کسی موضوع پر ایک سے زیادہ کالم لکھنا پسند نہیں، مجبوری کے عالم میں ایسا کرنا پڑے توکوشش ہوتی ہے کہ اس موضوع کے مختلف پہلوئوں پر الگ الگ مکمل کالم لکھ دئیے جائیں۔ جس زمانے میں پی ٹی وی شوق سے دیکھا کرتے، ان دنوں مختلف سٹیشنوں سے سلسلہ وار ڈرامہ سیریل نشر ہوتے، کبھی کبھار مکمل ڈراموں کی سیریز بھی چلتی۔ اندھیرا اجالا، الف نو ن جیسے مقبول ڈرامے سیریز کی شکل ہی میں تھے، مستقل کردار، مگر ہر بار نئی کہانی۔ اندھیرا اجالا میں تو سیٹ بھی ہر بار ایک ہی ہوتا، تھانے کا منظر جس میں ڈائریکٹ حوالدار عرفان کھوسٹ اپنی مخصوص مسکراہٹ، گھٹی گھٹی آواز اور دیسی پولسیے کے گیٹ اپ میں ہوتے، جمیل فخری انسپکٹرجعفر حسین کے روپ میں اپنی توند سنبھالتے ہوئے جبکہ محمدقوی خان سمارٹ، چاق چوبند پولیس آفسر (ڈی ایس پی)کے طورپر ملتے۔ ڈرامہ سیریز دیکھنا زیادہ اچھا اس لئے لگتا کہ اس میں پچھلی قسط کے بارے میں سوچنے کی ضرورت نہ پڑتی۔ جو کچھ ہے، وہ ایک ہی ڈرامے میں آ گیا۔ میں نے بھی سلسلہ وار کالم لکھنے کے بجائے جب کبھی ضرورت پڑی، اسی سیریز والے نسخے کو آزمایا۔ فائدہ یہ ہوا کہ جو اس پورے سلسلے کو پڑھ رہا، اس کے سامنے تمام کڑیاں اور پہلو آ گئے، جس کسی نے ایک کالم پڑھا تو اسے اس ایشو کے ایک ٹکڑے کا اندازہ تو ہوہی گیا۔ عمران خان پر اس سیریز کا یہ پانچواں اور آخری کالم ہے۔ پہلا کالم سترہ ستمبر، دوسرا اٹھارہ ستمبرجبکہ تیسرابیس، چوتھا بائیس ستمبر کو شائع ہوا۔ دلچسپی رکھنے والے قارئین اخبار کے انٹرنیٹ ایڈیشن سے پرانے کالم دیکھ سکتے ہیں۔
عمران خان کی کمزوریوں کا تذکرہ خاصی تفصیل سے ہوا۔ اپنی حکومت کے پہلے سال میں انہوں نے کیا کھویا، اس پر بات ہوگئی۔ ایک سال میں انہوں نے کیا پایا یعنی حاصل کیا، اس پر البتہ کچھ بات ہونی چاہیے۔ ویسے سچ تو یہ ہے کہ اصل فقرہ یہ بنتا ہے، "عمران خان ایک سال میں کیا بچا پائے؟"سودوزیاں کی اس حکایت میں نرا نقصان ہی نقصان نظر آ رہا ہے۔ خاصی گہری نظر سے جائزہ لینے اور بھرپو غوروخوض کے بعد ہم نے بعض نکات بہرحال ڈھونڈ ہی نکالے، جسے عمران خان کے حق میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ (یہ جملہ اگر سوشل میڈیا پرلکھتا تو اس کے آخر پر سمائلی کانشان یا ایموجی ضرور ڈالتا۔ اخبار میں یہ سہولت میسر نہیں، پڑھنے والے ازخودایسا کرسکتے ہیں۔)
عمران خان کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ اقتدار کے پہلے سال اور تمام تر ہنگامہ خیزی میں انہوں نے اپنی شخصی دیانت اور کریڈیبلٹی کو محفوظ رکھا۔ خان صاحب کا یہ سب سے بڑا اثاثہ ہے۔ اس برے دور میں بھی عمران خان کی دیانت اورمالی کرپشن میں ملوث نہ ہونا ہی ایک ایسا فیکٹر ہے جو تحریک انصاف کے کارکنوں کے لئے اطمینان اور راحت کا باعث ہے۔ عمران خان کی شخصی ایمانداری کے حوالے سے ماضی میں جب بات کی جاتی تو ان کے سیاسی مخالفین، خاص کر مسلم لیگ ن والے یہی تبصرہ کرتے کہ انہیں اقتدار ملے گا تب ہی اندازہ ہو پائے گا؟ عمران خان کی آزمائش جاری ہے، پہلے سال میں مگر انہوں نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ تمام تر مادی وسائل اور اختیارات ہاتھ میں ہونے کے باوجود وہ پیسے کمانے، کک بیکس لینے یا ٹرانسفر، پوسٹنگ کے ذریعے کروڑوں روپے اکٹھے کرنے اقتدار میں نہیں آئے۔
