Wednesday, 30 October 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. King Richard

King Richard

یہ نام ہے ایک مشہور ہالی وڈ بائیوپک فلم کا۔ بائیوپک فلم وہ ہوتی ہے جس میں کسی حقیقی شخصیت کی زندگی کے واقعات بیان کئے جائیں۔ اس فلم میں ایک ایسے سیاہ فام یا افریقن امریکن شخص کی عزم وہمت سے معمور داستان بیان کی گئی جس سے بہت لوگ انسپائریشن لے سکتے ہیں۔ یہ شخص رچرڈ ولیمزRichard Williams ہے جس کی دو بیٹوں نے ویمن ٹینس کی دنیا میں اپنا سکہ چلایا۔ وینس ولیمز اور سرینا ولیمز۔ ٹینس کی جدید تاریخ میں شائد ان سے بہترخواتین کھلاڑی نہیں آئیں گی۔

رچرڈ نے یہ سب مگر کیسے حاصل کیا، یہ ایک پرجوش، شاندار داستان ہے۔ معروف سوشل میڈیا رائٹر، ٹرینر، کوچ، مترجم توقیر بھملہ نے یہ کہانی تحریر کی ہے۔ اس دلچسپ اور ڈرامائی داستان نے مجھے بہت متاثر کیا۔ ویسے اس پر بھی بائیوپک فلم کنگ رچرڈ بھی خوب ہے۔ معروف اداکار ول سمتھ نے رچرڈ ولیمز کا کردار ادا کیا اور خوب نبھایا۔ ول سمتھ کو اس پر اداکاری کا سب سے بڑاایوارڈ آسکر بھی ملا۔ اب توقیر بھملہ کی بیان کردہ کہانی کی طرف چلتے ہیں:

"1980میں رچرڈ نامی شخص نے اپنا ٹیلی ویژن آن کیا اور دیکھا کہ رومانیہ سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون کھلاڑی ٹینس ٹورنامنٹ جیتنے کے بعد 40,000 ڈالر کا چیک وصول کر رہی ہے۔ یہ سارا منظر رچرڈ کو حیران و پریشان کرنے کے لیے کافی تھا کیونکہ یہ رقم اس کی سالانہ تنخواہ سے بھی زیادہ تھی۔ چند ثانیوں میں، اس نے فیصلہ کرلیا کہ اس کی بیٹیاں بھی ٹینس کھیلیں گی۔

ٹی وی بند کرنے کے بعد، وہ بیٹھ گیا اور 78 صفحات پر مشتمل ایک دستاویز لکھی جس میں اس کی دو جوان بیٹیوں کے اپنے آبائی شہر کمپٹن، کیلیفورنیا سے فرار ہونے کے منصوبے کا خاکہ پیش کیا گیا تھا۔ اس کا رہائشی علاقہ بدنام زمانہ سیاہ فام گینگسٹر کے تشدد کے لیے جانا جاتا تھا، اور اس علاقے سے کسی خاندان کا ہجرت کرنا یا فرار ہونا انتہائی دشوار ترین کام تھا۔ اب ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ رچرڈ ٹینس کے بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا، اس کے پاس اپنی بیٹیوں کو اس مہنگے کھیل کی ٹریننگ کی ادائیگی کے لیے پیسے نہیں تھے، اور شاید آپ کے لیے یہ ناقابل یقین ہو کہ اس کی بیٹیاں ابھی اس وقت پیدا بھی نہیں ہوئی تھیں۔ یعنی اسے امید تھی کہ اس کے بچے ہوں گے اور ممکنہ طور پر بیٹیاں تو وہ انہیں ٹینس پلیئر بنائے گا۔

اگلے پانچ سالوں میں وہ ٹینس کے متعلق میگزین اور ویڈیو کیسٹ وغیرہ جمع کرتا رہا تھا۔ اسی سے اس نے خود بھی گزارہ لائق ٹینس سیکھ لی تھی۔ 5 سال کے بعد پلان کے مطابق، رچرڈ نے اپنی دو بیٹیوں کے ہاتھ میں ٹینس کا ریکٹ، وہی رسائل اور وڈیوز اور ان سے جو کچھ سیکھا تھا سب تھما دیا۔ اب وہ ان کم سن بچیوں کا باپ بھی تھا اور کوچ بھی۔ اس نے انہیں ٹینس کا کھیل سکھانا شروع کیا۔ کھیل کھیلنے کی بنیادی اشیا کو خریدنے سے قاصر، رچرڈ مقامی کنٹری کلبوں میں جا کر استعمال شدہ ٹینس گیندوں کو ڈبوں سے اکٹھا کرکے انہیں ایک شاپنگ کارٹ میں لادتا، تاکہ اس کی بیٹیاں پبلک ٹینس کورٹس میں ان استعمال شدہ گیندوں کے ساتھ پریکٹس کر سکیں۔

رچرڈ بطورِ باپ بہت زیادہ حفاظت کرنے والا اور جسمانی لحاظ سے مضبوط شخص تھا۔ ٹینس کی تربیت کے دوران اپنی بیٹیوں کو ہراساں کیے جانے سے بچانے کی کوشش کرتے ہوئے اسے مقامی گینگ کے غنڈوں نے بارہا مارا پیٹا بھی تھا۔ ایک موقع پر جب اس نے بیٹیوں سمیت پریکٹس کورٹ چھوڑنے سے انکار کر دیا تو انہوں نے اس کی ناک، جبڑے اور انگلیاں توڑ دیں۔ اس کے کئی دانت توڑ کر نکال دیئے۔ رچرڈ نے اپنی ڈائری میں لکھا، "آج کے بعد، تاریخ 'دانتوں کے بغیر' شخص کو ہمت کی یادگار کے طور پر یاد رکھے گی۔

