اپنے اتوارکے کالم میں کچھ عرصہ قبل نجی یونیورسٹی میں دوست کو فلمی انداز میں پروپوز کرنے والی لڑکی کے حوالے سے لکھا۔ اس بچی کی وڈیو آئی جس سے اندازہ ہوا کہ جس لڑکے کی خاطر اتنی پریشانی اور رسوائی اٹھائی، وہ پیچھے ہٹ گیا۔ اس واقعے کے مضمرات پر کالم لکھا تو غیر معمولی پزیرائی ملی۔ اپنے آفیشل فیس بک پیج پر لگایا تو خاصا شیئر ہوا اور اس تحریر کے ویوز بہت زیادہ ہوگئے۔ اپنی فیس بک وال اور واٹس ایپ گروپوں میں لگانے پر بھی ایسی ہی شیئرنگ اور مثبت ردعمل ملا۔ خوشی ہوئی کہ پڑھنے والوں کی بڑی تعداد نے اس کالم کو پسند کیا۔ اس پربے شمار کمنٹس آئے اور بہت سے فکر مند والدین نے ای میلز اور ان باکس میسجز کے ذریعے اپنی تشویش ظاہر کی۔ اکثر کا یہی کہنا تھا کہ آج کے دور میں اپنی بیٹیوں کو تعلیم سے محروم بھی نہیں کر سکتے، مگر وہاں جومسائل، قباحتیں موجود ہیں ان سے کس طرح نمٹا جائے۔ بیشتر کا گلہ تھا کہ میڈیا بھی اپنی ریٹنگ کے چکر میں گندگی کو پروموٹ کر جاتا ہے، حکومتوں کو اس کی پروا نہیں اور اگر پیمرا عوامی احتجاج پر کسی ڈرامے کو بند کرے تو انہیں عدالتی ریلیف مل جاتا ہے، پیمرا کی پابندیاں منہ دیکھتی رہ جاتی ہیں۔ قارئین کی بڑی تعداد کا مطالبہ تھا کہ اس کے سدباب کے لئے کیا کرنا چاہیے، اس پر ضرور لکھا جائے۔
یہ اہل دانش، ماہرین اور علما دین کا کام ہے کہ سماج کے اتنے بڑے مسئلے کو سلجھانے کے لئے مل بیٹھیں، غور کریں اور پھر تجاویز ترتیب دیں۔ میرے جیسے عام اخبار نویس کے لئے ایسا کرنا آسان نہیں۔ کچے پکے صحافتی انداز میں البتہ کچھ عرض کیا جا سکتا ہے، اس درخواست کے ساتھ کہ ماہرین اس بحث کو آگے بڑھائیں۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ میڈیا نے تربیت کی ذمہ داری سے ہاتھ کھینچ لیا ہے۔ خاص کر الیکٹرانک میڈیا کا یہ مسئلہ نہیں۔ ان کا واحد مقصد اچھی ریٹنگ لینا ہے۔ اکا دکا استثنائی مثال کے سوا کسی کو دلچسپی نہیں کہ اپنے پروگراموں، ٹاک شوز اور خبروں سے عوام کی تربیت کریں۔ ان کا شعور بلند کریں اور سماج میں بہتری لانے کی کوشش کریں۔ یوں لگتا ہے جیسے بذبان خاموشی وہ کہہ رہے ہیں کہ بھاڑ میں جائے عوام، اخلاقیات اور سما ج کا شعور۔
الحمدللہ خاکسار کے پاس وقت گزارنے کے بہترین طریقے موجود ہیں۔ انٹرٹینمنٹ کی خواہش ہو تب بھی بہت سے ایسے ذرائع آ چکے ہیں کہ ہمیں ٹی وی کی طرف نگاہ غلط ڈالنے کی حاجت نہیں رہی۔ ہمارے گھر ٹی وی پر چھوٹا صاحبزادہ اپنی پسند کے کارٹون دیکھتا ہے۔ کرکٹ میچز کے دنوں میں ہم سپورٹس چینل دیکھ لیتے ہیں، وہ بھی اکثر جھلکیاں ہی مل پاتی ہیں۔ تیسری مصروفیت پی ٹی وی پر ارطغرل ڈرامہ ہے، جسے میری خوش دامن بڑی دلچسپی سے دیکھتی ہیں، انہیں کمپنی دینے کے لئے ہم لوگ بھی شامل ہوجاتے ہیں کہ ارطغرل ایک سے زیادہ بار دیکھا جانے والا ڈرامہ ہے۔ چوتھا سیزن اب ختم ہونے والا ہے۔ اللہ کرے وزیراعظم عمران خان توجہ کریں اور پی ٹی وی پر پایہ تخت سلطان عبدالحیمد کی ڈبنگ اور نشر کرنے کا حکم بھی صادر کریں۔ جتنے عرصے میں ارطغرل کا پانچواں سیزن ختم ہوگا، تب تک ڈرامہ سلطان عبدالحمید کا وائس اوور مکمل ہوجائے گا۔ خیر بات چینلز کی ہو رہی تھی، کبھی نیوز ٹاک شو پر نظر پڑے تو حیرت ہوتی ہے کہ مین سٹریم میڈیا کتنا پیچھے، سست اور آئوٹ آف ٹچ ہے۔ سوشل میڈیا پر جس ایشو کو عوام نمٹا کر فارغ کر چکے ہوتے ہیں، اس پرکئے نیوز ٹاک شو کو کون دیکھے گا؟ کچھ عرصہ پہلے ایک معروف سروے کمپنی سے متعلق سینئر ایگزیکٹو سے بات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ نیوز چینلز دیکھنے والوں کی تعداد خطرناک حد تک کم ہوچکی ہے، تین فی صد کے لگ بھگ۔ اگر نیوز چینلز نے اپنے سٹائل اور اسلوب کو نہ بدلا تو ان بھولے بھالے ناظرین سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔
ڈرامہ چینلزلوگ دیکھ رہے ہیں، مگر وہاں پر بعض معروف چینلز نے فیشن اور سٹائل کے نام پر نیم عریاں ملبوسات، گھٹیا عامیانہ فلمی سٹائل کی کہانیوں کو پروموٹ کرنے کا ایجنڈا اپنایا ہوا ہے۔ اکثر ڈراموں میں وہ بیئرئر ز بھی توڑ دئیے گئے جو ہمارے معاشرے میں آج تک کبھی کسی کو جرات نہیں ہوئی تھی۔ ہم نے اپنی زندگی میں کبھی ایسا کوئی ڈرامہ نہیں دیکھا تھا جس میں سالی یعنی چھوٹی بہن اپنے بہنوئی پر فدا ہوجائے اور اعلانیہ اسے حاصل کرنے کی جنگ کرے۔ بیس بائیس کروڑ کی آبادی والے اس ملک میں ممکن ہے کہیں ایسا ہوتا ہو، مگر اسے یوں مشتہر کرکے نمایاں کرنے کی کبھی کسی نے ہمت نہیں کی تھی۔ اب یہ سب ہو رہا ہے۔ اسی طرح کون سوچ سکتا ہے کہ فیملی چینل پر ایسا فیشن شو نشر ہو گا جہاں معروف اداکارائیں نیم عریاں لباس پہنے نظر آئیں گی؟ یہ سب ہو رہا ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ اس میں شدت آ رہی ہے۔
تعلیمی اداروں کا یہ حال ہے کہ وہاں فیشن ایک بدصورت اور بھیانک شکل میں نمایاں ہوا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے ہماری طالبات کی ایک بڑی تعدادیونیورسٹیوں میں وہ فضول، عامیانہ ملبوسات پہننے جاتی ہیں جو شائد وہ اپنے گھر یا خاندان میں نہ پہن سکیں۔ نجی جامعات میں یہ رجحان بہت ہی زیادہ ہے، مگر سرکاری یونیورسٹیوں میں بھی کم برے حالات نہیں۔ پنجاب یونیورسٹی میں تو ایک طلبہ تنظیم کی مورل پولیسنگ کی وجہ سے معاملات زیادہ آگے نہیں بڑھ سکتے، اگرچہ ڈریس کوڈ پر وہ بھی کچھ نہیں کہہ سکتے۔ انہیں کہنا بھی نہیں چاہیے۔ یہ تو والدین کے روکنے ٹوکنے کا کام ہے۔ جو شائد اپنی بیٹیوں کو پڑھنے کے لئے بھیجتے ہوئے آنکھیں بند کر لیتے ہیں یا پھر ان کے ذہن سے اچھے، برے، شرعی، غیر شرعی کی تمیز ختم ہوچکی ہے۔
ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ پروفیشنل خاتون نے ان باکس میسج میں حیرت ظاہر کی کہ آخر کوئی بچی ٹائٹس (ٹانگوں سے پیوست شدہ پاجامہ)اور چھوٹی ٹی شرٹ پہن کریونیورسٹی کیسے جا سکتی ہے؟ وہ خاتون ایک بڑے بینک میں ملازمت کرتی ہیں۔ انہوں نے لکھا کہ کیا مائوں کو نہیں پتا کہ ٹائٹس تو نیچے پہننے والا کپٹرا (انڈرگارمنٹ) ہے، اسے پینٹ کی جگہ پہننے کا مطلب ہے کہ آپ اپنا جسم پوری طرح عیاں کر دیں اور مختصر ٹی شرٹ کے ہوتے ہوئے ڈھانپنے کا معمولی سا چانس بھی ختم ہوگیا۔ انہوں نے بڑی دل گرفتگی سے لکھا، " ملازمت کے سلسلے میں روزانہ شوکت خانم چوک سے گزرنا پڑتا ہے، قریب ہی تعلیمی ادارے ہیں، شدید افسو س ہوتا ہے کہ بچیاں رکشوں، ویگن اور کبھی تو چنگ چی رکشے سے اترتی ہیں، مگر لباس نہایت قابل اعتراض، جسم سے چپکی ٹائٹ جینز یا ٹائٹس یا پھر ٹخنوں سے اونچی شلوار جس میں پنڈلیاں عیاں ہوں، بال کھلے ہوئے، دوپٹہ نام کو نہیں۔ یہ کیسا پڑھنے والا لباس ہے؟ " انہوں نے دردمندی سے لکھا کہ قریب ہی سگریٹ پان کی دکانیں ہیں جہاں لفنگے کھڑے یہ تماشا دیکھتے رہتے ہیں۔
اس طرح کے میسجز بہت سی خواتین نے کئے کہ بچیوں کے لباس پر والدین کو خاص توجہ دینی چاہیے۔ انہیں یہ سمجھ نہیں آتی کہ کوئی ماں جس کی اپنی بیٹی کے ہر معاملے پر گہری نظر ہوتی ہے، وہ ایسے لباس کو کیسے نظراندازکرسکتی ہے؟ کیا والدہ کو نہیں معلوم کہ دوپٹے کے بغیر باہر نکلنا مناسب نہیں اورایک عورت کے لئے اسلام نے کیا شرعی ستر رکھا ہے؟ ایک صاحب نے ای میل میں بتایا کہ وہ ایک نجی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں، انہیں جو کچھ دیکھنا اور سہنا پڑتا ہے اسے بیان نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے لکھا کہ ایک بار پیپرز ہورہے تھے، وہ نگرانی کر رہے تھے، ایک بچی نے بہت کھلے گریباں کی ٹی شرٹ پہن رکھی تھی۔ آگے جھک کر لکھتے ہوئے ایسا نامناسب منظر بنا کہ انہیں سختی سے ٹوکنا پڑا کہ شرٹ درست کر کے سیدھی ہو کر بیٹھے۔ ان کا بھی سوال یہی تھا کہ جب یہ بچی یہ شرٹ پہن کر گھر سے نکلی تو والدین نے کیوں نہ روکا؟ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایک ناخوشگوار واقعہ جب ہو تو عوام خاص کر والدین لرز جاتے ہیں۔ پریشانی فطری امر ہے، مگر یہ بھی سوچیں کہ ایسے واقعہ بہت سی دیگر غلط باتوں سے جڑا ہوتا ہے۔ ایک پورا چین ری ایکشن (Chain Reaction)ہو تب ایسے سانحات ہوتے ہیں۔
یہ وضاحت ضروری ہے کہ ہر معاملے میں قصور لڑکی کانہیں۔ لڑکے بھی معصوم یا دھلے دھلائے نہیں۔ ان میں سے بہت سوں کی تربیت میں نقائص ہیں۔ والدین ان کی بہت سی غلطیوں، بدتمیزیوں، فضول حرکتوں کو نظرانداز کرتے ہیں۔ ان پر نظر نہیں رکھتے، تربیت نہیں کرتے، شرعی غیر شرعی کا فرق نہیں سمجھاتے۔ نظر کی حفاظت کرنا، غض بصر کے قرآنی حکم کا نہیں بتاتے۔ بری صحبت کو مانیٹرنہیں کیا جاتا۔ وہ جہاں آئیں، جائیں، فون پر جس سے رابطہ رکھیں، جو مرضی کریں ان سے کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوتی۔ نتیجے میں لڑکے بھی ایسے بلنڈرز کرتے ہیں کہ پھر والدین کی نیندیں حرام ہوجاتی ہیں۔
اہم نکتہ یہی ہے کہ اساتذہ، تعلیمی اداروں، سماج اور میڈیا سے تربیت کی امید نہ رکھیں۔ وہ اس بوجھ اورذمہ داری سے آزاد ہوچکے۔ اپنے بچوں کو بچانا ہے تو ان کی تربیت خود کرنا پڑے گی۔ ہمیں برائی، فحاشی اور شر کی اس یلغار کے مقابلے کے لئے بند خود باندھنے ہوں گے۔ دوسروں سے امید چھوڑیں اور سوچیں کہ کیا کر سکتے ہیں؟ اس پر جو چند نکات سمجھ میں آئے، انہیں اگلی نشست میں ان شااللہ بیان کروں گا۔