مسلم لیگ ن کے صدر اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف ایک بار پھر سے فعال ہوئے ہیں۔ ان کے ملک سے باہر جانے کی کوشش تو تحریک انصاف کی حکومت نے بھرپور کوشش کر کے ناکام بنا دی یا کم از کم التوا میں ضرورڈال دی، مگر شہباز شریف کی تھیوری یا ڈاکٹرائن نے بہت سوں کی توجہ حاصل کر لی ہے۔ سیاسی مبصرین اس پر سوچ رہے ہیں کہ کیا شہباز شریف اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھا پائیں گے یا ایک بار پھر بڑے بھائی کے آگے ان کی کچھ نہیں چل سکے گی۔ ایجنڈے کو چھپانے کی زحمت ہی نہیں کی گئی۔ شہباز شریف نے اپنے ٹی وی انٹرویوز میں کھل کر باتیں کی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ باہر جا کر میاں نواز شریف کی منت ترلا کر کے انہیں مفاہمت کے لئے رضامند کریں گے۔ اصل الفاظ تھے میاں صاحب کے پائوں پکڑ کر منائوں گا۔ شہباز شریف نے پی ڈی ایم کے جلسوں سے میاں نواز شریف کے شعلہ بار بیانات کا دفاع اور اس کا عذر بھی پیش کیا۔ انٹرویوکااہم ترین نکتہ یہی تھا کہ ماضی کو بھول کر آگے بڑھنا چاہیے۔
شہباز شریف صاحب کا پلان بظاہر یہی لگ رہا ہے کہ باہر جا کر میاں نوازشریف کو اپنا جارحانہ رویہ ترک کرنے اور کچھ عرصے کے لئے خاموش رہنے پر رضامند کیا جائے، ظاہر ہے اس کے منطقی نتیجے میں مریم بی بی کی شعلہ فشانی پر بھی قدغن لگے گی۔ ممکن ہے کسی مناسب وقت پر وہ قانونی تقاضے پورے کر کے باہر بھی چلی جائیں۔ مسلم لیگ ن کی جارحانہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ پالیسی جب تبدیل ہوگی تو امکانات ہیں کہ انہیں قومی سیاسی منظرنامے میں کچھ مزید سپیس اور سہولت ملے۔ اس کے ساتھ اصل نکتہ یہ ہے اگلے الیکشن میں اسٹیبلشمنٹ غیرجانبدار رہ کر مسلم لیگ ن کو ہدف نہ بنائے اور اسے لیول پلیئنگ فیلڈ ملے۔ مسلم لیگ ن کے بیشتر لیڈروں کی طرح شہباز شریف کا بھی یہی خیال لگ رہا ہے کہ اگر اسٹیبلشمنٹ تحریک انصاف کو سپورٹ نہ کرے تو عمران خان الیکشن نہیں جیت سکتے۔ شہباز شریف اور ان کے ہم خیال لیڈروں کے خیال میں اگر ن لیگ کوانتخابی میدان میں کھیلنے کا مساوی موقعہ ملا تو وہ تحریک انصاف سے بہت بہتر کارکردگی دکھا سکتے ہیں۔ شہباز شریف ڈاکٹرائن ہے ہی یہی کہ مقتدرقوتوں کے ساتھ براہ راست ٹکرائو سے گریز کرتے ہوئے افہام وتفہیم کے ساتھ معاملات آگے بڑھائے جائیں اور کبھی دو قدم پیچھے ہٹ، کبھی دائیں بائیں ہو کر، ضرورت پڑنے پر دو قدم آگے بڑھ کرتخت وتاج حاصل کرنے کی سیاست کی جائے۔
