Wednesday, 30 October 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Khudara Barishon Ke Pani Se Faida Uthaiye

Khudara Barishon Ke Pani Se Faida Uthaiye

پانی کے بحران کی شدت کا کچھ اندازہ ہوچکا ہے، اس لئے بار بار اس مسئلے پر لکھنا چاہتا ہوں۔ میں لاہور میں مقیم ہوں، یہاں زیرزمین پانی تیزی سے نیچے گر رہا ہے۔ اس تیزی کے ساتھ کہ چند ہی برسوں میں زیرزمین پانی ڈھائی تین سوفٹ سے اب چھ فٹ کی گہرائی تک جا چکا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق واسا (لاہور میں پانی تقسیم کرنے والے ادارے)کے اٹھارہ سو ٹیوب ویل لاہور سے چار سو کروڑ لٹر پانی روزانہ کھینچ رہے ہیں۔ مختلف صنعتی ادارے ڈیڈھ سو کروڑ لٹر پانی روزانہ نکالتے ہیں۔ نجی سطح پر بور کئے گئے ٹیوب ویل، پمپ وغیرہ الگ ہیں۔ اب خود ہی اندازہ کریں کہ ہر گزرتے برس کے ساتھ زیرآب پانی کی سطح مزید نیچی ہوگی۔ یاد رکھئے کہ بارہ تیرہ سو فٹ کی گہرائی کے بعد زیرزمین پانی نہیں ملے گا۔ تب کیا ہوگا؟ یہ بات ابھی سے سوچنا چاہیے۔

ہم لاہور میں رہتے ہیں، لاہور کے مسائل زیادہ جانتے ہیں، اب دوسرے شہروں کے مکین بھی یہ مسئلہ اٹھا رہے ہیں۔ صحافی، کہانی کار محمد فیصل شہزاد کراچی میں مقیم ہیں، انہوں نے کراچی کے حوالے سے آواز اٹھائی ہے۔ محمد فیصل شہزاد لکھتے ہیں: "کراچی میں جنگل اگائیے، پانی چوس کنویں بنائیے۔ مجھے یاد نہیں کہ آخری بار گرمی دانے کب نمودار ہوئے تھے، بلکہ شاید کبھی ہوئے ہی نہیں۔ اس سال مگر پچھلا پورا ایک مہینہ اس اذیت سے گزرا۔ کراچی میں گرمی تپش اور حبس ہی اس سال اتنا زیادہ رہا! ایک طرف کراچی کا تیزی سے بدلتا قہر برساتا موسم تو دوسری طرف کراچی میں زیر زمین پانی لگتا ہے پاتال ہی میں جا اترا ہے۔ ڈیڑھ دوسو سے بات چلتے ہوئے اب ساڑھے تین سو فٹ تک جا پہنچی ہے! اِن دونوں مسائل کا حل بہت ہی آسان، کم خرچ اور دیرپا ہوسکتا ہے اگر حکومت سنجیدہ ہوجائے۔ "

(1) کراچی میں کم ازکم دو ڈھائی لاکھ مقامی درخت کے مصنوعی جنگل فوری طور پر اگائے جائیں! "

(2) انتہائی ارجنٹ بنیادوں پر کراچی کے کم ازکم سو نشیبی مقامات پر پانی چوس کنویں بنائے جائیں! "

(1) جنگل: کراچی شہر کی دو بڑی ندیاں ہیں: لیاری ندی اور ملیر ندی۔ جبکہ اورنگی نالے، شیر شاہ نالے اور گجر نالے سمیت قریب تیس چھوٹے بڑے نالے وہ ہیں جن کے ذریعے گندے پانی کی نکاسی بذریعہ لیاری ندی اور ملیر ندی سمندر میں ہوتی ہے۔ لیاری ندی سب سے بڑی ندی ہے جس پر آج کل لیاری ایکسپریس وے بھی ہے۔ چالیس سے پچاس کلو میٹر طویل اس ندی میں پہلے مرحلے میں دس کلومیٹر طویل ایکسپریس وے کیساتھ ساتھ ندی کے دونوں جانب ایک لاکھ درخت تو باآسانی لگائے ہی جاسکتے ہیں اور باقی ندی پر بھی کل ملا کر ایک لاکھ درخت لگائے جاسکتے ہیں۔ یہ قدرت کی طرف سے بنا بنایا ایک بہترین سسٹم موجود ہے جس پر خرچ بھی نسبتاً بہت معمولی آئے گا۔ ندی میں قدرتی کھاد موجود ہے، ہر وقت نمی موجود ہے۔ یہ درختوں کو انتہائی تیزی سے بڑھنے میں مدد دے گی۔ کراچی کی آب و ہوا کے لیے نیم کا درخت انتہائی بہترین سمجھا جاتا ہے، نیم کے علاوہ بھی دیسی درخت ہیں مثلاً: کیکر، برگد، پیپل، کچنار، شیشم، ببول، تمر، سوہانجنا، جامن، کیکر، بیکائن اور کھجور وغیرہ!

