Iss Qaflay Ka Hissa Banain
Amir Khakwani251
بعض دن، بعض لمحے اپنے اندر کچھ ایسے احساسات سمولیتے ہیں کہ جب بھی ان کا خیال آئے، یادوں کا ایک نخلستان لہلہانے لگتا ہے۔ آدمی کبھی انہیں بھلا نہیں سکتا۔ یہ لمحات کبھی مسرت انگیز ہوتے ہیں اورکبھی یہ سینے کو دکھ سے بھر دینے کی قوت سے مالامال۔ پچیس تیس سال پہلے کا وہ دن بھی مجھے بھلائے نہیں بھولتا۔ ان دنوں ڈبل میتھ، فزکس کے ساتھ بی ایس سی کر رہا تھا۔ معلوم نہیں آج کل کیا حال ہے، مگر ہمارے دنوں میں تو بی ایس سی میں داخلہ ہارے ہوئے، شکست خوردہ طلبہ ہی لیا کرتے۔ جن کا ایف ایس سی میں انجینئرنگ، میڈیکل کا میرٹ نہ بن پاتا۔ بہت زیادہ نمبر نہ لے پانے کا داغ سینے میں لئے، اپنے زخموں کو چاٹتے ہوئے بی ایس سی یا زیادہ دلبرداشتہ بی اے کرتے۔ احمد پورشرقیہ کے جس واحد ڈگری کالج سے میں نے گریجوایشن کیا، وہاں ڈگری کلاسز کو شروع ہوئے چند برس ہی ہوئے تھے۔ ان دنوں یہ عام رواج تھا کہ جس بھلے مانس نے میتھ، فزکس، کیمسٹری میں ایم ایس سی کے بعد لیکچرر شپ کا آغاز کرنا ہوتا، اس کا ابتدائی تجربہ گارہ احمد پورشرقیہ یا لیاقت پورکے طلبہ ہی بنتے۔ نوواردلیکچرارہم جیسے مسکین طلبہ پر ہاتھ صاف کر کے کچھ تجربہ حاصل کرتے اور پھر بہاولپور یا جس شہر سے اس کا تعلق ہوتا، وہاں لوٹ جاتے۔ ہماری کلاس کے ساتھ دو ناقابل فراموش واقعات ہوئے۔ ایک صاحب ہمیں ماڈرن فزکس پڑھاتے رہے۔ دو سال بعد جب ہم لوگ یونیورسٹی کے امتحانات میں بیٹھے، تب جا کر علم ہوا کہ چونکہ موصوف نے خود ذکریا یونیورسٹی ملتان سے تعلیم حاصل کی تھی، وہ ہمیں بھی ذکریا یونیورسٹی کی منظورشدہ کتب پڑھاتے رہے، یہ جاننے کی زحمت ہی نہیں فرمائی کہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کا نصاب کیا ہے اور کون سے موضوعات اس میں شامل ہیں۔ پرچہ کے نصف سے زائد سوالات ہم نے کبھی دیکھے نہ پڑھے تھے۔ میتھ کے لیکچرار دو ہاتھ آگے نکلے۔ ڈبل میتھ میں چار سو نمبر ہوتے، دو سو میتھ اے اور دو سو میتھ بی کے۔ دونوں کے ملا کر سو سونمبرز کے چار پرچے۔ ہمارے ٹیچر نے خیر سے سو نمبر کا پورا پیپر ہمیں پڑھایا ہی نہیں، اس میں دو کتابیں پڑھنا ہوتی تھیں، دو برسوں میں وہ انہیں شروع ہی نہ کراپائے، بمشکل سو نمبر کے ایک پیپر کا نصاب مکمل کرا پائے۔ ہمارے اوپر کیا گزری ہوگی، اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ معلوم نہیں موصوف اب کہاں ہوں گے، خیر اللہ جہاں رکھے خوش رہیں۔ خیر قصہ کچھ اور سنانا تھا، بات اور جانب نکل گئی۔ مقصود یہ تھا کہ ہمارے گروپ کے طلبہ اپنی علمی کسمپرسی کے باعث ایک دوسرے کے ساتھ مل کر اور بہاولپور میں جا کر پڑھنے والے اپنے بعض دوستوں کے نوٹس مستعار لے کر کام چلایاکرتے تھے۔ گروپ میں ایک بہت اچھا دوست بن گیا، اس کا تعلق احمد پورشرقیہ سے نہیں تھا، اپنے نانا کے گھر پڑھنے آیا ہوا تھا۔ میرا ہم نام تھا، موٹے عدسوں والی عینک لگاتا اور عجب سی افسردگی چہرے پر طاری رہتی۔ شہر کے پرانے اور مشہور تحصیل بازار کے قریب ایک تنگ سی گلی میں ان کا مکان تھا۔ یہی اپریل مئی کے دن تھے، جب ہمارے شہر میں دن گرم اور راتیں کسی قدر خنک ہوجاتی ہیں۔ اس کے گھر کی بیٹھک میں ہم میتھ کی مشق کر رہے تھے۔ باتوں میں کہیں ایف ایس سی کے میرٹ اور نمبرز کا ذکر ہوا۔ اس کے منہ سے کہیں اچانک نکل گیا کہ میں چاہتا تو انجینئرنگ یونیورسٹی پڑھ سکتا تھا۔ یہ سن کر میں چونک اٹھا۔ طنزاًکہا کہ اگر تمہارے نمبر آئے ہوتے تو بی ایس سی کیوں کرنا پڑتی؟ وہ یکایک خاموش ہوگیا، جیسے اپنی غلطی کا احساس ہوگیا۔ اس کے چہرے کے بدلتے تاثرات اور نم آنکھوں نے حیران کیا۔ وہ پہلے تو ٹال گیا، جب کریدتا رہا تو بتایا کہ میرے ایف ایس سی میں نوے فیصد نمبر آئے تھے۔ اس بات پر پہلے یقین نہیں کیا، جب اس نے الماری سے نکال کر اپنا ایف ایس سی کا رزلٹ کارڈ دکھایا تو حیران رہ گیا۔ دوست نے بتایا کہ ان کے مالی حالات بہت خراب ہوچکے ہیں، والد کی بیماری کے باعث گھر چلانا بھی دوبھر ہوگیا، اسی لئے آگے پڑھنے کے لئے اسے اپنے نانا کے گھر آنا پڑا۔ کہنے لگا کہ میرا ایف ایس سی میں میرٹ بن گیا، مگر لاہور جا کر انجینئرنگ یونیورسٹی پڑھنا ممکن نہیں تھاکہ سرکاری یونیورسٹی کی فیس اگرچہ کم ہے، مگر بہرحال دینا تو پڑتی ہے اور پھر ہاسٹل، میس وغیرہ کے اخراجات بھی ہیں۔ اس نے سوچا کہ اگر والد کو حقیقت بتائی تو وہ دکھی ہوں گے۔ ان کے لئے لاہور جا کر انجینئرنگ یونیورسٹی پڑھانا تو ممکن نہیں، مگر ایسا نہ کرنے کا غم ان کے لئے بہت شدید ہوگا اور شائد ہمیں کوئی اور بڑا صدمہ نہ سہنا پڑے۔ اس خوف سے دردمند طالب علم نے گھر جھوٹ بولا کہ میری فرسٹ ڈویژن تو آئی ہے، مگر میرٹ نہیں بن پایا۔ اپنے خاندان والوں کے طعنے برداشت کر لئے مگر حقیقت چھپا لی اور اب بی ایس سی کر رہا ہے تاکہ اس کے بعد سائنس ٹیچر کی ملازمت لے سکے۔ ہم تو خیر اپنی نالائقی سے میرٹ نہ بنا سکے، اتنی محنت نہیں کی اورکچھ رجحان بھی سائنس کی طرف نہیں تھا، امتحانات کے دنوں میں بھی ناول، کہانیاں پڑھتے رہتے۔ اپنے اس دوست کا میرٹ بنانے کے باوجود صرف مالی تنگی کے باعث انجینئر نہ بن پانے کا دکھ دل میں خنجر کی طرح لگا۔ اس تپتی دوپہر میں اپنے دوست کے ساتھ دکھ شیئر کرتا رہا، کچھ آنسو بھی بہائے، تسلی دی اور مستقبل کے سہانے سپنے دکھائے۔ آج معلوم نہیں وہ کہاں ہے، برسوں سے رابطہ نہیں رہا، یہ علم ہوا تھا کہ وہ سائنس ٹیچر بن گیا اور اپنے گھر کا بوجھ اپنے کاندھوں پر اٹھا لیا۔ وہ دکھ آج تک میرے ساتھ ہے۔ بعض دن، بعض لمحے آپ کے اندر کھب جاتے ہیں، انہیں خود سے الگ کرناممکن ہی نہیں رہتا۔ ان کا بوجھ اٹھا کر زندگی بھر چلنا پڑتا ہے، میرے لئے یہ ایسا ہی قاتل لمحہ تھا۔ برسوں بعد میں اردو ڈائجسٹ کے دفتر میں ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی کے سامنے بیٹھ کر میں نے یہ واقعہ سنایا۔ ڈاکٹر اعجازقریشی اردو ڈائجسٹ کے چیف ایڈیٹر اور ہمارے اساتذہ میں سے ہیں۔ وہ نادار طلبہ کے لئے کاروان علم فائونڈیشن کے نام سے ایک پراجیکٹ شروع کر رہے تھے۔ ڈاکٹر صاحب کے علم میں اسی طرح کے مختلف واقعات آئے اور انہی کا سدباب کرنے کے لئے انہوں نے پیرانہ سالی میں اس کٹھن کام کا بیڑا اٹھایا تھا۔ میرے دوست کی کہانی سن کر ڈاکٹر صاحب چند لمحوں کے لئے مغموم ہوئے، پھر کہنے لگے کہ ان شااللہ ہماری کوشش ہوگی کہ ایسے واقعات اب نہ ہوں۔ جہاں تک ہو سکے گا ہم ایسے نادار مگر ٹیلنٹیڈ طلبہ کی مدد کے لئے پہنچیں گے۔ آج کاروان علم فائونڈیشن ایک معروف چیریٹی تنظیم بن چکی ہے۔ حق تو یہ ہے کہ کاروان علم فائونڈیشن نے پچھلے چند برسوں میں یہ معجزہ تخلیق کر دکھایا۔ ہمارے دوست خالد ارشاد صوفی جو بنیادی طور پر صحافی ہیں، اے پی این ایس سے بہترین فیچر رائٹر کا ایوارڈ بھی لے چکے ہیں، مگر انہوں نے اپنی تمام تر صلاحیتیں کاروان علم فائونڈیشن کے لئے کھپا دیں۔ ممتاز سماجی اور علمی شخصیات اس رفاہی تنظیم کے زمے داران میں شامل ہیں۔ پہلے ایس ایم ظفر اس کے چیئرمین تھے، اب مجیب الرحمن شامی یہ ذمہ داری انجام دے رہے ہیں، ڈاکٹر اعجاز قریشی اس کے سیکرٹری ہیں۔ کاروان علم فائونڈیشن نے اب تک ہزاروں طلبہ کی مشکل آسان کی ہے۔ بے شمار ڈاکٹر، انجینئر، بینکر، سافٹ وئیر ڈویلپرز اس تنظیم کے سکالرشپ پر بن چکے ہیں۔ اس جیسی تنظیموں کا ہاتھ پکڑنے، ان کے ساتھ تعاون کرنے اور اس قافلہ کا حصہ بننے کی ضرورت ہے۔ ہوسکے تو اس رمضان میں کاروان علم فائونڈیشن کو یاد رکھا جائے۔ کاروان علم فائونڈیشن اب تک6433طلبہ کو168، 905، 116/- روپے کے اسکالرشپ جاری کرچکی ہے۔ جس میں 1125یتیم طلبہ اور 405خصوصی طلبہ(نابینا، پولیوزدہ اور حادثات کی وجہ سے معذور) شامل ہیں۔ اسکالرشپ حاصل کرنے والوں میں ایم بی بی ایس (ڈاکٹر)کے1484، بی ڈی ایس(ڈاکٹر آف ڈینٹل سرجری)کے63، فزیوتھراپی(ڈاکٹر آف فزیوتھراپسٹ) کے59، ڈی وی ایم (ڈاکٹر آف ویٹرنری سائنسز)کے131، ڈی فارمیسی (ڈاکٹر آف فارمیسی)کے115، ایم ایس سی کے170، ایم اے کے146، ایم کام کے41، ایم بی اے کے61، ایم پی اے کے 05، ایم فل کے22، بی ایس سی انجینئرنگ کے1553، بی کام آنرز کے163، بی ایس آنرز کے1017، بی بی اے کے 69، اے سی سی اے کے 22، سی اے کے 04، بی ایس ایڈ، بی ایڈ کے 55، ایل ایل بی کے19، بی اے آنرز کے59، بی اے کے85، بی ٹیک کے 24، ڈپلومہ ایسوسی ایٹ انجینئرنگ کے167، ایف ایس سی کے572، ایف اے کے112، آئی کام کے57، ڈی کام کے05، آئی سی ایس کے22میٹرک کے 131 طلباو طالبات شامل ہیں۔ کاروان علم فائونڈیشن کو405زیر کفالت اور 230زیر غور طلبہ کواسکالرشپ جاری کرنے کے لیے 6کروڑ روپے درکار ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اہل خیر کے لئے یہ معمولی رقم ہے اور اگر زکوۃ و عطیات سے یہ سنگ میل عبور کرنے میں کارواں علم فائونڈیشن کی مدد کریں گے۔ ع ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے، جو کرتے ہیں کام دوسروں کے۔