زندگی کی چند تکلیف دہ یادوں میں سے ایک میرے کالج دور کی ہے۔ میں نے ڈبل میتھ، فزکس کے ساتھ بی ایس سی کی تھی۔ احمد پورشرقیہ کے کالج میں پڑھتا تھا۔ اکثر چھوٹے شہروں کے کالج غریب کی جیب کی طرح ہوتے ہیں، دکھانے کے نہ چھپانے کے۔ ہمارے کالج میں بی ایس سی کی کلاسز شروع ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا۔ ٹیچروں کی قلت تھی۔ ہمارے میتھ کے ایک ٹیچر ایف ایس سی کو پڑھانے کے ماہر تھے، بہت اچھا پڑھاتے تھے۔ بی ایس سی البتہ ان کے لئے چیلنج بن کر آئی، کسی نہ کسی طرح وہ کام چلا رہے تھے۔ نجانے کہاں سے نوٹس لے کر آئے تھے، ان کی مدد سے پڑھاتے اور طلبہ کے بار بار اصرار کے باوجود اپنے نوٹس فوٹو کاپی کرانے کے لئے نہیں دیتے تھے۔ خیر ہمیں ان سے شکایت نہیں کہ کسی نہ کسی طرح انہوں نے اپنا کورس مقررہ مدت میں مکمل کرا دیا۔
افسوسناک صورتحال میتھ کے دوسرے لیکچرارکی وجہ سے پیدا ہوئی۔ وہ صاحب بڑے خوش پوش تھے، پتلون کی کریز چاقو کی دھار کی طرح تیز، روزانہ خوشبو میں بسے، جگمگاتے چہرے کے ساتھ کالج آتے۔ بہاولپور جو احمد پورشرقیہ سے پچاس پچپن کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے، وہاں سے روزانہ آنا ہوتا۔ باتیں مزے کی کرتے، خوش گپیاں لگاتے مگر جیسے ہی کوئی طالب علم پڑھائی کی بات کرتا، آنجناب کے چہرے پر خوفناک سنجیدگی چھا جاتی، تیوریوں پر بل آ جاتے اورلب ولہجہ نہایت خشک ہوجاتا۔ ایم ایس سی میتھ کرنے کے بعد وہ حال ہی میں لیکچرار بنے تھے، پہلی پوسٹنگ ان کی احمد پور شرقیہ کے ڈگری کالج میں ہوئی تھی۔ یہاں پردو تین سال ہم جیسوں کا بیڑا غرق کرنے کے بعد وہ واپس اپنے شہر تشریف لے گئے۔
چھوٹے شہروں کے کالجوں کا یہ المیہ ہے۔ ملتان، بہاولپور بلکہ لاہور وغیرہ سے بہت سے لیکچرار اپنی پہلی پوسٹنگ احمد پورشرقیہ، لیاقت پور، خان پور، احمد پور لمہ جیسے پسماندہ شہروں میں گزارتے ہیں، دوچار سال وہاں کے طلبہ پر تجربات کرنے اور ان کا مستقبل تاریک کرنے کے بعد پھر اپنے آبائی شہرٹرانسفر کرالیتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ بی ایس سی میں ماڈرن فزکس پڑھانے کے لئے جو صاحب آئے، ان کا تعلق کبیر والا یا خانیوال سے تھا۔ انہوں نے ذکریا یونیورسٹی سے بی ایس سی اور ایم ایس سی کی تھی۔ موصوف نے یہ معلوم کرنے کی زحمت ہی نہیں فرمائی کہ احمد پورشرقیہ کا کالج اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے تحت ہے، اس یونیورسٹی کا سیلیبس ہی پتہ کر لیں۔ وہ مزے سے دو سال ہمیں ذکریا یونیورسٹی، ملتان کا بی ایس سی سلیبس پڑھاتے رہے۔ جب ہم لوگ بی ایس سی کا امتحان دینے گئے تو معلوم ہوا کہ آدھا پیپر آئوٹ آف سیلیبس ہے۔ ہمارے اوپر کیا گزری ہوگی، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ بہاولپور سے آنے والے میتھ کے لیکچرار نے تو خیرا س کی کوشش بھی نہیں کی۔ انہوں نے ہمیں میتھ کے دو پیپرز کی تیاری کرانی تھی، پورے دو برسوں میں وہ بمشکل ایک پیپرکا نصاب مکمل کرا پائے۔ سو نمبر کے دوسرے پیپر میں جو دو کتابیں شامل تھیں، انہیں چھونا بھی نصیب نہ ہوا۔ بعد میں ہم نے بمشکل اس پیپر کے لئے بہاولپور سے نوٹس منگوائے اور تیاری کر کے سپلیمنٹری امتحان میں اسے کلیئر کیا۔ آج کل ایک نصاب کا شوروغلغلہ ہے۔ بہت اچھی بات ہے، مگر کاش صوبائی حکومت سرکاری کالجوں میں اساتذہ کی کوالٹی بھی بہتر کر سکے اور نئے لیکچراروں کی چھوٹے شہروں میں تقرری پر پابندی لگائے۔ انہوں نے جونقصان کرنا ہے، اپنے شہر کے بچوں کا کریں تاکہ بعد میں محاسبہ تو ہو پائے۔
