کشمیر کا المیہ شدید ہوتا جار ہا ہے اور اب یہ بھی واضح ہوگیا بھارت پردبائو ڈالنے میں عالمی برادری سنجیدہ نہیں۔ امریکی صدر ٹرمپ اس حوالے سے تھوڑا بہت بات کر لیتے ہیں، مگر وہ بھی ثالثی سے زیادہ کی پیش کش نہیں کر رہے۔ اس کے پیچھے بھی ظاہر ہے ان کا افغانستان کا ایجنڈا ہے۔ صدر ٹرمپ کے لئے افغانستان بہت اہم ہے اور پاکستان کا دبائو ہے کہ کشمیر کے حوالے سے کچھ کیا جائے ورنہ ہمارے لئے افغان امن معاہدے پر فوکس کرنا ممکن نہیں رہے گا۔ امریکہ مگر ایسی پوزیشن میں بالکل نہیں کہ بھارت پر دبائو ڈال سکے یا اسے کسی بھی نوعیت کی دھمکی دے۔ بھارت اس کا سٹرٹیجک اتحادی ہے اور رہے گا۔ فرانس، برطانیہ تو ایک طرح سے بھارت کے اتحادی ہیں۔ چین نے پاکستان کے موقف کی حمایت کا اعلان کیا ہے، جو خوش آئند ہے۔ روس بھی بھارت کا دیرینہ اتحادی ہونے کے باوجود اس بار بھارت کی سائیڈ پر نہیں کھڑا۔ یہ توقع رکھنا درست نہیں کہ روس پاکستانی سائیڈ پر آ جائیگا۔ بھارت بڑی چالاکی سے وہ تمام سفارتی چالیں چل رہا ہے جس سے چین اور پاکستان میں فاصلہ پیدا ہوسکے۔ کہا جارہا ہے کہ بھارت لداخ کے حوالے سے چین کو کوئی چونکا دینے والی پیش کش بھی کر سکتا ہے جس سے دونوں ممالک کے مابین سرحدی مسئلہ ختم ہوجائے۔ اگر ایسا ہوا تو پھر چینی ردعمل دلچسپی کا حامل ہوگا، مگر ابھی یہ سب افواہیں ہی ہیں۔
کشمیر کے حوالے سے طویل عرصے تک مسلم دنیا سے خاصی طاقتور آوازیں اٹھتی رہی ہیں۔ اب او آئی سی جیسا ادارہ مردہ گھوڑا بن چکا ہے۔ عرب دنیا بھارت کے ساتھ بہت قریبی تجارتی، اقتصادی تعلقات قائم کر چکی۔ انہیں کشمیری مظلوم مسلمانوں سے کوئی دلچسپی نہیں اور نہ ہی وہ اسلام یا مظلومیت کی بنا پر اپنی کوئی پالیسی بناتے ہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو سعودی عرب، امارات، کویت، بحرین وغیرہ مصر کی ظالم اور سفاک حکومت کی اندھا دھند حمایت نہ کرتے۔ ان عرب ممالک کی حمایت اور پشت پناہی سے ہی مصری فوجی حکومت نے بیس پچیس ہزار اخوانی جیلوں میں ڈال دئیے اور کئی ہزار قتل کر ڈالے۔ جو ملک عربی بولنے والے اخوانیوں کی مدد کو کھڑے نہیں ہوئے، ان سے کشمیر پر کیا امید یا توقع رکھی جا سکتی ہے؟غزہ کے مظلوموں کے لئے ان عرب بادشاہوں نے کبھی ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ کشمیریوں سے تو ان کا کوئی لسانی رشتہ بھی نہیں۔ ترکی کے طیب اردوان البتہ پین اسلام ازم کے کسی حد تک موید ہیں، وہ غزہ کے فلسطینیوں کے لئے دبنگ لہجے میں آواز اٹھاتے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کے مظلوم کشمیریوں کے لئے طیب اردوان نے کھل کر بات کی ہے۔ ترکی بھی مگر بہت زیادہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ ملائشیا جیسے ممالک اگر بھارت کی کھلی حمایت نہیں کر رہے اور وزیراعظم مودی کووہاں بلا کر ایوارڈ نہیں دیتے تو اسے بھی پاکستان کی حمایت سمجھنا چاہیے۔ متحدہ عرب امارات نے تو مودی کو ایوارڈ دے کر بہت سوں کو مایوس کیا۔ یہ ہر لحاظ سے انتہائی افسوسناک اور عاقبت نااندیشانہ فیصلہ تھا۔ افسوس کہ ہم کھل کر سرکاری سطح پر احتجاج بھی نہیں کر سکتے۔