اس وقت ٹینس بنیادی طور پر سفید فام کھیل تھا، اس لیے لوگ اس وقت اس سیاہ فام خاندان کو سرعام گھورتے اور آوازیں کستے جب رچرڈ اور اس کی بیٹیاں جونیئر ٹورنامنٹس مقابلوں کے لیے مختلف ٹینس کورٹس کا سفر کرتیں۔ ایک بار لڑکیوں نے پوچھا، "ڈیڈی، لوگ ہمیں اس قدر بری طرح سے کیوں گھورتے رہتے ہیں، " تو اس نے جواب دیا، "کیونکہ اس سے قبل وہ اتنے خوبصورت لوگوں کو دیکھنے کے عادی نہیں ہیں۔ "

وقت کا پہیہ تیزی سے گھوما اور کیلنڈر کا صفحہ سنہ 2000 کی طرف بڑی تیزی سے پلٹ گیا، جب دراز قد، دبلی پتلی سیاہ فام لڑکی ومبلڈن ٹورنامنٹ فائنل کھیلنے کے سفر پر روانہ ہوئی۔ اپنی آبائی یہودی بستی سے ہزاروں میل دور، رچرڈ نے اپنی بڑی بیٹی کو لندن کی اشرافیہ، مشہور شخصیات اور شاہی خاندان کے سامنے گھاس کے میدانوں میں میں بجلی کی سی سرعت سے کھیلتے دیکھا۔

یہ وہ وقت تھا جب کسی نے بھی ٹینس کے کسی کھلاڑی کو اس قدر طاقتور سرو اور تیز فٹ ورک کے ساتھ نہیں دیکھا تھا اور نہ ہی انہوں نے کبھی شاٹس کی اتنی اونچی آوازیں سنی تھیں جیسے ہر گیند کو پیٹا جا رہا ہو اور ہر ضرب پر گیند درد سے کراہ رہی ہو۔

جب وہ لڑکی ایسے مرحلے پر پہنچی جہاں ڈر کے آگے جیت تھی تو لڑکی نے اسٹینڈ میں کھڑے اپنے والد کی طرف دیکھا جو اسے فتح حاصل کرنے کے لیے زور زور سے چلا کر حوصلہ افزائی کر رہے تھے۔ رچرڈ ہمیشہ سے اپنی بیٹیوں کو کہتا آرہا تھا کہ، "ایک دن، ہم ومبلڈن جیتنے والے ہیں، اور یہ جیتنا ہمارے لیے نہیں ہوگا۔ یہ امریکہ کے بے بس اور غریب لوگوں کے لیے ہوگا۔ " رچرڈ کا 20 سالہ طویل ترین جدوجہد کا منصوبہ اب تاریخ کے نازک موڑ پر پہنچ چکا تھا۔

جیسے ہی حریف کی گیند نیٹ سے ٹکرائی، فالٹ قرار پایا۔ کیمروں نے آنسوؤں سے تر چہرے والے رچرڈ کو دیوانہ وار رقص کرتے ہوئے دیکھا جب اس نے اپنی بیٹی وینس ولیمز کو اپنے سات گرینڈ سلام ٹائٹلز میں سے پہلا ٹائٹل جیتتے دیکھا۔ یہ جیت ان تھک قدموں کا کامیابی کے پہلے زینے کا پہلا بوسہ تھا۔ اس کے بعد اگلے کئی برسوں میں، رچرڈ نے اپنی سب سے چھوٹی بیٹی سرینا کو بھی 23 بڑے ٹورنامنٹ جیتتے ہوئے اور ٹینس میں اب تک کی سب سے عظیم ترین کھلاڑی قرار دیتے ہوئے دیکھا۔

ٹینس کورٹ پر اپنی تمام تر کامیابیوں کے باوجود وینس اور سرینا نے کورٹ کے باہر جو کچھ برداشت کیا وہ ان کے سفر کا سب سے متاثر کن حصہ ہے۔ تماشائیوں نے ولیمز سسٹرز کو ا ن کے مضبوط جسم اور لمبی تڑنگی ہونے کی وجہ سے طنزیہ "ولیمز برادرز" کانام دیا گیا۔ صرف یہ نہیں بلکہ سرینا ولیمزکی مخلوط نسل کی بیٹی کو "چاکلیٹی دودھ" کہنے والے میڈیا میں تبصروں تک، دونوں بہنوں کی لچکدار اور مہربان شخصیت نے نسل پرستی اور متعصب رویوں کے خلاف کھڑے ہونے میں بھرپور مدد کی تھی۔ ان کے باپ کا کہنا تھا کہ ٹینس کورٹ کے باہر جو ہتک ہم برداشت کررہے ہیں، اس سے بدلہ لینے کا بہترین طریقہ ٹینس کورٹ کے اندر اپنے ریکٹ سے بھرپور جواب دینا ہے۔ ان دو بہنوں کی اس متاثر کن جدوجہد نے دنیا بھر کے سیاہ فام لوگوں اور کھلاڑیوں کو متاثر کیا۔ "

رچرڈ ولیمز کی کہانی ہمیں یہ بھی سکھاتی ہے کہ اگر کوئی آدمی عزم کر لے اور پھر پوری سنجیدگی اور کمٹمنٹ کے ساتھ اس پر ڈٹ جائے تو وہ ایک دن اسے حاصل کر سکتا ہے۔ وینس ولیمز اور سرینا ولیمز کے والد رچرڈ نے یہ بات عملی طور پر ثابت کر دی۔ یوں یہ کسی موٹیویشنل سپیکر کا درس نہیں رہا بلکہ ایک امر واقعہ بن گیا، تاریخ کی گواہی، ایک شاندار کامیابی کی داستان۔