عمران خان پاکستانی سیاست میں دوعشروں سے ہیں، مگر اقتدار میں پہلی بار آئے، وزیراعظم بنے انہیں اب ایک سال سے کچھ دن زیادہ ہوچکے ہیں۔ اپوزیشن لیڈر کے طور پر انہوں نے عوام اور اپنے کارکنوں سے بڑے بڑے وعدے کئے، بہت سے دعوے اور انہیں پورے تیقن کے ساتھ پورے کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔ اب ان تمام باتوں کے احتساب کا عمل شروع ہوچکا ہے۔ ایک ایک وعدہ اور دعویٰ جانچا جا رہا ہے۔ ہنی مون پیریڈ اور ناتجربہ کاری کی جوگنجائش انہیں پہلے سال ملنا تھی، وہ اب ختم ہوگئی۔
وزیراعظم عمران خان کو پانچ سال کے لئے مینڈیٹ ملا ہے۔ اسمبلی میں اپنی اکثریت برقرار رہنے کی صورت میں وہ اگلے چار برسوں کے لئے وزیراعظم رہ سکتے ہیں۔ حکومت کا پہلا برس مکمل ہوجانے پر البتہ وہ ایک جامع تجزیے کے مستحق ضرور ہیں، جس میں خامیوں، خوبیوں، کیا کھویا، کیا پایا. ان سب کا جائزہ لیا جا سکے۔ افسوس کہ عمران خان کے حوالے سے منصفانہ تنقید کم ہی نظر آئی۔ ان کے پرجوش حامی ہیں جو اپنے کپتان کی ہر غلطی یا پنجابی محاورے کے مطابق بونگی کا دفاع کرتے ہیں۔ مخالفین ایسے جن کے خیال میں خان صاحب مجسم شر ہیں اور ان سے کسی قسم کا اچھا کام سرزد بھی نہیں ہوسکتا۔ ان کے اقتدار میں آنے سے پہلے ہی وہ انہیں ناکام قرار دے چکے۔ یہ البتہ خوش آئند ہے کہ خان صاحب کے حامیوں میں بڑا حلقہ ایسا ہے جو تبدیلی کے نعرے کا جینوئن حامی ہے اور اس نے اپنے لیڈر پر بھی تنقید کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔
پاکستانی سیاسی تاریخ کے چند ایک کردار ایسے ہیں جن کے حوالے سے شدید قسم کی تقسیم پائی جاتی ہے۔ پولرائزیشن ایسی کہ ایک حلقہ محبوب گردانتا تو دوسرا گردن زدنی قرار دیتا ہے۔ بھٹو صاحب پہلے ایسے لیڈر تھے، جنہوں نے قوم کو اس بڑے پیمانے پر تقسیم کیا۔ لاکھوں ان کے شیدائی تو اتنے یا کچھ زیادہ نفرت کی حد تک ناپسند کرتے تھے۔ آج بھی پرو بھٹو، اینٹی بھٹو کی تقسیم کسی نہ کسی حد تک موجود ہے۔ اگرچہ جناب زرداری کے طرز سیاست نے پرو بھٹو فیکٹر کو بڑی حد تک تحلیل کر دیا۔ میاں نواز شریف کے حوالے سے بھی سیاسی تقسیم موجود ہے۔ فرق یہ کہ میاں صاحب کی جماعت کا ووٹ بینک خاصا بڑا، مگر ان کی پرسنل فین فالوئنگ نسبتاً کم ہے۔
عمران خان بھی ایک ایسی ہی شخصیت ہیں۔ عمران خان کے حوالے سے پیدا ہونے والی سیاسی تقسیم زیادہ شدید اور گہری ہے۔ 2013ء کے الیکشن کے بعداس میں شدت آئی۔ اس سے پہلے عمران خان کے مخالف بھی اس کے حوالے سے کچھ نہ کچھ حسن ظن رکھتے تھے۔ اصغرخان کی طرح بہت سے لوگوں کی عمران کے بارے میں رائے اچھی تھی، مگر انہیں لگتا تھا کہ پاکستان کے معروضی سیاسی حالات میں خان صاحب الیکشن جیت کر اقتدار میں نہیں آ سکتے۔ مئی تیرہ کے انتخابات میں البتہ صورتحال مختلف تھی، اس وقت تبدیلی کے نعرے نے ایسی کشش اور قوت پیدا کی کہ اگر الیکشن ڈے پر تحریک انصاف کی پرفارمنس اچھی ہوتی تو نتائج مختلف ہوسکتے تھے۔ ایک سال بعد عمران خان نے اپنا دھرنا دیا، وہ کئی مہینوں تک روزانہ شام کو کنٹیر پر کھڑے ہو کر دھواں دھار تقریر کرتے رہے، تمام چینل اسے براہ راست دکھاتے۔ عمران خان اور ان کے حامی ممکن ہے اتفاق نہ کریں، مگر ہمارے خیال میں ان تقریروں نے خان صاحب کو فائدے کے بجائے سیاسی نقصان زیادہ پہنچایا۔ وہ اپنے معتدل حامیوں سے محروم ہوگئے۔ اس کے بعد انہوں نے پانامہ کیس کے حوالے سے جو موقف اپنایا، وہ اپنی جگہ درست تھا، مگر بعد کے دنوں میں عمران خان نے وہی پاور پالیٹیکس کی جو ایک زمانے میں میاں نواز شریف کرتے رہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے روایتی اثرورسوخ سے خان صاحب بھی اسی طرح فیض یاب ہوئے، جیسا ماضی میں ان کے بڑے مخالف میاں صاحب ہوئے تھے۔ چلیں یہ سب پاکستانی سیاست میں کوئی نئی یا اچنبھے کی بات نہیں۔ جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کا بننا، اس کا تحریک انصاف میں شامل ہونا، کچھ اور جگہوں پر جوڑ توڑ کا انہیں فائدہ پہنچنا (ناپسندیدہ ہونے کے باوجود) یہ سب ہمارے ہاں چلتا ہے۔ اصل اعتراض اقتدار میں آنے کے بعد عمران خان کی کمزور ٹیم اور ناقص گورننس پر پیدا ہوا۔
عمران خان کے لئے مجبوری یہ بھی ہے کہ انہوں نے بڑی تبدیلی لانے کے وعدے پر ووٹ لئے۔ ان سے پہلے کسی اور حکمران پرتوقعات کا اتنا زیادہ بوجھ اور عوامی دبائو نہیں تھا۔ عمران خان کی جیت ہی نظام تبدیل کرنے کے نعرے پر ہوئی۔ کرپٹ عناصر کے احتساب، لوٹی دولت واپس لانے اور گڈ گورننس کے نعروں نے پڑھے لکھے اربن مڈل کلاس ووٹرز کے ساتھ دیہی ووٹرز کو بھی متاثر کیا۔ تحریک انصاف نے اپنی مہم میں ایک سادہ جملہ بڑی ہنرمندی سے استعمال کیا، الیکشن کے دنوں میں بہت جگہوں پر یہی فقرہ سنا، "انہیں دس سال حکومت کا موقعہ ملا، اس بار عمران خان کو موقعہ دے کر دیکھ لیتے ہیں۔ "بات سادہ اور عوامی شعور کے مطابق تھی۔ یہ سوچ بھی کارفرما تھی کہ خان اتنی باتیں کر رہا ہے، موقعہ دیا جائے، ممکن ہے یہ کچھ کر دکھائے۔
میں اس تاثر سے اتفاق نہیں کرتاکہ عمران خان کو جتوایا گیا اور یہ سلیکٹیڈ وزیراعظم ہے۔ یہ درست ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے براہ راست ٹکرو الی جو صورتحال ن لیگ نے پیدا کر دی تھی، اس کا فائدہ تحریک انصاف نے اٹھایا۔ کچھ مدد اسے ملی ہوگی، مگر بنیادی طور پر عمران کی کامیابی اس کے پچھلے الیکشن کی پرفارمنس کا تسلسل ہی ہے۔ 2013 ء میں عمران خان نے ستر لاکھ کے قریب ووٹ لئے۔ اس وقت ان کے پاس الیکشن مشینری نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ بہت سی جگہوں پر پولنگ ایجنٹ تک وہ نہیں دے سکتے تھے۔ ٹکٹ دینے میں بہت غلطیاں اور کوتاہیاں ہوئیں، کئی جیتی ہوئی نشستیں ہار دی گئیں۔ اگر بہتر منصوبہ بندی کی جاتی تو شائد ستر کے بجائے نوے پچانوے لاکھ ووٹ مل جاتے۔ 2018کے انتخابات میں عمران خان کو تین، چار ایڈوانٹیج ملے۔ الیکٹ ایبلز کی خاصی تعداد ان کے ساتھ شامل ہوگئی۔ خاص کر جنوبی پنجاب میں ان تگڑے امیدواروں کے شخصی اثرورسوخ کا فائدہ پہنچا۔ دوسرا پانامہ کے بعد میاں نواز شریف کی غیر دانشمندانہ ٹکرائو کی پالیسی نے ان کے لئے مسائل پیدا کئے۔ شہباز شریف اور چودھری نثارعلی مفاہمت کی اس لئے بھی تجویز دیتے رہے کہ پنجاب کے روایتی سیاسی کلچر میں اسٹیبلشمنٹ سے ٹکرانے والے لیڈر یا پارٹی کے لئے جیتنا ممکن نہیں ہوتا۔ سوئنگ ووٹرز جو آخری دن فیصلہ کرتے ہیں، ان کی بڑی تعداد اقتدار میں آنے والی ممکنہ پارٹی کے امیدوار کو ترجیح دیتی ہے۔ تحریک انصاف کو تیسرا فائدہ خیبر پختون خوا میں ملا۔ وہاں ان کی صوبائی حکومت نے پولیس، تعلیم، صحت وغیرہ کے حوالے سے کچھ اچھا کام کیا تھا۔ اگرچہ بعد میں پشاور بی آر ٹی جیسی سنگین حماقت بھی کی گئی، مگر اس کے باوجود ووٹرز کا حسن ظن موجود تھا۔ پھر وہاں دیگر جماعتوں نے سیاسی کمزوری دکھائی۔ اے این پی اپنے آپ کو ووٹروں کے لئے پرکشش نہ بنا سکی۔ ایم ایم اے کا تجربہ ناکام ہوا۔ جے یوآئی اور جماعت اسلامی دونوں کو اس سے نقصان ہی پہنچا۔ مولانا فضل الرحمن اوور کانفیڈنس کا شکار ہو کر اپنی دونوں سیٹیں ہار گئے، انہوں نے کئی جگہوں پر جلسے تک نہ کئے اور زیادہ زور اپنے بیٹے کی مہم پر لگایا، وہ جیت گیا اور مولانا خود باہر ہوگئے۔ سیاسی حریفوں کی کمزوری کا فائدہ تحریک انصاف کے وہاں سویپ کی شکل میں نکلا۔ چوتھا ایڈوانٹیج تحریک انصاف کو کراچی میں ملا۔ وہاں پر ایم کیو ایم پاکستان کو دھڑے بندی اور باہمی چپقلش سے شدید نقصان پہنچا۔ پیپلزپارٹی نے شہر کا بیڑا غرق کر رکھا تھا، ن لیگ اپنا وجود ہی کھو بیٹھی تھی۔ ایم ایم اے کا ووٹر کنفیوز تھا۔ یوں کراچی کے ووٹرز نے پی ٹی آئی کو ووٹ دیا اور محاورتاً نہیں بلکہ حقیقتاً ان کے کھمبے بھی جیت گئے۔
یہ سب وہ فیکٹرز ہیں جو قابل فہم ہیں۔ مجھے کبھی اس سوال کا جواب نہیں ملا کہ کیسی سلیکشن ہے جس میں خواجہ آصف اور رانا ثنااللہ جیسے سخت اینٹی اسٹیبلشمنٹ لوگ چند سو ووٹ لے کر جیت جاتے ہیں۔ کیا اسٹیبلشمنٹ ایک ہزار ووٹوں کا فرق بھی نہیں ڈلوا سکتی؟ن لیگ اپنے تمام مضبوط حلقوں میں جیتی۔ اس کی اصل طاقت سنٹرل پنجاب ہے، وہاں صرف فیصل آباد کا اپ سیٹ ہوا، وہ بھی چودھری شیرعلی اور رانا ثنااللہ گروپ کی چپقلش کے باعث قابل فہم اور قابل توجیہہ ہے۔ ورنہ لاہور میں ن لیگ کو اکثریت ملی، شیخوپورہ اور قصور میں لیگی چھائے رہے، گوجرانوالہ، سیالکوٹ، ناروال میں تو انہوں نے جھاڑو پھیر دی، اوکاڑہ میں فاتح رہے، سرگودھا میں بھی سویپ کر گئے۔ ن لیگ صرف وہاں ہاری جہاں کمزور تھی۔ تحریک انصاف وہاں جیتی جہاں اس کے پاس الیکٹ ایبلز تھے یا جہاں ن لیگ خلا پر نہ کر سکی تھی۔
وجوہات اور فیکٹرزبہرحال جو بھی رہے، تحریک انصاف اقتدار میں آگئی۔ عمران خان وزیراعظم بن گئے، سب سے بڑے صوبے میں بھی ان کی حکومت بن گئی۔ سوال اب یہی ہے کہ اپنے پہلے سال میں انہوں نے کیا پرفارم کیا؟ کیا وہ مکمل طور پر ناکام ہوگئے یا ابھی ان سے کسی قسم کی امید وابستہ رکھی جا سکتی ہے؟ ایک کالم میں اس سوال کا جواب نہیں دیا جا سکتا۔ آج کی نشست تو تمہید کی نذر ہوگئی۔ اگلے کالم میں ان شااللہ اس موضوع پر مزید بات کریں گے۔