اہم ترین سوال یہ ہے کہ اب کیا کرنا چاہیے۔ جواب مشکل نہیں۔ ہمارے پا س آپشنز محدود ہیں۔ کشمیر کے حوالے سے ہمیں سفارتی محاذ پر ہی لڑنا پڑے گا۔ اگر مظلوم کشمیریوں کے کیس کوڈھنگ سے پیش کیاجائے تو کچھ نہ کچھ اثر پڑے گا۔ عالمی میڈیا کا کردار بہت اہم ہے۔ ایسا نہیں کہ وہاں ہر جگہ بھارتی صحافی موجود ہیں۔ کشمیر میں جو ظلم ہو رہا ہے اس کی تفصیل عالمی میڈیا میں شائع ہو تو مغربی دنیا میں رائے عامہ کا دبائو ان کی حکومتوں کو کچھ نہ کچھ کرنے پر مجبور کرے گا۔ حکمت اور ہنرمندی سے اگر اس ایشو کو" پاکستان بمقابلہ بھارت" کے بجائے "بھارتی مظالم بمقابلہ کشمیری عوام" والی مساوات سے سمجھایا جائے تو اس کا اثر زیادہ ہوگا۔
میڈیا ہی کے دو میدان اور بھی ہیں۔ فلم میکنگ اور دوسرا سوشل میڈیا۔ پاکستانی حکومت کو کشمیریوں کے مظالم کے حوالے سے موثر فلم میکنگ کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ دنیا میں ایسے اچھے ڈائریکٹرز موجود ہیں جو اس قسم کے انسانی ایشوز کو نمایاں کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ان کی مدد کی جا سکتی ہے۔ کچھ وسائل فراہم کرنے سے اگر کشمیر کے ایشو پر اچھی فلم بن جائے تو اس سے کشمیری کیس کو آگے بڑھانے میں مدد ہی ملے گی۔ شارٹ موویز کا معاملہ اور بھی آسان ہے، ان پر خرچ بھی نہیں ہوتا اور کئی زبانوں میں ڈبنگ بھی ہوسکتی ہے۔ ا ن شارٹ موویزکی رسائی مختلف پلیٹ فارم کے ذریعے دور دراز کے لوگوں تک ہوجائے گی۔ اوورسیز پاکستانی سوشل میڈیا کے حوالے سے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ امریکہ اور یورپ میں مقیم پاکستانی کشمیر یوں پر ہونے والے ظلم کو دور تک پہنچا سکتے ہیں۔ اس کے لئے انہیں تیار شدہ مواد چاہیے، چند منٹوںپر مشتمل موثر کلپس، انگریزی، فرنچ، جرمن اور دیگر زبانوں میں لکھی تخلیقی پوسٹیں جنہیں آسانی کے ساتھ آگے شیئر کیا جا سکے۔ سرکار سے امید رکھنا ہے تو بے وقوفی، لیکن وزارت اطلاعات، خارجہ یا کسی اور وزات میں اس حوالے سے کوئی مرکز بنا دیا جائے تو خاصا کام ہوسکتا ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں بھارت توظلم کر ہی رہا ہے، ہم اس کی مذمت اور اس کے خلاف دنیا بھر میں بیداری مہم ضرور چلائیں۔ کشمیر پرکچھ کرنے کاایک طریقہ آزاد کشمیر کے لوگوں کے لئے زیادہ سہولیات اور مراعات دینا بھی ہے۔ ان کے لئے مختص فنڈز بڑھانے، وہاں اعلیٰ معیار کے تعلیمی ادارے اور دیگر روزگار فراہمی کے تربیتی مراکز کھولنے کی ضرورت ہے۔ گلگت بلتستان کے عوام بھی طویل عرصہ سے محرومیوں کا شکار ہیں۔ ان کے لئے کسی بڑے پیکج کی شدید ضرورت ہے۔ میاں شہباز شریف نے لاہور میں اورنج ٹرین پراجیکٹ پرتین سو ارب روپے کے قریب پھنسا دئیے ہیں۔ لاہور میں ٹریفک کے مسائل دنیا کے دیگر بڑے شہروں کے مقابلے میں بہت کم ہیں۔ اس کے باوجود ٹرانسپورٹ کے نام پر اتنی بڑی رقم ضائع کر دی گئی۔ اس رقم کا چوتھائی حصہ یعنی پچاس ارب روپے ہی آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان پر خرچ کر دئیے جائیں تو وہاں غیر معمولی تبدیلی آ جائے گی۔ ہم کشمیریوں کو اپنا سمجھتے، ان سے محبت کرتے ہیں۔ انگریزی محاورے کے مطابق عمل الفاظ سے زیادہ بہتر بولتا ہے۔ ہمیں آزاد کشمیریوں کے رہائشیوں کی زندگی سہل اور آرام دہ بنانی چاہیے۔ باہر سے آنے والوں کو بھارت کے شکنجے میں جکڑے کشمیریوں اور پاکستان کے ساتھ تعلق میں جڑے آزاد کشمیر کے مکینوں میں واضح فرق ازخود نظر آئے۔ بھارت کے ساتھ اس وقت جنگ کے ہم متحمل نہیں ہوسکتے۔ اگر حملہ ہوجائے تو پھر ظاہر ہے کوئی اور آپشن نہیں۔ پھر تو اپنی پوری قوت اور وسائل کے ساتھ لڑنا چاہیے اور وہ جنگ ایسی ہو کہ آئندہ دشمن کو حملہ کرنے کی جرات نہ ہو۔ یہ تو مگر دفاعی جنگ ہوگی۔ پاکستان کے لئے سردست ممکن نہیں کہ بھارت پر حملہ کر دے۔ ایک کام ہمیں کرنا چاہیے کہ بھارت کو مستقل بنیاد پر اپنا دشمن مان لیں۔ اگر مگر چونکہ چناچہ سے باہر آ کر بھارت کو اپنا دشمن نمبر ون تسلیم کر لینا چاہیے۔ بھارت کے حوالے سے ہم دو تین باتیں طے کر لیں۔ بھارت کے ساتھ تجارت نہیں کرنی۔ کشمیریوں کے لہو پر کی گئی تجارت پر لعنت بھیج دینی چاہیے۔ ہمیں بھارت سے مذاکرات کی بھیک نہیں مانگنی چاہیے۔ اس حوالے سے واضح پالیسی اپنا لینی چاہیے۔ کرکٹ کے حوالے سے پاکستانی کرکٹ بورڈ کا ماضی کا کردار شرمناک رہا ہے۔ بار بار ان سے سیریز کھیلنے کی کوششیں کی جاتی رہیں۔ اب اس پر بھی یکسو ہوجائیں۔ بھارتی فلموں کی پاکستان میں نمائش مکمل طور پر اور ہمیشہ کے لئے ختم کر دی جائیں۔ اس سے یقینا پاکستانی سینماہائوسز کو نقصان پہنچے گا۔ اس کی تلافی کی کوئی بھی صورت نکال لینی چاہیے۔ سینما ہائوسز پر تفریحی ٹیکس ختم کر دیں، نئے فلمسازوں کی حوصلہ افزائی کریں، انہیں سہولتیں دیں، انہیں آسان قرضے بھی دئیے جا سکتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ بھارتی اداکاروں کو کسی بھی صورت میں پاکستانی اشتہارات میں کام نہیں کرنا چاہیے۔ آسان لفظوں میں یہ سمجھ لیجئے کہ اس وقت جو اسرائیل کا سٹیٹس ہے، بھارت کے ساتھ عملاً وہی سٹیٹس اپنانا چاہیے۔ دنیا کو ہماری سنجیدگی کا تب علم ہوگا جب ہم اپنے رویے سے اس کا اظہار کریں گے۔ ہم ڈھلمل پالیسی بنائیں گے تو دوسرے بے وقوف نہیں کہ ہماری خاطر بھارت سے بگاڑپیدا کر لیں۔
سب سے اہم یہ کہ ہمیں اپنے آپ کو طاقتور بنانا ہے۔ بھارت کے ساتھ ایک بڑی، فیصلہ کن جنگ ہمارا مقدر ہے۔ جب تک ٹال سکتے ہیں، ٹالنا چاہیے اور اس دوران اتنی قوت حاصل کریں کہ اس جنگ میں ہماری یقینی فتح ہو۔ اپنی عسکری صلاحیت بڑھانے کے ساتھ اصل کام معاشی استحکام ہے۔ بھارت بڑی معاشی قوت ہے، اس لئے اس کے ساتھ ہرملک کا رویہ مختلف ہے۔ پاکستان اپنے دوستوں کے آگے کشکول پھیلانے کے بجائے ان کی مدد کرنے کے قابل ہو، تب ان کا رویہ بھی یقینی طورپر مختلف ہوگا۔ ہمیں دوستوں کے رویے سے زخم لگے، یہ گھائو دل میں چھپا کر رکھیں، انہیں اپنی قوت بنائیں۔ مناسب وقت کا انتظار کریں۔ جب دشمن سے سب حساب چکائے جائیں گے، تب ہمارے دوست بھی فخریہ ساتھ کھڑے ہوں گے۔ مضبوط پاکستان صرف کشمیریوں کے لئے نہیں بلکہ ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے بھی تقویت کا باعث بن سکتا ہے۔ اس کے سوا باقی سب کہانیاں ہیں بابا۔