Monday, 04 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Deal, Arrangement, Bandobast?

Deal, Arrangement, Bandobast?

پاکستانی سیاست نے ایک اہم موڑ لیا ہے۔ میاں نواز شریف اپنا علاج کرانے ملک سے باہر جا رہے ہیں۔ لاہور ہائی کورٹ نے اپنے فیصلہ میں چار ہفتوں کی مہلت دی، مگر عمومی تاثریہی ہے کہ میاں صاحب کی صحت کے پیش نظر اس مدت میں توسیع ہو گی۔ پاکستانی سیاست میں کوئی بات قطعیت سے نہیں کہی جا سکتی۔ یہاں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ قومی شناختی کارڈ نہ رکھنے والا شخص ملک کا نگران وزیراعظم بن جاتا ہے۔ تحریری معاہدہ کرنے والے سات برس تک معاہدے سے انکار کرتے رہتے ہیں، جب معاہدہ سامنے آ جائے تب خاموشی سادھ لی جاتی ہے، مگر قوم سے مسلسل بولے جانے والے اس جھوٹ پر کوئی ٹس سے مس ہوتا ہے نہ شرمندہ۔ وہ سرے محل جس کی ملکیت سے مسلسل انکار ہوتا ہے، ایک روز خاموشی سے اسے بیچ کر سب پیسے جیب میں ڈال لئے جاتے ہیں۔ ہماری سیاست کی جادو نگری میں سب چلتا ہے۔ جسے کبھی ملک کا سب سے بڑا سیاسی ڈاکو کہا تھا، اسے اپنا اتحادی بنا کر اہم منصب دینا پڑجاتا ہے۔ جسے گالیاں دیتے تھے، اسے سینے سے لگانا پڑتا ہے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ اکثریت رکھنے اور شو کرنے کے باوجود جماعتیں اپنا چیئرمین سینٹ نہیں بنوا سکتیں۔ جہاں اصول، اخلاقی ضابطے محض مذاق ہوں، وہاں یقین سے کچھ کیسے کہہ سکتے ہیں؟ اس کے باوجود بظاہر یہی لگ رہا ہے کہ میاں نواز شریف اگلے سال ڈیڑھ دو کے لئے اپنی بیماری اور صحت کی خرابی کے باعث باہر رہیں گے، عین ممکن ہے کہ مریم نواز صاحبہ بھی والد کی عیادت اور دیکھ بھال کے لئے انسانی بنیادوں پر ریلیف حاصل کر لیں۔

فیس بک پر فعال میرے جیسے اخبارنویسوں سے اکثر لوگ یہ سوال پوچھ رہے ہیں کہ کیا ڈیل ہوئی ہے اور اگر ہوئی تو اس کے خدوخال کیاہیں؟ بھئی سچی بات تو یہ کہ میرے پاس ڈیل کا کوئی ثبوت نہیں۔ تحریری معاہدہ بھی موجود نہیں۔ ڈیل کا لفظ ہماری عدالتیں پسند نہیں کرتیں۔ ان کا اعتراض درست ہے۔ اس لئے میں تو ڈیل کی اصطلاح استعمال نہیں کروں گا۔ پچھلے دنوں ایک اچھا، جامع لفظ سامنے آیا ہے، ارینجمنٹ۔ ڈیل کے بجائے ارینجمنٹ غیر رسمی لفظ ہے، اس میں ڈیل والی قطعیت اور سختی بھی نہیں۔ جنرل مشرف کے دور میں چودھری پرویز الہٰی وزیراعلیٰ پنجاب تھے۔ ان دنوں چودھریوں سے قریب سیاسی رپورٹر ایک اور اصطلاح" مینجمنٹ "استعمال کیا کرتے تھے۔ اس سے مراد بزنس مینجمنٹ نہیں تھی بلکہ یہ اصطلاح سیاسی جوڑ توڑ، پبلک ریلشنگ، تعلقات وغیرہ کے لئے استعمال کی جاتی تھی۔ کہا جاتا کہ چودھریوں نے اپنی مینجمنٹ سے فلاں فلاں کو ساتھ ملا رکھا ہے، پاور کاریڈورز میں اپنے ہم منشا نتائج حاصل کرتے ہیں، یا کہا جاتا کہ چودھریوں نے وائٹ ہائوس میں تعلقات مینیج (Manage) کئے ہیں، فلاں چودھری کے ذریعے امریکی صدر کے حلقہ اثر میں نفوذ کیا ہے وغیرہ وغیرہ۔ چودھریوں نے اپنی سیاسی مینجمنٹ کا ایک مظاہرہ ابھی حال ہی میں کیا، بلکہ مظاہرہ کرتے کرتے رہ گئے۔ لگتا ہے آخری مرحلے پر رکاوٹ آ گئی۔ یہ چودھریوں کا مخصوص طرز سیاست ہے، وہ ہمیشہ دائیں بائیں دیکھ کر اوپر والوں کی اشیرباد ہی سے آگے بڑھتے ہیں۔

