Das Mein Se Aath Number
Amir Khakwani114
وزیراعظم عمران خان اور صدر ٹرمپ کی ملاقات نہ صرف پاکستانی محکمہ خارجہ بلکہ امریکی سٹیٹ آفس اور وائٹ ہائوس آفیشلزکے لئے بھی سنجیدگی، دلچسپی اور کسی حد تک پریشانی کا باعث رہی ہوگی۔ صدر ٹرمپ غیر متوقع ردعمل، چونکا دینے والے بیانات کے ماسٹر سمجھے جاتے ہیں، وہ کسی وقت کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ دوسری طرف ہمارے عمران خان بھی اس فن میں کسی سے کم نہیں۔ اردو محاورے کے مطابق وہ کچھ بھی کہہ دینے کے فن میں "یدطولیٰ" رکھتے ہیں۔ بقول شخصے ہمارے خان صاحب جب بھی میڈیا سے گفتگو کے لئے منہ کھولتے، ان کی میڈیا ٹیم اور مشیروں کو سانپ سونگھ جاتا ہے۔ وہ یہی دعا کرتے رہتے ہیں کہ عمران کوئی گڑبڑ نہ کر ڈالیں۔ ان کے قوم سے کئے گئے ہر خطاب کے بعد کچھ نہ کچھ تنازع شروع ہوجاتا ہے۔ پیر کو عمران خان اور امریکی صدر ٹرمپ کی ملاقات میں البتہ ایسا کچھ نہیں ہوا، دونوں ممالک کے آفیشلز کے لئے یہ خوشگوار رہی۔ پاکستانی وفد یقینی طور پر امریکی صدر کے مثبت ردعمل اور ان کی پریس کانفرنس میں کشمیر کے ذکر سے شاد ہوا۔ اس سے بہتر کی انہیں توقع نہیں ہوگی۔ پاکستانی میڈیا کو بھی ایک بنی بنائی لیڈ سٹوری مل گئی۔ ہمارے ہاں روایت ہے کہ ہر حکمران کے غیر ملکی دورہ کو کامیاب قرار دیا جاتا ہے۔ عمران خان کا دورہ امریکہ اور خاص طور سے صدر ٹرمپ کے ساتھ ان کی ملاقات حقیقی معنوں میں کامیابی اور بریک تھرو ہے۔ کئی اطراف سے مشکلات اور شدید دبائو کے شکار پاکستان کو امریکہ جیسی سپرپاور سے خاصے عرصے بعد ٹھنڈی ہواکا جھونکا آیا۔ ابھی کچھ زیادہ کہنا قبل از وقت ہے، کئی اہم معاملات پر پس پردہ بات چیت ہو رہی ہوگی، کس حد تک معاملات ہمارے حق میں گئے ہیں، ان کا اندازہ چند دنوں میں ہوگا۔ بعض اشارے ان ڈائریکٹ بھی ملتے ہیں۔ جیسے پاکستان امریکہ قربت کا ایک نتیجہ ایف اے ٹی ایفFATFکے بڑھتے دبائو میں کمی کی صورت میں نکل سکتا ہے، عین ممکن ہے کہ پاکستان گرے لسٹ سے باہر آجائے۔ امریکہ کی جانب سے امداد کی فوری بحالی اس وقت کچھ زیادہ بڑی توقع ہے، مگر امریکہ کے ساتھ تجارت کے حوالے سے پاکستان کو کچھ سہولتیں، مراعات مل سکتی ہیں۔ پاکستان کی ایکسپورٹ کا بڑا حصہ امریکہ جاتا ہے، کچھ ریلیف ملے تو ہماری ایکسپورٹ بڑھ سکتی ہے۔ تجارتی عدم توازن کے شدید خطرے سے دوچار ملک کے لئے ایکسپورٹ بڑھ جانا ہی مسرت انگیز بات ہے۔ پاکستان امریکہ کے تعلقات خوشگوار ہونے کا ایک نتیجہ بلوچستان میں دہشت گرد تنظیموں کے لئے مشکلات بڑھ جانے کی صورت میں نکلے گا۔ حیربیار مری کی دہشت گرد تنظیم بی ایل اے پر تو پہلے ہی پابندی لگ چکی ہے، ڈاکٹر اللہ نذر کی بی ایل ایف اور دیگر دہشت گرد گروپ بھی ممکنہ پابندیوں کی زد میں آ سکتے ہیں، امریکی پابندی کے بعد بی ایل اے کے لئے برطانیہ اور یورپی یونین میں بھی پابندیاں لگوانا آسان ہوجائے گا۔ ان تنظیموں کی فنانشل فنڈنگ اور افغانستان میںمبینہ ریکروٹنگ، ٹریننگ اور لاجسٹک سپورٹ بھی آسان نہیں رہے گی۔ بھارت نے مسئلہ کشمیر پر ثالثی مسترد کر دی، ممکن ہے بھارتی وزیراعظم مودی یا ان کے وزیرخارجہ بھی اس کی واضح تردید کر دیں۔ یہ متوقع ردعمل ہے۔ بھارت نے یہی کرنا تھا، مگر امریکی صدر کی جانب سے کشمیر کے مسئلے کا ذکر، ثالثی کی پیش کش بھی کوئی معمولی بات نہیں۔ بھارت میں اس پر طوفان کھڑا ہوگیا۔ اپوزیشن پھٹ پڑی ہے، بھارتی میڈیا کی جھنجھلاہٹ دیکھ کر لطف آ رہا ہے۔ ابھی کچھ دیر پہلے بھارتی اینکر، صحافی برکھا دت کا امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں کالم پڑھا۔ برکھا دت کی تلملاہٹ اور طیش ہر سطر سے نمایاں تھا۔ لگتا تھا کہ تند وتیز تبصروں میں معروف یہ عفیفہ ابھی صدر ٹرمپ کو صلواتیں سنانے لگے گی۔ امریکہ بھارت کو کشمیر پر ثالثی کے لئے مجبور تو نہیں کر سکتا، مگرپاکستان کے لئے امریکی نرم گوشہ سے کنٹرول لائن پر بھارتی دبائو ضرور کم ہوجائے گا۔ دو طرفہ مذاکرات کا ڈول بھی ڈالا جاسکتا ہے۔ آسان لفظوں میں یہ سمجھ لیجئے کہ اس دورے سے اور کچھ زیادہ نہ بھی حاصل ہو، پاکستان کو سانس لینے کا موقعہ مل گیا، اپنے لئے کچھ گنجائش، کچھ وقت اس نے ضرور حاصل کر لیا ہے۔ پاکستان جس قدر گمبھیر، سنگین مسائل میں الجھا ہے، اس میں اسے وقت ہی درکار تھاکہ بیرونی دبائو، خطرات کم ہوں اورتوجہ ملکی معیشت سنوارنے، گورننس بہتر کرنے پر مرکوز کی جا سکے۔ وزیراعظم عمران خان نے ذاتی طور پر کئی کامیابیاں حاصل کیں۔ وزیراعظم بننے کے بعد یہ ان کا پہلا امریکہ دورہ تھا۔ ان کی اب تک کی کارکردگی خاصی متاثرکن رہی۔ انہوںنے ایک بڑا جلسہ کر کے بہت سوں کو حیران کر دیا۔ کسی پاکستانی حکمران نے اس سے پہلے اتنے لوگ اکٹھے نہیں کئے۔ عمران خان نے ایک شاندار شو کر کے امریکی میڈیا اور منصوبہ سازوں کو یہ بتا دیا کہ وہ واقعی ایک مقبول اور محبوب لیڈر ہے۔ اس پر سلیکٹیڈ کی پھبتی کسنے والوں کو اس سے بہتر جواب شائد دینا ممکن ہی نہیں تھا۔ امریکیوں کے لئے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ جس نے امریکہ میں اتنا بڑا جلسہ کر لیا، وہ پاکستان میں کس قدر بڑے عوامی اجتماعات کر سکتا ہے۔ عمران خان کی تقریر پر البتہ اعتراض کئے جا سکتے ہیں۔ یہ تنقید درست ہے کہ وہ ہر جگہ ایک جیسی باتیں کرتا اور اپوزیشن لیڈروں کو مطعون کرنے میں زیادہ وقت صرف کر دیتا ہے۔ اس کی چنداں ضرورت نہیں تھی۔ عمران خان مگر اپنے اسی جارحانہ سٹائل کے ساتھ اپوزیشن کرتا رہا، اسی انداز کے ساتھ وہ ایوان اقتدار میں آیا ہے اور شائد ابھی اس کا یہی سٹائل آگے بھی رہے۔ زیادہ بہتر ہوتا کہ عمران خان اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل پر فوکس کرتا، اپنا معاشی ویژن ان سے شیئر کرتا، سیاحت کے منصوبے، پاکستان میں انویسٹمنٹ کے لئے موٹی ویشنل تقریر کرتا۔ کچھ باتیں اس نے کیں، مگر اس سے کہیں زیادہ اور بہتر تقریر کی جا سکتی تھی۔ عمران خان کو یہ اندازہ بھی ہوا ہوگا کہ اس سے نہ صرف ملک میں بلکہ بیرون ملک بھی کس قدر بڑی تعداد امیدیں وابستہ کئے بیٹھی ہے۔ ہم لوگوں نے میاں نواز شریف کو امریکی دورے میں پرچیاں ہاتھ میں پکڑے کمزور انداز میں بات کرتے دیکھا۔ دیگر پاکستانی حکمرانوں کے دورے بھی سب کے سامنے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان ایک پراعتماد لیڈر کے طور پر سامنے آیا۔ بڑی روانی اور اعتماد سے وہ انگریزی بولتا اور صحافیوں کو مدلل جواب دیتا ہے۔ ہم اپنے دیسی مزاج کے حکمرانوں کو بھی برانڈڈ سوٹ پہنے دیکھتے رہے ہیں، عمران خان کا سادہ قومی لباس پہننا اچھا لگا۔ عمران خان کا معروف امریکی چینل فوکس نیوز کو دیا گیا انٹرویو متاثرکن تھا۔ کئی مشکل سوالات کے اس نے عمدگی سے جواب دئیے۔ میاں نواز شریف، شہباز شریف، آصف زرداری یا دیگر لیڈروں میں وہ اعتماد، مضبوطی اور روانی نہیں۔ اس انٹرویو میں عمران خان نے کشمیر پر خاصا زور دیا اور دلائل سے سمجھایا کہ جب تک مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوتا، تب تک پاک بھارت اختلافات اور تنازع میں کمی نہیں آئے گی۔ فوکس نیوز کے اینکر نے شکیل آفریدی کی رہائی کی بات کی تو عمران خان نے برجستہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا ذکر کیا۔ پہلی بار شائد کسی پاکستانی حکمران نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا اس سطح پر ذکر کیا، میرا خیال ہے کہ پس پردہ کہیں نہ کہیں شکیل آفریدی اور عافیہ صدیقی کے تبادلے کی تجویز پر غور ہو رہا ہے۔ شکیل آفریدی آٹھ نو سال کی سزا کاٹ ہی چکا ہے، اسے ابھی مزید جیل میں سڑنا چاہیے، لیکن اگر اس کے بدلے پاکستان کی بدنصیب بیٹی عافیہ صدیقی کو آزادی مل جائے، ان کی زندگی آسان ہوجائے تو اس سے اچھا اور کیا ہوگا۔ امریکی میڈیا میں بھی عمران خان کا مثبت امیج بنا۔ شائد اس کی وجہ یہ ہو کہ عمران خان کا کرپشن، منی لانڈرنگ کے خلاف بیانیہ امریکی میڈیا اور سماج کے لئے کشش رکھتا ہے۔ عمران خان نے اس دورہ کو سادہ رکھنے کی کوشش کی، پاکستان میںاس کے مخالفین طنز کرتے رہے، مگر امریکہ میں اسے مثبت انداز میں لیا گیا۔ عام فلائیٹ کے ذریعے جانا، میٹرو میں سفر کرنا، مہنگے ہوٹل کے بجائے سادہ رہائش گاہ میں رہنا… یہ سب وہ ہے جو مغربی معاشرے کے لئے پسندیدہ ہے۔ عمران خان نے اس حوالے سے پوائنٹ سکور کیا ہے۔ میڈیا پر پابندیوں کے حوالے سے البتہ سوال ہوا، عمران خان اسے اچھے طریقے سے ٹال گیا، مگر یہ سوال مغربی دوروں میںاٹھایا جاتا رہے گا۔ مجموعی طور پر عمران خان کا دورہ کامیاب رہا۔ اس نے اپنا امیج بہتر بنایا، مشکل مراحل کو عمدگی سے ڈیل کیا، اپنی ذاتی مقبولیت بھی شو کی اور پاکستان کے روایتی ایشوز کو بھی دلیری سے بلا ججھک اٹھایا۔ ابھی تک جو سامنے آیا، اسے دیکھتے ہوئے عمران خان کو دس میں سے سات یا آٹھ نمبر دئیے جا سکتے ہیں۔ صدر ٹرمپ پاکستانی وزیراعظم پر مہربان محسوس ہوئے، انہوں نے اپنی پریس کانفرنس میں مکس اشارے دئیے، سفارتی زبان میں گاجر اور چھڑی دونوں کی ملفوف جھلک، مگر یہ واضح ہے کہ ٹرمپ کو اپنے افغانستان پلان کے لئے پاکستانی مدد کی شدید ضرورت ہے۔ امریکہ جب تک افغانستان میں پھنسا ہوا ہے، تب تک وہ پاکستان کو نظرانداز نہیں کر سکتا۔ اس سے پاکستان کے لئے سانس لینے کی گنجائش، سہولت پیدا ہوئی ہے۔ ہمیں اس وقت کو اچھے طریقے سے استعمال کر کے اپنے اندرونی مسائل نمٹالینے چاہئیں۔ معیشت سنوارے بغیر ہم آنے والے چیلنجز سے ڈیل نہیں کر سکتے۔