"اب دیکھ لیجیے کہ اِن پودوں کی قیمت کیا ہے؟ یہ پودے لاکھوں کی تعداد میں تیار کیے جائیں تو بھی خرچ بہت ہی کم ہے، جبکہ بہترین کھاد، پانی، مٹی کا انتظام تو قدرت نے خود کیا ہوا ہے۔ ابتدائی برس ان کی نگہداشت ہوگی پھر اگلے دو چار برسوں میں یہ خود ہی مکمل درخت بن جائیں گے۔ گویا زیادہ سے زیادہ 2030 میں دو لاکھ درختوں کا جنگل تو صرف لیاری ندی کے ساتھ تیار ہوگا! اس کے علاوہ ملیر ندی کے ساتھ بھی جنگل اگایا جاسکتا ہے اور گجر نالے جیسے درجنوں نالوں کے ساتھ بھی۔ اس کے علاوہ بھی کراچی کے مخصوص مقامات پر دو دو تین تین ایکڑ پر مصنوعی جنگل اگائے جاسکتے ہیں۔ جیسے کلفٹن اربن فورسٹ کے نام سے کچھ عرصہ قبل بنایا گیا ایک مصنوعی جنگل واقعی شاندار ہے۔

صرف ڈھائی ایکڑ پر مشتمل اس جنگل میں سات لاکھ پودے لگائے گئے تھے۔ اسی طرح اور بھی اربن فاریسٹ (شہری جنگل) اگائے جاسکتے ہیں۔

"ماہرین کہتے ہیں کہ اگر کراچی میں اس طرح کے صرف پچیس شہری جنگل اگا لیے جائیں، تو شدید گرمی سے صرف دو برسوں میں چھٹکارہ پایا جاسکتا ہے۔ نیز سمندر کے ساتھ وال پٹی پر مینگروز کے جنگلات میں بھی خاطرخواہ اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ لاکھوں درختوں کے یہ جنگل کراچی کی فضا کو یکسر بدل کر رکھ دیں گے، یہ ایک گیم چینجر آئیڈیا ہے۔ دوسرا حل۔ پانی چوس کنویں:

"زیر زمین تیزی سے گرتی ہوئی پانی کی سطح کو ری چارج کرنا انتہائی ضروری ہے، جس کے لیے قدرت کی طرف سے ہمیں مون سون سسٹم کا تحفہ ملا ہوا ہے۔ مون سون بارشوں کا سسٹم کروڑوں لیٹر پانی صرف بدانتظامی کی وجہ سے ہر سال ہوش ربا تباہی مچاتا انفرااسٹرکچر کو تباہ کرتا ہوا، قیمتی جانوں کے ضیاع کی صورت ضائع ہوجاتا ہے۔ اگر اس پانی کو اسٹور کیا جاسکے خصوصا زیرزمین چلتے قدرتی دریائوں اور تالابوں میں تو کیا ہی شاندار بات ہو۔ اسی کے لیے پانی چوس کنوئیں بنانا خاص طور پر بڑے شہروں میں بہت ضروری ہیں۔

ماہرین کے مطابق ایک پانی چوس کنواں کم وبیش ساڑھے سات لاکھ روپے میں بن سکتا ہے یعنی دو کنویں پندرہ لاکھ میں۔ سو اگر کراچی میں سو ایسے کنویں بنائے جائیں تو وہ آٹھ کروڑ روپے میں بن جائیں گے۔ اس طرح نہ صرف مون سون بارشوں میں پانی سڑکوں پر کھڑا نہیں رہے گا، بلکہ یہ قیمتی پانی ہمہ گیر تباہی مچا کر سمندر برد ہونے کی بجائے زمین کو ری چارج کرکے سارا سال استعمال کے لیے محفوظ ہوجائے گا۔ "

