کر شاٹ مارنے میں مزا ہے، اس کا کوئی جواب نہیں۔ رنز اس کے بھی چار ہی ملیں گے، مگر وہ دھماکہ دار شاٹ ہوگا۔ تو یہ دھماکہ کرنے کا شوق کبھی تبصرہ کرنے والوں کو مہنگا پڑجاتا ہے۔ جوابی ردعمل انہیں پھر حظ اٹھانے کا موقعہ ہی نہیں دیتا۔
ایک زمانے میں گلوکارہ طاہرہ سید کا ایک انٹرویو اخبار میں چھپا، اس میں انہوں نے نصرت فتح علی خان کو اپنا پسندیدہ گلوکار قرار دیا، سوال کرنے والے نے شائد میڈم نورجہاں کا پوچھا تو طاہرہ سید نے کہہ ڈالا کہ وہ انہیں ایک سے زیادہ بار نہیں سن پاتیں، استاد نصرت کو البتہ بار بار سنتی ہیں۔ اب یہ ایک ذاتی رائے اور نقطہ نظر کا اظہار تھا۔ ہر ایک کو اپنا پسندیدہ گلوکار چننے کا حق حاصل ہے، یہ بھی ضروری نہیں کہ ایک عظیم گلوکارہ ہر انسان کی فیورٹ ہو۔ تب سوشل میڈیا کا دور نہیں تھا، ورنہ یہ طوفان نجانے کس کس کو بہا لے جاتا۔ ہنگامہ بہرحال کھڑا ہوگیا۔ میڈم کے مداحوں اور نیازمندوں کی طویل فہرست ہے، یہ سب طاہرہ سید پر حملہ آور ہوئے۔ اتنے جارحانہ بیانات داغے گئے کہ وہ بے چاری بوکھلا گئیں۔ پہلے کمزور سی تردید جاری کی گئی، پھر وضاحتوں کا سلسلہ چلتا رہا، مگر میڈم کی حامی لابی کی تسلی نہ ہوپائی، گولہ باری جاری رہی، آخر کار طاہرہ سید کی والدہ ملکہ پکھراج کو میدان میں آنا پڑا۔ بڑی مشکل سے طاہرہ سید کی جان چھوٹی۔
مجھے یاد ہے کہ بیس بائیس سال پہلے میں ایک اخبار کے نیوزروم میں سب ایڈیٹر تھا۔ ان دنوں قتیل شفائی ہسپتال ایڈمٹ تھے، ایک خاتون صحافی نے وہاں جا کر ان کا انٹرویو کیا۔ ا س انٹرویو کی سرخیاں سینئر نیوزایڈیٹر اور لکھاری خاور نعیم ہاشمی صاحب نے اپنے ہاتھ سے بنا کر بھیجیں۔ وہ تب ایڈیٹر نیوز تھے، خبر کی سرخی بنانا ان کا کام نہیں تھا، مگر اپنی دلچسپی کی وجہ سے شائد خود سرخیاں بنا ڈالیں۔ مجھے یاد ہے کہ مین سرخی غیر روایتی انداز میں یوں شروع ہوتی تھی، "مگر غزل اقبال بانو اچھا گاتی ہیں "۔ میں نے پہلی بار کسی سرخی کو مگر کے لفظ سے شروع ہوتے دیکھا، دلچسپ لگی۔ خبر میں اس کی تفصیل تھی، قتیل شفائی اقبال بانو کے مداح تھے، انتقال کے بعدان کی بائیوگرافی شائع ہوئی تو اس میں اقبال بانو کے ساتھ ایک خاص تعلق کی تفصیل بھی رقم کی گئی۔ قتیل شفائی نے مصلحتاً اقبال بانو کو میڈم نورجہاں پر ترجیح دینے کے بجائے پہلے میڈم کو سراہا اور پھر کہا مگر غزل اقبال بانو اچھا گاتی ہیں۔ یوں قتیل صاحب کسی جارحانہ ردعمل سے بچ گئے۔
