Jo Har Imtihan Main Surkhuru Hua
Amir Khakwani145
یہ دس سال پہلے، دسمبرکی ایک سہہ پہر تھی جب مجھے قاہرہ میں اخوان المسلمین (Muslim Brotherhood)کے دفتر وزٹ کرنے کا موقع ملا۔ مصرپر ان دنوں بدترین مصری ڈکٹیٹر حسنی مبارک کی حکومت تھی، ٹھیک سوا سال بعد قاہرہ کی سڑکیں "ارحل یا مبارک (مبارک چلے جائو)"کے فلک شگاف نعروں سے گونج اٹھی تھیں۔ یہ عرب سپرنگ کا آغاز تھا، جس نے مڈل ایسٹ کو ہلا کر رکھ دیا، تیونس، مصر، لبیا، یمن کی حکومت الٹ گئیں، شام میں خوفناک خانہ جنگی شروع ہوئی جس نے یہ حسین ملک لاشوں کا ڈھیر اور کھنڈر بنا دیا۔ خیروہ لمحات ابھی مستقبل میں پوشیدہ تھے۔ ہم دنیا کی سب سے بڑی اسلامی تحریک اخوان المسلمین کے دفتر اس کی قیادت سے گفتگو کرنے پہنچے تھے۔ میرے ساتھ لاہور کے معروف آئی سرجن پروفیسر ڈاکٹر انتظار بٹ تھے۔ بنیادی طور پر ہمارا سفر نائیجریا کے لئے تھا، جہاں فیڈریشن آف اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (FIMA)کے زیر اہتمام دو نائیجرین صوبوں (ریاستوں ) قدونہ اور مدوغری میں فری آئی کیمپس منعقد ہونے تھے۔ سٹاپ اوور قاہرہ تھا، کوشش کر کے قاہرہ قیام کے دوران اخوان المسلمین کے رہنمائوں سے ملاقات کا وقت لیا۔ عرب میڈیکل ایسوسی ایشن کے صدران دنوں سربراہ ڈاکٹر عبدالمنعم ابوالفتوح تھے۔ یہ اخوانی رہنما بعد میں اگرچہ اختلافات کی بنا پر الگ ہوئے اور انہوں نے صدارتی انتخاب میں حصہ بھی لیا۔ جماعت اسلامی شعبہ امورخارجہ کے سربراہ عبدالغفار عزیز کے توسط سے ڈاکٹر ابوالفتوح سے رابطہ ہوا اور یوں مرشد عام مہدی عاکف کے انٹرویو کی راہ ہموار ہوپائی۔ اخوان المسلمین کے دفتر جا کر حیرت ہوئی، سادہ سا بلڈنگ، اوپر دو منزلوں پر ان کے مختلف دفاتر تھے۔ سیڑھیاں چڑھ کر پہنچے تو پہلے ڈاکٹر عبدالمنعم ابوالفتوح سے ملاقات ہوئی، پھر اخوان کے بہت اہم رہنما ڈاکٹر عصام الریان سے انٹرویو کیا۔ قاہرہ آنے سے پہلے اخوان کے بارے میں خاصا کچھ پڑھ چکا تھا۔ عرب میڈیا ڈاکٹر عصام الریان کو قدیم اورجدید اخوانیوں کے مابین ایک پل قرار دے رہا تھا جو اصلاح پسند اور قدامت پسند اخوان کو ساتھ لے کر چل سکتے تھے۔ ڈاکٹر عصام سے ملاقات کی تفصیل پھر کبھی سہی۔ وہ ہمیں اخوان کے مرشد عام مہدی عاکف کے پاس لے گئے۔ اخوان کے دستور کے مطابق دنیا بھر میں اس کا ایک ہی قائد ہوتاہے جسے مرشد عام (General Guide ) کہتے ہیں۔ ستاسی سالہ مہدی عاکف سے ملاقات ایک شاندار تجربہ رہا، شائد کبھی اسے نہ بھلا سکوں۔ مصر میں عربی کا بہت زیادہ چلن ہے اور کروڑوں سیاحوں کی سالانہ آمد کے باوجود انگریزی بولنے سمجھنے والے بہت کم ملتے تھے۔ مہدی عاکف صاحب سے انٹرویو میں ترجمانی کے فرائض ڈاکٹر عصام الریان نے ادا کئے۔ مہدی عاکف اب دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں، پیرانہ سالی کے باوجود انہیں بھی جنرل السیسی کی فوجی حکومت کے ظلم وستم کا سامنا کرنا پڑا، ان کے آخری دن تکلیف میں گزرے۔ اس انٹرویو میں انہوں نے اخوان کی پالیسیوں کی وضاحت کی اور بار بار زور دے کر بتایا کہ ہمارا مقصد حکومت پر قبضہ کرنا ہرگز نہیں۔ انقلاب کی اصطلاح کو عصام الریان اور مہدی عاکف دونوں نے بارہا سختی سے رد کیا۔ صاف کہا کہ ہم اس لفظ کو استعمال نہیں کرتے اور ہم بتدریج اصلاحات (ریفارمز)کے حامی ہیں۔ اس وقت میرے سامنے انٹرویو کے نوٹس موجود نہیں، مجھے یاد ہے کہ بار بار کرپشن کے خلاف وہ بولتے رہے، گڈ گورننس پر زور دیتے اور آزادی کی اہمیت کو راسخ کرتے۔ ان کا کہنا تھا کہ کرپشن بیڈ گورننس کی وجہ ہے اور اسی کی وجہ سے ملک عالمی استعمار کے غلام بنتے ہیں۔ گفتگو میں ایک بار پاکستان کا ذکر آیا تو مہدی عاکف نے پاکستانی عوام کے لئے بڑی محبت کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ بانی اخوان سید حسن البنا شہید نے پاکستان بننے پر قائداعظم کو خط لکھا تھا۔ حسن البنا اس پر مسرور تھے کہ دنیا میں پہلی بار اسلام کے نام پر کوئی ریاست وجود میں آئی ہے، انہوں نے پاکستان کے استحکام کے لئے نیک تمنائوں کا اظہار کیا۔ پھر اچانک جذباتی انداز میں کہنے لگے کہ افسوس پاکستان پر اس وقت ایک کرپٹ حکمران مسلط ہوگیا ہے، جس کی کرپشن دنیا بھر میں بدنام ہے۔ انہوں نے کئی اور سخت الفاظ استعمال کئے، عربی میں بولے جانے کے باوجود مجھے بات سمجھ آ گئی۔ حیرت کے ساتھ ان کی طرف دیکھا تو وہ برجستہ بولے، جی میں پاکستانی صدر آصف زرداری ہی کی بات کر رہا ہوں۔ ہم اخوانیوں کے دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتے ہیں، دلی افسوس ہے کہ ایسے ملک پر کرپٹ ٹولہ مسلط ہوگیا ہے۔ انٹرویوختم ہوا، باہر نکلے تو بعض دیگر اخوانی لیڈر بھی موجود تھے۔ معلوم ہوا کہ ابھی کچھ دیر بعد مرکزی کونسل کی میٹنگ ہونے والی ہے۔ ان اخوانی لیڈروں میں مرشد عام کے نائب محمود عزت بھی شامل تھے۔ ایک دراز قد چمکتی آنکھوں والے شخص سے بھی ملاقات ہوئی۔ ڈاکٹر عصام الریان نے بتایا کہ یہ ہمارے اہم رہنما ہیں اور مسلسل دو مرتبہ رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئے ہیں۔ ایک پروقار مسکراہٹ کے ساتھ انہوں نے ہاتھ ملایا اور رسمی کلمات کہے۔ معلوم ہوا کہ ان کا نام ڈاکٹر مرسی ہے۔ اس وقت ہم بے خبر تھے کہ صرف دو برسوں بعد یہی ڈاکٹر مرسی مصر کے صدر منتخب ہوجائیں گے۔ اس کا تو خیر کسی کو بھی اس وقت اندازہ نہیں ہوسکتا تھا کہ ڈاکٹر مرسی کو صدارت کے ایک سال بعد ایک خونی فوجی بغاوت کے ذریعے اتار دیا جائے گا، اس ظلم کو نہ صرف امریکہ اور تمام مغربی قوتوں بلکہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، کویت، بحرین جیسے ممالک بھی بھرپورسپورٹ کریں گے اور وہ سفاک فوجی ڈکٹیٹر مصر پر قیامت ڈھا دے گا۔ بزرگ مرشد عام ڈاکٹر محمد البدیع کوسخت تشد د اور قید وبند کی صعوبت سے گزرنا پڑے گا، سینکڑوں اخوانی قتل اور ہزاروں گرفتار کر جیلوں میں ٹھونس دئیے جائیں گے اور منتخب مصری صدرڈاکٹر مرسی کو چھ سال تک جیل میں قید تنہائی کی حالت میں رکھنے کے بعد طبی امداد نہ دے کرموت کے گھاٹ اتار دیا جائے گا۔ افسوس کہ وہ سب اب ہوچکا ہے، اخوانیوں کے قتل کے لہورنگ مناظر ہم دیکھ چکے۔ رابعہ عدویہ(بصری)کے میدان میں فوجی آپریشن اور اس کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتو ں کی ویڈیوز کون بھلا سکتا ہے۔ چاہوں بھی تو ڈاکٹر حسن البلتاجی کی صاحبزادی کے آخری لمحات کی ویڈیو ذہن سے محو نہیں ہوسکتی۔ فوجیوں کی گولیوں سے چھلنی فرشتہ صورت بچی اپنی آخری سانسیں لے رہی تھی، ڈاکٹر مسلسل خون دے کر بچانے کی کوششیں کر رہے تھے، بچی کے چہرے پر ایسا نور، ایسی تازگی تھی کہ کوئی یقین نہیں کر سکتا تھا یہ اس کی زندگی کے آخری لمحات ہیں۔ اس آپریشن میں اخوان کی قیادت اور کارکنوں کو خوفناک مظالم کا سامنا کرنا پڑا۔ ڈاکٹر مرسی کو جولائی 2013ء میں گرفتار کیا گیا، تقریبا چھ سال کی قیدتنہائی کاٹنا پڑی۔ آزاد ذرائع سے آنے والی اطلاعات سے یوں لگتا ہے جیسے ڈاکٹر مرسی سے جان چھڑانے کی خاطر انہیں قتل کیا گیا۔ وہ شوگر کے مریض تھے، مگر انہیں دانستہ دوائیاں نہیں دی جاتی تھیں۔ چھ سال میں صرف چار بار ان کی گھر والوں اور وکیل سے ملاقاتیں ہو پائیں۔ انہیں سائونڈ پروف پنجرے میں قید کر کے کمرہ عدالت میں لایا جاتا تاکہ وہ چیخ کر کچھ کہہ بھی نہ سکیں۔ آخری پیشی میں انہوں نے عدالت سے اپنی علالت اوراس بدترین تشدد کے بارے میں بتایا۔ ڈاکٹر مرسی کا کہنا تھا کہ وہ پچھلے ہفتے میں کئی بار دوائی نہ ملنے کے باعث شوگر لو ہوجانے سے بے ہوش ہوئے اور کوئی طبی مدد نہ ملی۔ اپنے اس آخری بیان کے بعد وہ پھر سے بے ہوش ہوگئے، اس بار واپسی نہ ہوسکی۔ ڈاکٹر مرسی کی موت ایک سفاکانہ قتل ہی ہے۔ ان کے ساتھ روا جانے والا ظلم مرنے کے بعد بھی جاری رہا۔ نمازجنازہ میں ان کے ساتھیوں کو شامل ہونے کی اجازت نہیں ملی۔ اخوان کے بانی سید حسن البنا کو 1949ء میں مصری خفیہ پولیس کے ایک ایجنٹ نے گولی مار دی تھی، حسن البنا شہید کے جنازے میں شرکت کی بھی کسی کو اجازت نہیں ملی۔ ان کے گھر والوں میں حسن البنا کے ضعیف والد کے علاوہ باقی تمام عورتیں تھیں۔ ان خواتین نے ہی جنازہ اٹھایا اور تدفین ممکن ہوپائی۔ حسن البنا شہید کے پیروکار ڈاکٹر مرسی شہیدکے جنازہ میں بھی ان کے گھرانے کے صرف آٹھ افراد نے شرکت کی۔ انہیں رات دو بجے سے بلا کر جیل میں بٹھایا گیا تھا، نماز فجر کے بعد نمازجنازہ پڑھا کر قاہرہ کے مضافات میں تدفین بھی کر دی گئی۔ اگرچہ ڈاکٹر مرسی کی وصیت تھی کہ انہیں ان کے آبائی شہر میں دفن کیا جائے۔ فوجی حکومت خوفزدہ تھی کہ کہیں وہاں بڑی تعداد میں لوگ جمع نہ ہوجائیں۔ ظلم، جبر کے ذریعے اس وقت تو ایسا نہ ہونے دیا گیا، مگر کیا مصری فوجی حکومت ڈاکٹر مرسی اور اخوانیوں کی محبت مصری عوام کے دلوں سے نکال پائیں گے؟ حسنی مبارک جیسا ڈکٹیٹر تین عشروں کے ظلم کے باوجود ایسا نہ کر پایا تو السیسی جیسا ناکام حکمران کیسے کر سکے گا؟ ڈاکٹر مرسی دنیا سے رخصت ہوگئے، مصرکے منتخب جمہوری صدر کے ساتھ روا ہونے والا یہ ظلم مگر مسلم امہ، عرب دنیا، مصر اور خود عالمی دنیا کے ضمیر پر ہمیشہ ایک سیاہ دھبے کے طور پر موجود رہے گا۔ ایک کالک ہے جس کا انتخاب ان سب نے کیا۔ اپنے رب کی خاطر زندگی بسر کرنے والے ڈاکٹر مرسی اور ان کا پورا قبیلہ(اخوان) البتہ تولے جانے پر سرخروہوا۔ ہمیشہ رہ جانے والی عزت اور شان ان کامقدر ہوگی۔