ہمارے ہاں وزراعظم کی ترجیحات کا پتہ ان کی نامزدگیوں سے چل جاتا ہے۔ بعض وزارتوں میں پیسہ زیادہ ہوتا ہے، وہاں سے بڑے ٹھیکوں یا دیگر معاملات میں لمبے ہاتھ مارے جا سکے ہیں۔ ایسی وزارتوں مخصوص لوگوں کے حصے میں آتی ہیں، جو کمال مہارت سے کمائی کر کے "صاحب "کا حصہ ان تک پہنچا دیتے ہیں۔ نواز شریف صاحب کے ادوار میں مواصلات کی وزارت خیبر پختون خوا کی ایک اتحادی جماعت کے لیڈر کو ملتی تھی جو بعد میں اس پارٹی کی وہاں صوبائی حکومت کے زمانے میں بابا ایزی لوڈ کے نام سے بھی مشہور ہوئے۔ زرداری صاحب کے اپنے فرنٹ مین تھے۔ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کے بارے میں تو بہت کچھ سامنے آ چکا۔ کئی شوگر ملیں ان کے نام تھیں، بعد میں انہی پر جھگڑے ہوئے اور بہت کچھ منظرعام پر آیا۔ ہمارے فورم سی این اے (کونسل آف نیشنل افیئرز )کے ایک باخبر ممبر سندھ میں ملازمت کرتے رہے، آتے جاتے رہتے تھے۔ ایک دن انہوں نے بڑی تفصیل سے مختلف نام لے کر بتایا کہ کس طرح پانچ ارب سالانہ منافع دینے والی سٹیل مل کو"نچوڑنے "کے لئے زرداری صاحب نے ایک مخصوص شخصیت کو اس کا مدارالمہام بنایا، اس نے آگے مختلف تقرریاں کیں، اچھی شہرت رکھنے والے افسروں کو ہٹایا، کرپٹ لوگوں کو ذمہ داریاں دیں اور صرف سال ڈیڑھ کے اندر منافع کمانے والی سٹیل ملز پر اربوں روپے حکومت کا خرچ اٹھنے لگا۔ اس سب میں بڑے صاحب کو جو جاتا، وہ بوریوں کے حساب سے تھا۔
عمران خان کی غلط سلیکشن اور بری تقرریاں اپنی جگہ، مگر کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ فلاں شخص کو اتنے کروڑ لے کر گورنر یا وزیراعلیٰ بنایا گیا یا فلاں سی ایم یا وزیر کو اس لئے وزارت ملی کہ وہ پیسے کمائے اور خان صاحب کو حصہ پہنچائے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ کسی بھی جانب سے اس طرح کا جھوٹا الزام بھی سامنے نہیں آیا۔ ورنہ جھوٹا الزام لگانے کے لئے کون سے ثبوت درکار ہوتے ہیں، صرف تھوڑی سی ڈھٹائی اور بے شرمی چاہیے۔ اس کی ہمارے ہاں کمی نہیں۔ کریڈیبلٹی یہی چیز ہے کہ کوئی جھوٹا الزام لگانے کی بھی ہمت نہ کر سکے۔ جیسے پانچ سال کے پی میں تحریک انصاف کی حکومت رہی، کوئی سرکاری افسر، ناراض صوبائی وزیر یا باغی رکن اسمبلی بھی عمران خان پر براہ راست کرپشن کا الزام نہیں لگا سکا۔ کسی نے یہ نہیں کہا کہ مجھے بنی گالہ بلا کر انہوں نے حصہ مانگا، فلاں جائیداد اپنے نام لگانے کی بات کی، پارٹی فنڈ کے نام پر کروڑوں کا مطالبہ کیا یا اسی طرح کی کوئی بات۔ پاکستانی سیاست میں مالی کرپشن کے حوالے سے ایسی مثالیں صرف جماعت اسلامی میں ملتی ہیں۔ ہم نے جماعت کے تین امیروں کو تو خود دیکھا ہے۔ مولانا مودودی تو خیر میرے نرسری سکول کے زمانے میں انتقال کر گئے، میاں طفیل محمد کے دور میں طالب علم تھا، قاضی حسین احمد، سید منور حسن اور سراج الحق کے ادوار بطور صحافی دیکھے۔ کسی کو جھوٹا الزام لگانے کی بھی ہمت نہیں ہوئی۔ ایسی ایماندار، شفاف شخصیت خال ہی ملتی ہے۔ ہمارے مذہبی حلقوں میں بعض اور ممتاز نام بھی ملتے ہیں۔ مولانا نورانی، مولانا عبدالستار نیازی بھی ایسے ہی اجلے سیاستدان تھے۔ مولانا عبدالحق آف اکوڑہ خٹک، مولانا سراج دین پوری، مولانا درخواستی جیسے جگمگاتے کردار بھی ہمارے ہاں رہے، دیگر مثالیں بھی موجود ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کے حوالے سے کرپشن ثابت تو نہیں ہوئی، مگر ان پر باتیں بہت ہوتی رہی ہیں۔ ایک ناپسندیدہ لیبل بھی ان کے نام کے ساتھ چسپاں رہا۔ ممکن یہ سب کہانیاں ہوں، غلط ہوں، مگر بہرحال الزام تو لگے۔ عمران خان پر مالی کرپشن کا الزام لگا نہ ہی ان کی کریڈیبلٹی متاثر ہوئی۔
عمران خان کی دوسری کامیابی یہ ہے کہ پارٹی پر ان کی گرفت مضبوط رہی۔ عثمان بزدار ایک ایم پی اے ہی ہیں، کوئی دوسرا شائد ان کا حامی بھی نہ نکلے، تحریک انصاف پنجاب کے تمام طاقتور گروپ ان سے نالاں ہیں، مگر چونکہ عمران خان کی چوائس ہیں، اس لئے کوئی کچھ نہیں کر پا رہا۔ یہی حال باقی صوبوں کا ہے۔ تنظیم نام کی نہیں، لیڈروں، کارکنوں کے کئی دھڑے ہیں، مگر پارٹی کا لیڈر صرف عمران خان ہی ہے۔ اسی لئے کسی سنجیدہ، باخبر مبصر سے شاہ محمود قریشی کے نام کے حوالے سے اڑائے جانے والے مفروضوں پر بات ہوئی تو ایک ہی بات ہوتی ہے کہ تحریک انصاف سنبھالنا ان کے بس کی بات نہیں۔ یہ پارٹی صرف عمران خان ہی چلا سکتے ہیں، ان کے بغیرووٹ بینک بھی صفر ہے۔
عمران خان کی تیسری اور اہم ترین کامیابی یہ ہے کہ انہوں نے طاقت کے مراکزکے ساتھ بنا کر رکھی ہے۔ ان کے بارے میں یہ ہلکا سا تاثر موجود تھا کہ اقتدار ملنے کے بعد وہ بھی نواز شریف ثابت ہوں گے اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ عمران خان نے بڑی دانش مندی اور تدبر کے ساتھ ایک ہی پیج پر کھڑے ہونے کا مثالی مظاہرہ کیا ہے۔ ممکن ہے اس پر کوئی تنقید کرے، اسے سویلین سپرمیسی سے متضاد رویہ قرار دے، عمران خان کی سوچ مگر عملیت پسندانہ اور معروضی زمینی حقائق سے ہم آہنگ ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ پیپلزپارٹی، ن لیگ، اے این پی، بلوچستان کے بلوچ، پشتون قوم پرست، جے یوآئی، حتیٰ کہ ایم کیو ایم بھی ان کی فطری اتحادی ہونے کے بجائے مخالف ہیں۔ ایسے میں اگر وہ اسٹیبلشمنٹ سے بھی بگاڑ بیٹھیں تو پھر پیروں تلے سے ریت کھسکتے دیر نہیں لگے گی۔ عمران خان نے اب تک سمجھداری کا مظاہرہ کیا اور کئی سیاسی غلطیاں کرنے کے باوجود اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مثالی قسم کی مفاہمت اور تعاون کے ساتھ چل رہے ہیں۔ خان صاحب کے بلنڈرز کے باوجود یہی کامیابیاں انہیں لائف لائن دلوانے کا باعث ہیں۔ ان کے پاس وقت موجود ہے، وہ اپنی ٹیم میں تبدیلیاں کریں، گڈ گورننس پر توجہ دیں، اپنے کاموں کی موثر انداز میں تشہیر کر کے عوام میں مثبت تاثر بناسکتے ہیں۔ حکومتوں کا تاثر یا امپیکٹ بہت اہم ہوتاہے۔ یہی ان کی کامیابی یا ناکامی کا ضامن ہے۔ عمران خان کو یہ بنیادی بات سمجھنا ہوگی۔