یہ دونوں واقعات مجھے نامور بھارتی اداکار نصیرالدین شاہ کے دلیپ کمار مرحوم کے حوالے سے لکھے گئے ایک آرٹیکل کو پڑھ کر یاد آئے۔ یوسف خان المعروف دلیپ کمار تین ہفتے قبل سات جولائی کو انتقال کر گئے، ان کی وفات پر پاک وہند میں بے شمار آرٹیکل لکھے گئے، بہت سے ٹی وی پروگرام، ویڈیو کلپس بنے۔ دلیپ کمار اس خطے کی فلم انڈسٹری کے غیر متنازع طور پر عظیم تر ین اداکار تھے۔ پاک وہند فلم انڈسٹری کے تمام بڑے اداکار، ہدایت کار، فلم نقاد اور ہر کیٹیگری کے ماہرین اس پر متفق ہیں کہ دلیپ کمار جیسا اداکار پھر نہیں آیا۔ ان کی شاندار فلموں کی ایک طویل فہرست ہے، جنہیں نہ دیکھنا ایک طرح سے محرومی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کم از کم تین چار نسلوں کو دلیپ کمار نے مسحور کئے رکھا۔ وہ تین چار عشروں سے فلم انڈسٹری سے عملاً الگ ہوچکے تھے، فلم والوں نے انہیں ہمیشہ یاد رکھا۔ فلم انڈسٹری، میڈیا، سماجی زندگی سے اتنا فاصلہ رکھنے والا کوئی بھی شخص جلد بھلا دیا جاتا ہے۔ دلیپ کمار ایک شاندار استثنا ہیں۔ ہر سال ان کی سالگرہ پر بھارت کے نامورمقبول ترین اداکار ان کے گھر جاتے اور تصویر بناتے۔
دلیپ کمار کے حوالے سے نامور اداکار نصیرالدین شاہ کا دس جولائی کو انڈین ایکسپریس میں ایک آرٹیکل شائع ہوا۔ Requiem for Dilip Kumar and a small complaintکے نام سے چھپنے والے اس مضمون میں نصیرالدین شاہ نے دلیپ کمار کی دیوقامت شخصیت کے اعتراف کے ساتھ ان پر کچھ اعتراضات بھی کئے۔ شاہ کہتے ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ دلیپ صاحب نے بہت عمدہ نیچرل اداکاری کی اور اس زمانے میں جس طرح ہاتھ ہلا ہلا کر پرجوش، بلند آواز میں تھیٹریکل لائوڈ اداکاری کی جاتی تھی، اسے بالکل بدل کر رکھ دیا۔ ان کی ڈائیلاگ ڈیلیوری، مکالموں میں نہایت موزوں وقفہ، دلکش ادائیگی، بے مثال کردار نگاری وغیرہ سب لاجواب ہے۔ نصیرالدین شاہ کے خیال میں اگرچہ دلیپ صاحب کی بہترین فلمیں پچاس اور ساٹھ کے عشرے کی ہیں اور اپنی مشہور فلم گنگا جمنا کے بعد وہ اتنے متاثرکن نہیں رہے۔ یہاں پر دلیپ کمار کے مداحین چاہیں تو شاہ سے پرزور اختلاف کر سکتے ہیں۔ دلیپ صاحب کی چند ایک فلمیں اسی کے عشرے کی بھی ہیں، جو مشہور ہوئیں، جیسے کرانتی، شکتی، کرما، مشعل، مزدو روغیرہ۔
نصیرالدین شاہ کو اعتراض یہ ہے کہ دلیپ کمار عظیم اداکار تھے، مگر وہ فلم انڈسٹری میں جتنا بڑا کنٹری بیوشن کر سکتے تھے، انہوں نے نہیں کیا۔ دلیپ کمار نے ہمیشہ سیف کھیلنے کو ترجیح دی اور پاپولر، روایتی ڈگر کے کردار نبھائے، جن سے ان کا عظمت کا ہالہ ہمیشہ قائم رہا۔ شاہ کے الفاظ میں " دلیپ کمار نے صرف ایک فلم پروڈیوس کی، کسی فلم کی ہدایت کاری نہیں کی، کبھی اپنے تجربے کو آگے منتقل کرنے کی کوشش نہیں کی، کسی نئے اداکار کو گروم نہیں کیااور اپنے آخری دو عشروں میں ایسا متاثرکن کام نہیں چھوڑا جس سے مستقبل کے اداکار سیکھ سکیں، حتیٰ کہ ان کی بائیوگرافی میں بھی پرانے چھپے ہوئے انٹرویوز ہی اکٹھے کئے گئے۔" نصیرالدین شاہ کو شکوہ ہے، " دلیپ کمار جیسے بڑے آدمی نے آخر اپنی بائیوگرافی میں ان عظیم ہدایت کاروں کے ساتھ کام کے حوالے سے کچھ شیئر کیوں نہیں کیا؟ اس کتاب میں دلیپ کمار کے کام اور تکنیک کے حوالے سے بھی معلومات نہیں ملتی۔" یاد رہے کہ دلیپ کمار نے بھارتی فلم انڈسٹری کے چند بڑے ہدایت کاروں جیسے محبوب، بمل رائے، کے آصف، بی آر چوپڑا وغیرہ کے ساتھ کام کیا۔ نصیرالدین شاہ کے خیال میں دلیپ کمار پنڈت جواہر لال نہرو کے مداح تھے اور انہیں اپنا رول ماڈل بنائے رکھا، اسی انداز کا رکھ رکھائو، مجلسی آداب، ویسی شائستہ شخصیت وغیرہ۔ شاہ نے پنڈت نہرو پر بھی ایک طنزیہ جملہ لکھا کہ نہرو خود کو ہندومسلم دوستی کا ترجمان کہتے تھے، مگر جب فیصلہ کن لمحات آئے تو وہ (مسلمانوں کے لئے)کھڑے نہ رہ سکے۔
نصیرالدین شاہ کا اعتراض ہے کہ دلیپ کمار مالی اعتبار سے اتنے مستحکم تھے کہ سات پشتیں مزے سے رہ سکیں، وہ اتنے بڑے اداکار تھے کہ کسی فلم میں ان کا ہونا اسے مشہور اور خاص کر دیتا، ان کی آنکھ کا اشارہ بھی کسی بڑے فلمی پراجیکٹ کے خیال کو حقیقت بنا سکتا تھا، مگر دلیپ کمار نے اپنی اس حیثیت کو عام روایتی ڈگر سے ہٹ کر اپنے عہد کی تلخی سچائیاں بے نقاب کرتی معیاری فلمیں تخلیق کرانے اور یوں انڈسٹری کو آگے لے جانے کے لئے استعمال نہیں کیا۔ وہ صرف اپنی عظمت، اپنے بلندو بالا مقام اورسحرانگیز ہالا کو قائم رکھنے کے لئے کوشاں رہے۔ اپنے اس آرٹیکل کے آخر میں البتہ نصیرالدین شاہ نے اعتراف کیا کہ میں ان کئی ملین پرستاروں میں سے ایک ہوں، جو دلیپ کمار کے سحرانگیز کام کی وجہ سے ہمیشہ ان کے ممنون رہیں گے۔
نصیرالدین شاہ کے اس آرٹیکل پر بھارت میں ہنگامہ چل رہا ہے۔ میڈیا اور سوشل میڈیا پر بہت لوگوں نے شاہ کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا، کئی معروف لوگوں نے ان پر طنز بھی کئے کہ چونکہ وہ کمرشلی زیادہ بڑے اور معروف اداکار نہیں بن سکے، اس لئے وہ دلیپ کمار سے جیلس ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ نصیرالدین شاہ نے گزشتہ روز اپنا بیان جاری کیا، جس میں کہا کہ وہ اپنی رائے پر قائم ہیں، مگر تنقید کرنے والوں کو پہلے پورا آرٹیکل پڑھنا چاہیے، جس میں اس شکوہ کے ساتھ دلیپ کمار کی کھل کر تعریف بھی کی گئی۔