اب پھر سے لاہور کی طرف آجائیے۔ لاہور میں دو دن قبل بارہ جولائی کو دھواں دھار طوفانی بارش ہوئی، کہا جا رہا ہے کہ تیس چالیس سال پرانا ریکارڈ ٹوٹ گیا۔ آب پاشی کے انجینئر اور ماہر ظفر اقبال وٹو جو پانی کے حوالے سے مختلف آرٹیکلز سوشل میڈیا اور جرنلز وغیرہ میں لکھتے رہتے ہیں، انہوں نے ایک بار پھر آواز بلند کی ہے۔ انجینئر ظفر اقبال وٹو کہتے ہیں: "صرف اس ایک بارش کے زائد پانی ذخیرہ کر لیا جاتا تو واسا کو اگلے ایک مہینہ تک اپنے ٹیوب ویل چلانے کی ضرورت نہیں تھی۔ اندازاً 1 لاکھ ایکڑ فٹ پانی لاہور پر ایک دن میں برس گیا جو کہ اس شہرِ بے مثال کے زمینی پانی کے ایک سال کے خسارے کو پورا کرنے کے لئے کافی تھا۔ شہر میں ابھی مون سون سیزن کی کئی اور بارشیں متوقع ہیں۔ لاہور میں زمینی پانی کی سالانہ کھپت اور ریچارج میں تقریباً 1 لاکھ ایکڑ فٹ کا فرق ہے جسے بارش کے پانی کو استعمال کرتے ہوئے باآسانی پورا کیا جاسکتا ہے۔ مختلف تجاویز میں سے ایک ربڑ ڈیم بنانا ہے۔

دریائے راوی پر سیریز میں بنے ربڑ ڈیم "لاہور کی ایکوائفر کے ری چارج کا سب سے بڑا ذریعہ بوڑھا دریائے راوی ہے جو کہ اب خشک پڑا ہے۔ لاہور کے سارے ڈرین بارش کے پانی کو دریائے راوی میں جاکر گراتے ہیں جسے دریائے راوی پر متعدد ربڑ ڈیم بنا کر کشادہ جھیل کی شکل میں کھڑا کرکے زیرزمین پانی کو ریچارج کیا جاسکتا ہے۔ ربڑ ڈیم کی تعمیر کی ایک بہترین جگہ راوی پر ریلوے پْل سے اوپر / پہلے ہو سکتی ہے جب کہ اس کے نیچے بھی کچھ مناسب جگہیں تلاش کی جاسکتی ہیں۔ لاہور کے پاس دریائے راوی کا پیندہ ہر تین ہزار فٹ کے بعد ایک فٹ نیچے ہو جاتا ہے اس لئے سات آٹھ فٹ بلند ربڑ ڈیم سے بھی ہزاروں فٹ لمبی پانی کی سطح اوپر اٹھ آئے گی جو کہ دریا میں کئی دن رکی رہے گی اور ریت میں جذب ہو کر لاہور کی ایکوئفر کو مسلسل ریچارج کرتی رہے گی۔

"یاد رہے کہ ربڑ ڈیم ایک بہت بڑی ٹیوب ہوتی ہے جسے کسی مضبوطی سے موجود پل یا خاص طور پر ڈیم کے لئے بنائے گئے پختہ ستونوں کے ساتھ باندھ دیا جاتا ہے۔ اس ٹیوب کو ہوا/ پانی یا دونوں کو اندر بھر کر مطلوبہ بلندی تک پْھلایا جاسکتا ہے اور یہ اپنے پیچھے ڈیم کی طرح پانی کو روک لیتی ہے۔ دریا میں سیلاب یا زیادہ پانی کی صورت میں اس میں سے ہوا یا پانی خارج کرکے اس کو خالی کیا جا سکتا ہے تاکہ سیلابی پانی، مٹی اور کچرہ آگے بڑھ جائے اور پانی کی روانی بہتر ہوتے ہی اس کو دوبارہ ہوا بھر کر پْھلا دیتے ہیں۔

"لاس اینجلس شہر کو پانی دینے کے لئے دْنیا کا سب سے پہلا ربڑ ڈیم 1958 میں امریکا میں دریائے لاس اینجلس پر بنا تھا۔ چائنا کہتا ہے کہ اس نے 2000 سے زیادہ ربڑ ڈیم بنا رکھے ہیں۔ بنگلہ دیش اور بھارت نے بھی کئی ربڑ ڈیم بنا رکھے ہیں۔ ہم اس کامیاب تجربے کو کیوں نہیں دہرا سکتے؟