اگلے روز معروف صحافی طلعت حسین نے ایک نیوز ویب سائٹ پر اپنے کالم میں شہباز شریف کی ڈاکٹرائن پر دو وجوہ سے تنقید کی ہے۔ طلعت کے خیال میں شہباز شریف چونکہ پچھلے تین برسوں میں زیادہ متاثر ہوئے ہیں، ان کے بچوں کے کاروباربھی ادھر ہے، اس لئے وہ زیادہ" متاثر" ہوئے ہیں۔ اس لئے شہباز شریف کا بڑے بھائی کی ہارڈ ہٹنگ پالیسی پر تنقید کی اصل وجہ اپنے لئے ریلیف حاصل کرنا ہے۔ طلعت حسین کے الفاظ تھے، "شہباز شریف مفاہمت کی بات اپنی ذاتی سیاست اورکاروبار کے زاویے سے کرتے ہیں۔ وہ بے شک اپنی پالیسی کے عمومی فائدے گنواتے رہیں لیکن یہ واضح ہے کہ وہ ہاتھ ملا کر اپنے لئے سہولت مہیا کروانا چاہ رہے ہیں۔" طلعت نے ایک دلچسپ نکتہ پیش کیا ہے کہ شہباز شریف پر مقدمات ان کے بھائی کے بیانات کی وجہ سے نہیں قائم ہوئے بلکہ ان کا تعلق پنجاب میں شہباز شریف کی سابق حکومت کے منصوبوں اور ان کے خاندان کے کاروبار سے ہے، اگر نواز شریف چپ سادھ لیتے تب بھی شہباز شریف اور ان کے خاندان کے گر د مقدمات بننے ہی تھے۔
اس دوسرے نکتے کے حق میں بعض اورصحافی بھی دلائل دیتے ہیں۔ ایک حلقہ ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ شہباز شریف کے خلاف منی لانڈرنگ اور بعض دیگر مقدمات کے ٹھوس ثبوت موجود ہیں اور گھیرا تنگ ہو رہا ہے، شائد اسی وجہ سے شہباز شریف مفاہمت چاہتے ہیں تاکہ شکنجے سے بچ سکیں۔ ظاہر ہے شہباز شریف کے حامی کیمپ اس الزام سے اتفاق نہیں کرتے۔ بعض غیر جانبدار مبصرین کے خیال میں بھی صورتحال اتنی سادہ نہیں اور حکومت کے پاس ایسے کاریگر موجود نہیں جو اپنی قانونی مہارت اور تجربے کی بنیاد پر یہ سزائیں دلوا سکیں۔
ویسے طلعت حسین کا پہلا الزام درست نہیں۔ شہباز شریف اور ان کا خاندان یقینی طور پر دبائو میں ہے، مگر مفاہمانہ طرز عمل اور طاقت کے مراکز کے ساتھ بنا کر رکھنے کی ان کی سوچ نئی نہیں۔ یہ شہباز شریف کا پرانا نظریہ اور سٹائل ہے۔ مسلم لیگ ن پر سب سے مشکل اور سخت وقت جنرل مشرف کی وجہ سے آیا۔ شریف خاندان اقتدار سے محروم ہوا، پہلے کچھ عرصہ جیل کاٹنا پڑی اور پھر جلاوطنی ہوئی۔ میاں نواز شریف کی جنرل مشرف کے لئے نفرت اور بیزاری قابل فہم تھی۔ وہ ڈکٹیٹر سے مفاہمت کے حق میں نہیں تھے اور نہ اپنی جماعت کو بطور کنگز پارٹی استعمال کرانا چاہتے تھے۔ جنرل مشرف نے ایک سے زیادہ بار کوشش کی کہ مسلم لیگ ن کو پیپلزپارٹی کی ممکنہ جیت کا خوف دکھا کر استعمال کیا جائے۔ مبینہ طو ر پر جنرل مشرف شہباز شریف کو قبول کرنے کے لئے تیار تھا۔ مسلم لیگ کے لئے ہمدردی رکھنے والے ایک بزرگ ایڈیٹر کو سعودی عرب بھیجنے کے لئے آمادہ کیا گیا۔ وہ گئے، مذاکرات بھی ہوئے، مگر میاں نواز شریف کی وجہ سے بات آگے نہ بڑھ پائی۔ تب کہا جاتا تھا کہ شہباز شریف صاحب عملیت پسندی کا مظاہرہ کرنے کے لئے تیار تھے، مگر اپنے والد اور بڑے بھائی کے احترام میں وہ ایسا نہ کر پائے۔ اس کے بعد بھی مجموعی طور پر شہباز شریف کی پالیسی ہمیشہ مفاہمت والی رہی۔ وہ اور چودھری نثار علی خان دونوں کی کوشش رہی کہ" ایک ہی صفحے "پر ہونے والی سوچ کبھی نہ چھوڑی جائے۔