قارئین کو یاد ہوگا کہ زرداری دور میں عدلیہ کی بحالی کے لئے میاں نواز شریف کے لانگ مارچ سے تھوڑا پہلے پنجاب کی حکومت ختم کر دی گئی تھی، کچھ دنوں کے لئے گورنرہائوس بہت فعال ہوگیا تھا۔ چودھری پرویز الہٰی ان دنوں مرکز میں وزیر تھے اور نائب وزیراعظم کہلانا پسند کرتے۔ ان کے منظورنظر چند مخصوص بیوروکریٹس کا پنجاب میں تقرر ہوا اور یوں لگ رہا تھا جیسے مسلم لیگ ن کی پنجاب میں اکثریت ختم ہوجائے گی۔ اچانک ہی سب کچھ ٹھس ہوگیا۔ بعد میں میاں صاحب نے اپنا مشہور لانگ مارچ نکالا جو گوجرانوالہ تک پہنچنے سے پہلے ہی روک دیا گیا کہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے ججوں کی بحالی کا ایگزیکٹو آرڈر جاری کر دیا تھا۔ باخبر صحافی روایت کرتے ہیں کہ جب بعد میں چودھری پرویز الہٰی سے پوچھا گیا کہ آپ نے اپنا کام پوری طرح کیوں نہیں کیا تھا، تو چودھری صاحب کا جواب تھا، مجھے اوپر سے روک دیا گیا تھا۔

ہماری سیاست اسی طرح کے ڈھکے چھپے، کچھ ظاہر، بہت کچھ پوشیدہ کھیلوں سے معمور ہے۔ اس لئے ڈیل ویل کو چھوڑئیے، ارینجمنٹ پر اپنی توجہ مرکوز رکھئیے۔ چاہیں تو بے شک اسے بھی رد کر دیں۔ بے شک یہ کہیں کہ میاں نواز شریف عزیمت کا پہاڑ ہیں، وہ کیسے کوئی ڈیل یا ارینجمنٹ کر کے ملک سے باہر جا سکتے ہیں؟ ان کا عزم فولادی، ارادے آہنی اورولولے اخیر قسم کے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب باتیں کہنے کی آپ کو اجازت ہے۔ براہ کرم ہمیں صرف یہ سمجھا دیجئے کہ اپنی بیماری کے دنوں میں میاں صاحب کا رویہ عجیب وغریب سا کیوں رہا، کچھ باتیں پراسراراور ناقابل فہم تھیں۔ مثال کے طورپر کوئی کیسے سمجھ سکتا ہے کہ مولانا فضل الرحمن کے مارچ اور دھرنے سے مسلم لیگ ن یوں بے نیاز اور لاتعلق رہے گی؟پاکستان کی سیاسی حرکیات میں ن لیگ کا یہ رویہ اجنبی اور سمجھ نہ آنے والا ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے مارچ شروع کیا، لاہور پہنچے تو ن لیگ کی قیادت غائب ہوگئی۔ میاں نواز شریف نے مولانا فضل الرحمن سے ملاقات نہ کی، شہباز شریف لاہور جلسہ میں شریک نہ ہوئے۔ اسلام آباد جلسہ میں شہباز شریف پہنچے مگراتنی عجلت میں تھے کہ تقریر کرتے ہی سٹیج سے اتر کر لاہور روانہ ہوگئے۔ اتنی عجلت کیوں؟ صرف اس لئے کہ کہیں سٹیج سے کچھ ایسا ویسا بول نہ دیا جائے، ایسے نعرے نہ لگ جائیں، جن کی ذمہ داری ان پرعائد ہو۔

اس لئے بھیا کچھ نہ کچھ ہوا تو ضرور ہے۔ میاں نواز شریف کی خاموشی، مریم نواز کا چپ رہنا بلا وجہ نہیں۔ ہاں انہیں اپنی بیماری سے فائدہ ضرور پہنچا۔ میاں نواز شریف کی سنگین بیماری البتہ یوں امنڈ کر آئی اور ان کی طبیعت میں ایسے اتار چڑھائو آئے کہ ہر ایک کو یہ خدشہ ہوا کہ خدانخواستہ میاں نواز شریف کو کچھ ہو نہ جائے۔ ایسی صورت میں سیاست کے اندر کئی نئی تلخ، کڑواہٹ بھری روایات قائم ہوجاتیں۔ اب ان کے باہر جانے کا جواز بھی بن گیا۔ جو مختلف آپشنز سامنے آئیں، ان میں سے میاں صاحب کی زندگی کولاحق خطرات والی آپشن بھی موجودتھی۔ ایسے میں یہی صورت بہتر اور منطقی نظر آتی ہے کہ میاں صاحب کو باہر جانے دینا چاہیے، وہ اپنا علاج کرائیں، صحت مند ہوں اور اس دوران سیاست کرنے کے بجائے خاموش رہیں۔ اگر وہ ایسا کریں تو پھر ان کی صاحبزادی کو بھی جانے دیا جائے۔ دونوں باہر کچھ عرصہ، سال دو گزاریں۔ ان کے مقدمات بھی موجود ہیں، سزائیں بھی ختم نہیں ہوئیں۔ ایک نہ ایک دن واپس آ کر سامنا کرنا ہی پڑے گا۔ ان کی عدم موجودگی میں سیاسی حدت اور تنائو کم ہو اور حکومت کو گورننس پر توجہ دینے کا موقعہ ملے۔

