Thursday, 28 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Imran Khan Ki Nakami. Wajah Kya Hai?

Imran Khan Ki Nakami. Wajah Kya Hai?

چند دن پہلے کتابوں کی ایک نمائش میں گیا۔ اس پر کالم بھی لکھا تھا۔ کتابیں خریدنے کے بعد ادائیگی کے لئے قطار میں لگ گیا۔ خاصی طویل قطار تھی۔ کچھ دیر انتظار کرنا پڑا۔ پیچھے کھڑے دو نوجوان وقت گزاری کی خاطر گفتگو کر رہے تھے۔ نہ چاہتے ہوئے بھی ان کی باتیں سننا پڑیں۔ دونوں نوجوانوں نے پچھلے سال انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کو ووٹ دیا تھا۔ عمران خان کے لئے وہ حسن ظن رکھتے اور شریف خاندان سے سخت نالاں تھے۔ نرم گوشے کے باوجود انہیں تشویش تھی کہ عمران خان کی ناقص گورننس سے کاروبار بالکل تباہ ہوگیا ہے۔ ایک کا تعلق کنسٹرکشن سے جبکہ دوسرا آئی ٹی کے حوالے سے ساماں منگوانے کے شعبہ سے تعلق رکھتا تھا۔ تعمیرات کے شعبے والا بتا رہا تھا کہ مارکیٹ بالکل بیٹھ گئی ہے، نئے پراجیکٹ شروع ہو رہے ہیں نہ ہی خریدار موجود ہیں۔ کہنے لگا پچھلے دس پندرہ برسوں میں ایسی بری صورتحال کبھی نہیں دیکھی گئی۔ دوسرا نوجوان ڈالر کی قیمت میں غیر معمولی اضافے پر دلبرداشتہ تھا، جس کے باعث ان کا شعبہ برباد ہوگیا۔ کہنے لگا کہ ڈالر کی پرواز کی وجہ سے صرف ہماری نہیں بلکہ بہت سے شعبوں کی مارکیٹ شدید متاثر ہوئی ہے۔ میں نے کنسٹرکشن والے نوجوان سے پوچھا کہ وجہ کیا ہے؟ کہنے لگا، مارکیٹ میں کیش فلو ہے ہی نہیں۔ حکومت نے کئی بڑے پراجیکٹس کی پیمنٹس روکی ہوئی ہیں۔ بلڈرز کے پاس پیسہ ہی نہیں تو وہ اگلے پراجیکٹس کہاں سے شروع کریں؟

اس سے ملتی جلتی کہانیاں ہر جگہ سننے میں مل رہی ہیں۔ جہاں جائو کوئی نہ کوئی دل گرفتہ شخص اپنی پریشان کن کہانی لئے مل جائے گا۔ دو تین دن پہلے ایک جاننے والے نے بتایا کہ فیڈ کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافے سے پولٹری انڈسٹری تباہ ہوگئی ہے، کئی کئی ہزار مرغیوں کے شیڈ والے رُل گئے ہیں اور ان کے خرچے پورے نہیں ہو رہے۔ اگلے روزمجھے کہیں جانا تھا، گاڑی کی عدم دستیابی کی وجہ سے کریم منگوائی۔ اس کا کیپٹن( ڈرائیور )نہایت معقول صورت، خاصا کھاتا پیتا آدمی لگ رہا تھا۔ چند منٹ بعد تصدیق ہوگئی۔ بتانے لگے کہ میرا رئیل اسٹیٹ کا بزنس ہے، کاروبار آج کل بالکل ہی نہیں چل رہا تو مجبوراً کریم چلانی پڑ رہی ہے۔ گاڑی اپنی ہے، جب کبھی کسی کلائنٹ کا فون آ جائے تو کریم کا کنکشن فون بند کر کے پلاٹ دکھانے چلا جاتا ہوں، ورنہ گاڑی چلاتے رہتے ہیں کہ چلو دال روٹی ہی چلتی رہے۔

مجھے اندازہ ہے کہ اس قسم کی باتوں پر حکومتی موقف کیا ہے، تحریک انصاف کے بہت سے لوگ میری فیس بک ٹائم لائن میں شامل ہیں، ان میں سے بعض نوجوان عرق ریزی سے حکومتی اقتصادی پالیسیوں کے فیوض وبرکات بیان کرتے رہتے ہیں۔ معاشیات میرا مضمون نہیں۔ یہ سادہ بات مگر جانتا ہوں کہ اگر خلق خدا پریشان اور تنگ حال ہے تو حکومتی پالیسی میں غلطی ضرور ہے۔ آپ بازار خریداری کے لئے جائیں۔ مہنگائی کی خوفناک لہر سے واسطہ تو پڑے گاہی، مگر بیشتر جگہوں پر دکاندار سفاکانہ مسکراہٹ کے ساتھ یہ جملہ ضرور بولیں گے، "نیا پاکستان ہے، اب یہ ریٹ برداشت کریں۔ "۔ بعض کہہ دیتے ہیں کہ ووٹ ہم نے بھی عمران خان کو دیا تھا، مگر اب پچھتا رہے ہیں۔ بال کٹوانے جانا پڑے، سفر میں کسی انتظار گاہ میں کچھ وقت گزارنا مطلوب ہو، ہر جگہ عوام سخت مایوس، دلبرداشتہ نظر آتے ہیں۔ اگر غلطی سے کسی کاروباری فرد سے واسطہ پڑ جائے، امپورٹ ایکسپورٹ سے اس کا تعلق ہو تو پھر ان کی تلخ کلامی دیدنی ہوتی ہے۔ ایک تاثر ہر جگہ واضح، غیر مبہم انداز میں ملے گا کہ حکومت ناکام ہوچکی۔ عمران خان نہ صرف ناکام ہوئے بلکہ بری طرح ناکام۔ یہ ٹکڑا بھی لازمی شامل ہوگا کہ مستقبل قریب یا بعید میں بہتری کی بھی کوئی امید نہیں۔