گیند پہلے بھی میاں نواز شریف کی کورٹ میں تھی، اب پھر انہوں نے ہی فیصلہ کرنا ہے۔ کیا وہ کچھ عرصہ کے لئے پیچھے ہٹ کر خاموش رہنا پسند کریں گے؟ میاں نواز شریف ماضی میں کئی بار ایسا کر چکے ہیں، مگر لگتا ہے طاقت کے مراکز کے ساتھ ٹکرائو ان کا مقسوم بن چکا ہے یا کوئی نفسیاتی بیریر ایسا ہے جو ہمیشہ رکاوٹ بنا، ہر بار ٹکرائو ہو ہی گیا۔ میاں نواز شریف کے لئے ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ان کا سیاسی ورثہ اور اموشنل بینک اکائونٹ ان کی صاحبزادی کی طر ف جائے گا جو اپنے والد سے کئی گنا زیادہ سخت اور غیر لچک دار ہیں۔ مریم بی بی کے گرد بھی مسلم لیگ کے عقاب (Hawks) جمع ہیں یا وہ لوگ جو ان کی ہاں میں ہاں ملا کر خوشنودی حاصل کرنے کے متمنی ہوتے ہیں۔ نواز شریف کے فیصلے میں مریم بی بی کے سیاسی مستقبل کے حوالے سے سوچ بھی کارفرما ہوگی۔ اہم سوال یہ ہے کہ اگر میاں نواز شریف نے اپنی جارحانہ پالیسی ترک کرنے سے انکار کیا، ایسی صورت میں شہباز شریف کیا کریں گے؟
مسلم لیگ ن کے بارے میں روایتی طور پر دو باتیں کہی جاتی ہیں، پہلی یہ کہ پارٹی کے اصل قائد نواز شریف ہیں، ووٹ بینک ان کا ہے اور کارکن بھی ان کے گرد ہی دیکھتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ شہباز شریف کبھی اپنے طور پر سیاست نہیں کریں گے، وہ اپنے بڑے بھائی کا احترام کرتے اور اختلاف کے باوجود ان کے پیچھے چلنا ہی مناسب سمجھتے ہیں اور وہ کبھی الگ سیاست کا ڈول نہیں ڈالیں گے۔ ایسے لوگ یہ خیال ظاہر کرتے ہیں کہ شہباز شریف اچھے ایڈمنسٹریٹر تو ہوسکتے ہیں، مگر وہ لیڈر میٹریل نہیں اور کارکنوں کے دل جیتنے کا ہنر نہیں جانتے۔
اس بار ایک دو چیزیں مختلف ہیں۔ پہلی بار شہباز شریف کی سیاست پر ان کے والدین کے سائے موجود نہیں۔ وہ اپنے والد اور پھر والدہ کا بے حد احترام کرتے رہے اور کبھی ان کے کسی حکم کی سرتابی نہیں کی۔ یہ دونوں بزرگ دنیا میں نہیں رہے۔ یوں ان پراخلاقی دبائو اور قدغن نہیں رہی۔ دوسرا اب صرف شہباز شریف کا معاملہ نہیں بلکہ یہ شریف خاندان کی دوسری نسل کی سیاست کا فیصلہ کن مرحلہ ہے۔ مریم نواز شریف اور حمزہ شہباز شریف کی صورت میں دو نہایت مختلف سوچ اور طرزعمل کے حامل امیدوار موجود ہیں۔ شہباز شریف کے کسی فیصلے کا صرف ان پر اثر نہیں پڑے گابلکہ بیٹا بھی یقینی طور پر متاثر ہوگا۔ یہ وہ فیکٹرز ہیں جو پہلے موجود نہیں تھے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ن لیگی اراکین اسمبلی کا بڑا حلقہ بھی مفاہمت کے حق میں ہے کہ ایسی صورت میں ان کے لئے الیکشن لڑنا اور جتینا آسان ہوجائے گا۔
صورتحال الجھی ہوئی ہے، حتمی طو رپر کچھ کہنا آسان نہیں۔ انگریزی محاورے کے مطابق کئی اِف اینڈ بٹس(if and buts)موجود ہیں۔ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ اگر مفاہمت کی بساط بچھائی گئی تو دوسری طرف سے کیا اور کس حد تک قابل اعتماد پیش کش ہوگی؟ بہرحال نتیجہ جو بھی نکلے، پہلی بار عمران خان کی حکومت پریشان اور خوفزدہ نظر آئی ہے۔ شہباز شریف ڈاکٹرائن نے خان صاحب کومتفکرکر دیا۔ نواز شریف کے بیانات کے برعکس شہباز شریف کی مفاہمت انہیں اپنی حکومت اور سیاسی مستقبل کے لئے زیادہ خطرناک لگ رہی ہے۔