اس سب میں رکاوٹ سلمان شہباز کے فاتحانہ ٹوئٹ اور خواجہ آصف کی قومی اسمبلی میں حسب روایت ایک اور عاقبت نااندیشانہ تقریر نے ڈالی۔ ن لیگ کے ایک حلقے نے آخری مرحلے پر سیاست کرنے کی کوشش کی۔ ان کا خیال تھاوزیراعظم عمران خان پر سیاسی ملبہ ڈالا جائے اور انہیں ان کے اپنے دعوئوں کا اسیر بنایا جائے۔ جوابی طور پر تحریک انصاف نے بھی سیاسی کھیل کھیلا اور کہنا چاہیے کہ خاصی عمدگی سے کھیلا۔ انہوں نے نواز شریف صاحب کے باہر جانے سے پہلے شورٹی بانڈ کی شرط رکھ کر ن لیگ کی چال کو ناکام بنا دیا۔ یہ تاثر ختم کر دیا کہ حکومت نے ڈیل کی ہے اور عمران خان چاہ رہے کہ نواز شریف باہر چلے جائیں۔ اس کے بجائے یوں نظر آیا کہ عمران خان تو نواز شریف کو باہر جانے سے روکنا چاہ رہے ہیں۔ وہی ن لیگی میڈیا سیلز جو عمران خان کے خلاف ڈیل کر لی، ڈیل کر لی کا شور مچانے لگے تھے، اب اچانک ہی انہوں نے سیاسی انتقام کی دہائی ڈال دی۔ ایسے میں عدالت سے ریلیف ہی واحد چانس تھا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ سے چونکہ ضمانت پہلے مل چکی تھی، شورٹی بانڈلینے کی روایت بھی موجود نہیں تھی، اس لئے امکان یہی تھا کہ لاہو رہائی کورٹ ریلیف دے دے گی۔ وہی ہوا، مگر ہائی کورٹ نے میاں صاحب کی واپسی کی مدت رکھ دی، ان سے تحریری یقین دہانی بھی لی۔ فیصلہ مستحسن ہے کہ اب اس ایشو پر سیاست ختم ہوگئی، دوسرا علاج کے حوالے سے ریلیف بھی مل گیا۔ مجھے البتہ ن لیگ کے ان لیڈروں کے بیان پر شدید حیرت ہوئی، جنہوں نے کہا کہ حکومت نے پچاس روپے کا ایک سٹامپ رکھوا لیا ہے۔ کیا عدالت کے سامنے تحریری یقین دہانی صرف پچاس روپے کا سٹامپ پیپر ہے؟اگر ن لیگ ایسا سوچتی ہے تو یہ نہایت افسوسناک رویہ ہوگا۔ میاں صاحب نے اپنا "ورڈ آ ف آنر" دیا ہے اور صرف ورڈز نہیں بلکہ تحریری یقین دہانی کرائی ہے۔ اس کی غیر معمولی اخلاقی، قانونی، سماجی اہمیت ہے۔ بیان حلفی ہمیشہ چند روپوں کے سٹامپ پیپر پر ہوتا ہے، مگر اس کی حیثیت کاغذ کے ٹکڑے کی نہیں بلکہ اس میں زبان دی گئی ہوتی ہے، عدالت کے سامنے اقرار کیا جاتا ہے۔ وہ کاغذ کروڑوں، اربوں، کھربوں پر بھاری ہوتا ہے۔ ن لیگ والوں نے پچاس روپے کے سٹامپ پیپر کی بات کہہ کر میاں نواز شریف کے ساتھ بھلائی نہیں بلکہ ان کی توہین کی ہے۔ یہ تاثر پختہ کیا کہ میاں صاحب کی زبانی یا تحریری یقین دہانی بے معنی ہے۔ میاں نواز شریف یا شہباز شریف کو اس کا نوٹس لے کر ان لیڈروں کی سختی سے سرزنش کرنی چاہیے۔