انہی بی ایس سی کے پریشاں دنوں کا یہ قصہ ہے، ایک ساتھی طالب علم نے جس سے گہری دوستی ہوگئی تھی، ایک دن عجیب وغریب انکشاف کیا۔ اس نے ایف ایس سی دنیا پور تحصیل سے کی تھی اور کسی وجہ سے گرایجوایشن کرنے احمد پور کالج میں داخل ہوا، یہاں اس کے نانا مقیم تھے۔ میرے ہم نام اس دوست نے گرمیوں کی ایک جھلسا دینے والی دوپہر میں انکشاف کیا کہ اس کا ایف ایس سی میں انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور کا میرٹ بن گیا تھا، شدید خواہش کے باوجود وہ اس لئے انجینئر نہ بن سکا کہ گھر کے مالی حالات ابتر تھے۔ اس نے دانستہ طور پر اپنے والد کو بھی نہیں بتایا کہ اس کے اتنے زیادہ نمبر آئے ہیں۔ وجہ یہ تھی کہ والد اپنے کمزور مالی حالات کی وجہ سے مدد تو نہ کر پاتے مگر پچھتاوے اور ندامت کا شکار ہوجاتے۔ فرماں بردار بیٹے نے اپنے اوپر تنقید برداشت کر لی، مگر والدین کا بھرم برقرار رکھا۔ میرا وہ دوست بی ایس سی کر کے اپنے شہر واپس چلا گیا، آج کل وہاں غالباً سکول ٹیچر ہے۔ اس بات کو کم وبیش تیس سال ہوگئے، اس کی چبھن آج تک نہیں گئی۔ صحافت میں آنے کے بعد ان لوگوں اور چیریٹی اداروں کی ہمیشہ حوصلہ افزائی کی، جو ٹیلنٹیڈ طلبہ کی ہر لحاظ سے مدد کرتے ہیں اور اسے یقینی بناتے ہیں کہ کمزور معیشت کی وجہ سے کوئی لائق نوجوان ترقی سے محروم نہ رہ جائے۔ ڈاکٹر اعجاز قریشی صاحب نے جب ہونہار طلبہ کے لئے کاروان علم فائونڈیشن بنائی تو بہت خوشی ہوئی۔ برادرم خالد ارشاد صوفی اس کے ڈائریکٹر ہیں، ان کی مساعی سے پچھلے سترہ اٹھارہ برسوں میں یہ ادارہ کہاں سے کہاں پہنچ گیا۔ اسی طرح کے اور بھی ادارے ہیں۔ مجھے خوشگوار حیرت ہوئی جب زیارت میں قائم الہجرہ فائونڈیشن سکول کا پتہ چلا۔ الہجرہ بلوچستان کے سنگلاخ پہاڑوں میں کِھلا امید کا مہکتا گلاب ہے۔ ان شااللہ الہجرہ پر تفصیل سے لکھوں گا، اس پراجیکٹ میں بہت کچھ ایسا ہے جو قارئین سے شیئر کیا جا سکے۔ آج ٹیلنٹیڈ طلبہ کی مدد کے لئے قائم ایک اور اچھے چیریٹی ادارے" الامین اکیڈمی سی ایس ایس، پی ایم ایس " کا تذکرہ کرنا مقصود ہے۔
الامین اکیڈمی کے روح رواں لاہور کی ایک نہایت متحرک، فعال شخصیت پیر ضیا الحق نقشبندی ہیں۔ ضیا نقشبندی کو میں " ون مین آرمی" کہتا ہوں، بیک وقت کتنے ہی کاموں میں جتے رہتے ہیں اور ہر ایک کو کامیابی سے ہمکنار کر دیتے ہیں۔ پیر ضیا الحق نقشبند ی کا تعلق تصوف کے سلسلہ نقشبندیہ سے ہے، ایک زمانے میں ان کا لاہور کی معروف جامعہ نعیمیہ سے قریبی تعلق رہا۔ پھر ان کی بلند پرواز انہیں کئی اور چوٹیوں پر لے گئی۔ وہ ایک قومی اخبار میں کالم لکھتے ہیں، اجتہاد کے نام سے ٹی وی پروگرام کرتے ہیں۔ انہوں نے بہت سے اہم عوامی، سماجی موضوعات پر پروگرام کئے اور ماحولیاتی آلودگی، ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی اور اسے جیسے دیگر مسائل پر دینی آرا دیں۔ خواجہ سرائوں کے شرعی حقوق کے حوالے سے بھی فتویٰ جات دئیے۔ ان ٹی وی پروگراموں پر مشتمل کتاب اجہتاد کے نام سے شائع ہونے والی ہے۔ موصوف ایک درجن سے زائد کتابوں کے مصنف ہیں، ان میں نشان راہ(دو جلدیں)، فاتح کون، بلیک واٹر، جلا وطنی سے وطن واپسی تک، بے نظیر شہادت، مادر جمہوریت، حامد کہانی وغیرہ شامل ہیں۔
ضیا الحق نقشبندی تنظیم اتحاد امت پاکستان کے چیئرمین جبکہ متحدہ علما بورڈ پنجاب کے کوارڈی نیٹراور مشیر پولیو حکومت پنجاب ہیں۔ ضیا نقشبند ی کا کہنا ہے کہ ان کے باقی پراجیکٹ ایک طرف اور الامین اکیڈمی کا منصوبہ ان سب پر حاوی ہے کہ یہ ان کے دل سے جڑا ہے۔ انہوں نے بنیادی طور پر یہ اکیڈمی مستحق ٹیلنٹیڈ طلبہ کے لئے قائم کی ہے۔ ایسے طلبہ جوسول سروس امتحانات کی تیاری کرنا چاہتے ہیں، مگر کم وسائل کی وجہ سے مہنگی اکیڈمیوں کی فیس افورڈ نہیں کر سکتے۔ الامین اکیڈمی کو سینئر صحافی جناب مجیب الرحمن شامی اور سہیل وڑائچ کی سرپرستی اور معاونت بھی حاصل ہے۔ ضیا الحق نقشبندی کے مطابق ہمارے اساتذہ ان طلبہ کا امتحان لے کریہ طے کرتے ہیں کہ انہیں کتنے فی صد سکالر شپ دی جائے۔ بہت سے ایسے بچے ہیں جو فیس نہیں دے پاتے، ان کا بھرم رکھا جاتا ہے اور پوری تکریم کے ساتھ انہیں مقابلے کے امتحانات کی تیاری کراتے ہیں۔
الامین اکیڈمی کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ نے بڑا متاثر کیا۔ میں نے نقشبندی صاحب کو مشورہ دیا کہ اس اکیڈمی کو صرف لاہورکے طلبہ تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ دوسرے صوبوں کے ایسے طلبہ جو اعلیٰ تعلیم کی غرض سے لاہور مقیم ہیں، انہیں بھی اس میں شامل کیا جائے۔ انہیں تجویز دی کہ جنوبی پنجاب، گلگت بلتستان، آزاد کشمیر اور بلوچستان سے کچھ طلبہ کو خاص رعایت کے ساتھ اکیڈمی میں پڑھایا جائے۔ بلوچستان کے لئے الامین اکیڈمی الہجرہ سکول ٹرسٹ سے رابطہ کر سکتی ہے۔ الہجرہ سکول میں بلوچستان کے ہر ضلع سے دو بچوں کو لے کر انہیں چھٹی جماعت سے انٹر تک مفت تعلیم دلائی جاتی ہے۔ انٹر کے بعد اکثر طلبہ گرایجوایشن کورسز کے لئے پنجاب یونیورسٹی یا لاہور کے دیگر تعلیمی اداروں میں آ جاتے ہیں۔ الہجرہ کے ایسے طلبہ جنہیں سو ل سروس امتحان میں دلچسپی ہے، وہ الامین اکیڈمی سے استفادہ کر سکیں۔ ضیا نقشبندی نے اس تجویز پر ہامی بھر لی، امید ہے کہ جلد ہی اس حوالے سے ایم او یو بھی ہوجائے گا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ تعلیم کے میدان میں کام کرنے والی چیریٹی تنظیموں کے ہاتھ مضبوط کئے جائیں اور اس کا م کو آگے بڑھایا جائے۔ اس مقصد کے لئے مختلف اداروں کو ایک دوسروں کے ساتھ منسلک ہونے کی ضرورت ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ صرف مالی وسائل نہ ہونے کی بنا پر کوئی لائق بچہ اعلیٰ تعلیم سے محروم نہ رہ سکے۔ اس کے لئے چراغ سے چراغ جلانے کی ضرورت ہے۔