گزشتہ روز ہارون الرشید صاحب نے اپنے کالم میں عمران خان کی ناکامی کا جائزہ لیا۔ تین اسباب گنوائے، " عمران خان سیاست کو نہیں سمجھتا، معاشیات تو زیادہ پیچیدہ موضوع ہے، دوسراپہلے دن سے وہ ادنیٰ مشیروں میں گھرا ہے اوروقت گزرنے کے ساتھ ان مشیروں کی علمی، اخلاقی سطح گرتی جا رہی ہے، ناقص سیاست دان، ناقص سول سرونٹ۔ تیسراعمران بری طرح اپنی برگزیدگی کے زعم میں مبتلا ہے، اس کا خیال ہے کہ اللہ کے کچھ منتخب بندے ہوتے ہیں، یقینا ہوتے ہیں، مگر ایک بات عمران نہیں سمجھ سکا کہ ان چُنے ہوئے لوگوں کو قوانین قدرت سے استثنا نہیں دیا جا سکتا۔ تجزیہ ناقص ہو تو عمل بے ثمر۔ اپنی ذات سے اوپر اٹھنا ہوتا ہے، وہ نہیں اٹھ سکتا۔ ابھی تک نہیں اٹھ سکا۔ "

ہارون صاحب کے تجزیے سے مکمل اتفاق ہے، ایک دو افسوسناک اضافوں کے ساتھ۔ عمران خان کی ٹیم میں شامل بعض لوگ بظاہر دیکھنے میں معقول لگ رہے تھے، مگر انہوں نے شدید مایوس کیاجیسے ڈاکٹر یاسمین راشد۔ کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ وہ مکمل طور پر ناکام ہوجائیں گی۔ اسی طرح شفقت محمود، ڈاکٹر شیریں مزاری وغیرہ سے بھی کچھ بہتر امیدیں تھیں، انہوں نے رَج کر ہرایک کو مایوس کیا۔ عمران خان کی اصل غلطی مگر ٹیم کے انتخاب میں کی گئی تباہ کن غلطیاں ہیں۔ جو لوگ پہلی نظر ہی میں اہل نہیں لگتے، جن سے منطقی طور پر کوئی توقع نہیں کی جا سکتی تھی، انہیں اہم ترین ذمہ داری سونپ دینا توسمجھ سے بالاتر ہے۔ پچھلی نشست میں ذکر آیا، مکرر عرض ہے کہ پنجاب میں متحرک، فعال، اہل وزیراعلیٰ کے بغیر وزیراعظم ڈیلیور نہیں کر سکتے۔ کمزور، اوسط سے کم درجے کی صلاحیت رکھنے والا وزیراعلیٰ منتخب کر کے کوئی بھی وزیراعظم بہتر نتائج کی توقع نہیں کر سکتا۔ پنجاب عملی طور پر نصف سے زیادہ پاکستان ہے۔ اتنے بڑے صوبے کی گورننس شہباز شریف جیسے جنوں والی انرجی رکھنے والے شخص سے بھی نہیں ہوسکی۔ شہباز شریف عثمان بزدار سے سو گنا زیادہ متحرک، فعال اور بیدار مغز تھے، اپنی پسند کے بیوروکریٹ بھی اکٹھے کر لئے، قوانین میں تبدیلیاں کر کے اپنی من پسند پالیسیوں پر عمل کرنے کی گنجائش پیدا کر لی۔ اس کے باوجود کامیاب نہیں ہوسکے کیونکہ موصوف ون مین شو کے حامی، اختیارات نیچے منتقل کرنے کے قائل نہیں تھے۔ ویژن بھی محدود تھا اورنچلی بیوروکریسی میں اعتمادبھی پیدا نہ کر سکے۔ عمران خان سے توقع تھی کہ وہ ماڈرن مینجمنٹ کو سمجھنے، سوشل سیکٹرز پر توجہ دینے والے کسی متحرک، مستعد شخص کا انتخاب کریں گے۔ چلیں تجربہ کار نہ سہی، مگر اس میں پوٹینشل تو ہو، انرجی اور کچھ کر دکھانے کا عزم رکھتا ہو۔ جو اضلاع میں اچھے، دیانت دار انتظامی اور پولیس افسران لگائے۔ رائٹ پرسن فار دی رائٹ جاب۔ اس سادہ اصول پر عمل کرنے والا ایک سمجھدار، دیانت دار وزیراعلیٰ پنجاب کو درکار تھا۔ عمران خان نے کس کا تحفہ دیا، عثمان بزدار۔ انہیں شائد ابھی تک یہ بھی معلوم نہیں ہوسکا کہ وہ ایوان اقتدار میں کیا کرنے آئے ہیں؟ سرائیکی وسیب سے منتخب کیا گیا، مگر وہ خود کو سرائیکی کہلانا بھی پسند نہیں کرتے۔ انہیں سرائیکی وسیب کی سب سے پسماندہ تحصیل تونسہ کے رکن اسمبلی کے طور پر منتخب کیا گیا۔ سرائیکیوں کے ساتھ وفا تو نبھائیں۔ بزدار صاحب پنجاب کے لئے تو کیا کر تے، سرائیکیوں کے لئے بھی کچھ نہیں کر سکے۔ انہیں یہ تک نہیں معلوم کہ سرائیکی خطے کے لئے پراجیکٹ شروع کرنا الگ ہے اور سرائیکی بولنے والے عوام کے دل کو چھونے کے لئے کیا کرنے کی ضرورت ہے؟سرائیکی زبان، ادب، سرائیکی کلچر کے لئے انہوں نے کچھ نہیں کیا۔ وہ کر بھی نہیں سکتے۔ وہ تو اپنی آبائی تحصیل تونسہ کو ضلع بنانے کی جرات نہیں کر سکے۔ صوبے کی سب سے پسماندہ تحصیل ہے، ڈی جی خان سے نوے کلومیٹر کے فاصلے پر واقع۔ ضلع بننا تونسہ کا حق ہے۔ سنٹرل پنجاب میں کئی اضلاع پندرہ بیس منٹ کے سفر کے بعد شروع ہوجاتے ہیں، منڈی بہائوالدین، حافظ آباد، ننکانہ وغیرہ۔ بہاولپور ڈویژن ایسا بدنصیب علاقہ ہے جہاں ایک ضلع دوسرے سے دو ڈھائی گھنٹے کے فاصلے پر واقع ہے۔ لاہور سے فیصل آبادکی مسافت سمجھ لیں۔ پچاس برسوں سے وہی تین اضلاع بہاولپور، بہاولنگر، رحیم یار خان ہیں۔ کسی نے نئے اضلاع بنانے کی زحمت نہیں کی۔ احمد پورشرقیہ قدیمی تحصیل ہے، نوابان بہاولپور کا مسکن۔ ہر اعتبار سے اسے ضلع بننا چاہیے۔ اسی طرح خان پور تاریخی شہر ہے، اسے ضلع بنانا چاہیے۔ بہاولنگر میں چشتیاں کو ضلع بنایا جا سکتا ہے۔ گوجرانوالہ چھ اضلاع پر مشتمل ڈویژن ہے، بہاولپور بھی چھ اضلاع پر مشتمل ہوسکتا ہے۔

تھل ڈویژن تھل کے لوگوں کی دیرینہ خواہش ہے۔ ظلم ہی ہے کہ بھکر، میانوالی، نور پور تھل وغیرہ سرگودھا ڈویژن جبکہ لیہ ڈی جی خان ڈویژن میں ہے جبکہ جھنگ موڑ فیصل آباد ڈویژن میں۔ لیہ والوں کو اتنا دور ڈویژنل ہیڈ کوارٹر جانا پڑتا ہے۔ تھل ڈویژن بننا چاہیے جس کا مرکز لیہ یا میانوالی بنا دیں، جھنگ موڑ اور کچھ دیگر علاقے بھی اس میں آ سکتے ہیں۔ کیا یہ باتیں وزیراعلیٰ نہیں سمجھ سکتے؟ ان کے لئے آخر کس قدر پیسوں کی ضرورت ہے؟ چلیں سرائیکی یا جنوبی پنجاب صوبہ بنانے میں فنڈز کا مسئلہ آ رہا ہوگا یا پھر پنجاب اسمبلی سے منظوری کے مراحل درپیش ہوں گے، نئے اضلاع بنانے میں تاخیر کیوں؟ سرائیکی ادبی بورڈ، ایم اے سرائیکی والوں کے لئے کالجوں میں نشستیں، بورڈ میں ایف اے آپشنل سرائیکی کی منظوری میں کیا ممانعت ہے؟

عمران خان نے کرکٹرمنصور اختر کو قوم ٹیم میں شامل رکھنا اپنی انا کا مسئلہ بنایا۔ اگر وہ عثمان بزدار اور اسی قبیل کے دیگر ناکام ہونے والوں کے لئے بھی یہی سوچیں گے تو پھر بدترین ناکامی سے انہیں کوئی نہیں بچا سکتا۔