Let It Be
Amir Khakwani117
لیٹ اٹ بی (Let It Be)شہرہ آفاق انگلش راک میوزک بینڈ بیٹلز کا بہت مشہور اور آخری سٹوڈیو البم کا نام ہے، بیٹلز کا گایا ہوا یہ گیت بھی بہت مشہور ہوا۔ بیٹلز(Beatles)بذات خود ایک حیران کن راک بینڈ تھا، ایک زمانے میں اس نے پوری دنیا میں تہلکہ مچا دیا تھا۔ بیٹلز کے گیت دنیا بھر میں سنے جاتے، نوجوان نسل میں انہیں سننے کا کریز تھا۔ 1960 کا سال تھا، انگلینڈ کے شہر لیور پول میں چارنوجوانوں جان لینن، جار ج ہیریسن، جارج میکارٹنی، رنگو سٹارنے بیٹلز کی بنیاد ڈالی۔ جلد ہی یہ انگلینڈ کا مقبول ترین بینڈ ہوگیا، امریکہ جانے پر انہیںبے پناہ پزیرائی ملی۔ ان کے البم کروڑوں کی تعداد میں فروخت ہوتے رہے، دنیا کے نمبر ون میوزک بینڈ کا درجہ ملا۔ بے شمار ایوارڈملے، جن میں لیٹ اِٹ بی نامی فلم کے لئے اوریجنل گیت گانے پر آسکر ایوارڈ بھی شامل تھا۔ بیٹلز کے گیت اپنی مزاحمتی شاعری، نئے لب ولہجے اور گائیگی کے منفرد انداز کی وجہ سے مقبول ہوئے۔ بیٹلز کے ہیئر سٹائل، انداز گائیگی، رقص اور اس زمانے کے حساب سے رجحان ساز شاعری سمیت ان کی ہر ادا کو لاکھوں، کروڑوں لوگ کاپی کیا کرتے تھے۔ اس بے پناہ مقبولیت کو شائد کسی کی نظر کھا گئی۔ صرف چند ہی برسوں بعد 1970ء میں بیٹلز کا گروپ ٹوٹ گیا۔ جان لینن کے ویت نام جنگ کے خلاف لکھے، گائے گیت بہت مقبول ہوئے، نکسن حکومت جان لینن کی دشمن ہو گئی تھی۔ بیٹلز یا جان لینن آج کا موضوع نہیں، لکھنا سیاست پر ہی تھا، مگر بیٹلز کا یہ گیت لیٹ اِ ٹ بی ایک زندہ استعارے کے طور پر بار بار میرے سامنے آ جاتا۔ یہ جدید ٹیکنالوجی کا کمال ہے کہ ہم اپنے سے پہلے والے بہت سے اہم واقعات کو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں۔ بیٹلز جب ختم ہوا، اس وقت یہ خاکسار ابھی پیدا بھی نہیں ہوا تھا۔ بیٹلز کا کریز، ان کے گانوں پر فریفتہ دنیا، جنونی کیفیت … ان سب کے بارے میں پڑھا اور سنا۔ یہ گیت بہت بعد میں سنے۔ ہم لوئر مڈل کلاس اردو میڈیم والوں کا انگریزی موسیقی سے کیا تعلق؟ ہم تو پٹھانے خان کی کافیاں سنتے، عطااللہ عیسیٰ خیلوی، منصور ملنگی، مستانہ پروانہ کے گائے میٹھے سرائیکی گیت سنتے بڑے ہوئے۔ بھلا وقت تھا، پی ٹی وی نے ہمیں ملک کے نامور لوک گلوکاروں سے متعارف کرا دیا۔ عابدہ پروین کے زماں ومکاں پر چھا جانے والے صوفی سُر، الن فقیر کی شوریدگی، سلیمان شاہ کا نعرہ سرمست "پیر او جہیڑا فیض ڈیوے، فیض بِناں او پیر ہی کیا"، عالم لوہار کی جگنی، طفیل نیازی کی تان جبکہ مختلف پشتو، بلوچ، بروہی گلوکاروں کے منفرد گیت، شاعری سمجھ نہ آنے پر بھی ان کے سچے سُر اور بلند آہنگ آوازیں سحر میں گرفتار کر لیتے۔ پھر شازیہ خشک اپنے" میڈا رانجھڑا "والے گیت اور منفرد انداز کے ساتھ آئیں، نئی نسل کے مختلف فوک سنگرز آئے، اپنے اپنے انداز میں ہر ایک نے اپنا جادو چلایا۔ ایک زمانے میں پی ٹی وی سنہری آوازیا اس سے ملتے جلتے نام سے ساٹھ، ستر کے عشرے کے فلمی گیت سنواتا۔ خود پاکستانی ٹیلی ویژن کے ریکارڈ کرائے گئے کئی شاہکار گیت اسی زمانے میں سنے اور معلوم ہوا کہ خوبصورت آواز ہوتی کیا ہے۔ اقبال بانو نے فیض کی نظم دشت تنہائی کو جس طرح گایا، اسے امر کر دیا، مگر اقبال بانو کے جس گیت نے ہمیشہ سحرزدہ کئے رکھا، وہ فیض ہی کاگیت " دیکھیں گے، ہم دیکھیں گے "ہے۔ امید کا ایسا سدا بہار، لہلاتا ہوا پیغام اس میں موجود ہے جو گرتے حوصلوں کی فصیل کو مضبوط کر دے۔ بھارتی نڈر صحافی اور ادیبہ اروندھتی رائے نے چند سال پہلے نکسل گوریلوں کے ساتھ چند دن گزارے، اس کی دلچسپ تفصیل اروندھتی رائے نے بعد میں لکھی۔ وہ کہتی ہیں کہ نکسل باغیوں کے کیمپ میں ایک ٹیپ ریکارڈ ر پر اقبال بانو کا یہی گیت بلند آواز میں سنا جا رہاتھا۔ مسلم مذہبی، تہذیبی استعاروں سے معمور اس گیت نے زبان بخوبی نہ جاننے کے باوجودکمیونسٹ جنگجوئوں کو مسحورکر دیا۔ بات لمبی ہوگئی۔ ناسٹلجیا کچھ عجیب شے ہے، پرانی کسی بات کو سوچیں تو یادوں کی مالا چلی آ تی ہے۔ ایک سے جڑی دوسری بات، ڈرامے سے فلم، کتاب سے شاعری، ناول اور ایک فقرے سے دوسرے تک ایسا سلسلہ جڑا ہے، جس کے سائے تلے میری نسل کی حسین یادیں سانس لیتی ہیں۔ ذکرہو رہا تھا کہ ہم اردو میڈیم والے انگریزی لٹریچر سے تو چلیں کسی نہ کسی طور جڑ گئے۔ اس میں سب رنگ جیسے جریدے نے بھی اپنا حصہ ڈالا، جس نے دنیا ئے مغرب کی بہت سی بہترین کہانیاں اردو میں ترجمہ کر کے ہمیں ان کے جادو سے روشنا س کرایا۔ آہستہ آہستہ تھوڑا بہت اوریجنل انگریزی مواد پڑھنے کا بھی موقعہ ملا۔ انگریزی موسیقی اور ریکارڈز کی طرف بہت بعد میں توجہ ہوئی۔ ابھی کچھ زیادہ نہیں سنا، مگر یہ بہرحال اندازہ ہوا کہ موسیقی کا تناظر وسیع کرنے کے لئے دنیا کی بہترین آوازیں، اور شاہکار دھنیں سننی چاہئیں۔ آج یہ بہت آسان بھی ہوگیا۔ یوٹیوب تو خیر خزانہ ہے ہی، بہت سی اور بھی ویب سائٹس ہیں، جہاں سے مفت یہ سب کچھ ڈائون لوڈ کیا جا سکتا ہے، جی چاہے تو براہ راست سنتے رہیں۔ نوجوان چاہیں تو انگریزی اور دنیا کی دیگر زبانوں کے مشہور گیت، ان کی اوریجنل شاعری اور ترجمے سمیت سن سکتے ہیں۔ موزارت کی وہ سمفنی جنہوں نے دنیا کو سحرزدہ کر رکھا ہے، اسے کیوں نہ سنا جائے۔ امریکی، برطانوی گیت نگاروں کے لکھے بہترین گیت، خوبصورت آوازوں کے ساتھ سنیں اور ان میں پوشیدہ بے پناہ قوت کا ادراک کریں، جس نے امریکہ اور یورپ میں مختلف تحریکوں کو جنم دیا یا مہمیز لگائی۔ بیٹلز اور ان کے بہت سے گیت ساٹھ کے عشرے کے فکری رجحانات پر بھی اثرانداز ہوئے۔ بے شمار لوگوں کے سوچنے اور زندگی جینے کا انداز ہی بدل گیا۔ وہ پہلے جیسے نہ رہے۔ بیٹلز کا یہ گیت جس پر آج کے کالم کا عنوان رکھاہے، اسے ضرور سننے کی کوشش کریں۔ ، کیسے میٹھے، سریلے، فسوں خیز انداز میں یہ گایا گیا۔ کالم سیاست پر لکھنے کا ارادہ تھا، مگر کسی سرکش گھوڑے کی طرح خیال لگام چھڑا کر دوسری سمت میں سرپٹ بھاگ نکلا، اسے پکڑتے، قابو کرتے کالم کی سپیس ختم ہونے کو ہے۔ موسیقی، گائیگی کی خوبصورت باتوں کے بعد سیاست کی دلدلی وادی میں اترنا اچھا تو نہیں لگ رہا، مگر کیا کریں، سیاست ہمارے ہاں ہر محفل، ہر بحث میں آ ٹپکتی ہے، اسے کسی نہ کسی طرح، کچھ نہ کچھ ڈیل تو کرنا ہی پڑتا ہے۔ بیٹلز کا یہ گیت سنتے ہوئے آج کل جو حالات چل رہے ہیں، ہنگامے برپا ہیں، وہ یاد آ گئے۔ لیٹ اِٹ بی کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ ہو جانے دو، (Leave the situation alone as it is)، یعنی مداخلت نہ کی جائے، اسے اپنے حال پر چھوڑ دو، پنجابی محاورے کے مطابق جو کٹا، کَٹینکلتا ہے، نکل آئے۔ اس وقت ملک میں احتساب کا جو عمل چل رہا ہے، اس کے حوالے سے یہی سمجھ میں آتا ہے کہ اسے ایک بار منطقی نتیجہ تک پہنچا دیا جائے۔ برسو ں سے ہم لوگ احتساب، کرپٹ عناصر کو کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔ افسوس کہ کسی نے کچھ نہ کیا۔ اربوں، کھربوں روپے ملک سے لوٹ کر بیرون ملک جائیداد بنائی جاتی رہی، کارروائی کرنا تو درکنار کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ آج اگر شومئی قسمت سے ان تمام بدنام زمانہ افراد کا احتساب ہو رہا ہے، فیک بینک اکائونٹس کے ذریعے اربوں روپے باہر بھیجنے تحقیقات ہورہی ہیں، زردار ی صاحب جو اس ملک میں کرپشن کا سب سے مشہور اوربدنام استعارہ بن چکے تھے، انہیں اور ان کی ہمشیرہ محترمہ کو گرفتار کیا گیا ہے۔ میاں نواز شریف آخرکار کرپشن کی سزا میں جیل کاٹ رہے ہیں۔ شہباز شریف اور ان کے "کاروباری جینئس" صاحبزادوں کے گرد گھیرا تنگ ہوچکا ہے۔ فراڈ پکڑے جا رہے ہیں، ان الزامات میں کارروائی کی جارہی اور اگر عدالتوں میں یہ ثابت ہوگئے تو انہیں قید وبند کی سزا سے واسطہ پڑے گا۔ ایسے میں ہر اس شخص کو خوش ہونا چاہیے جو ملک سے کرپشن کا خاتمہ چاہتا ہے، جو کرپٹ لوگوں کو سزا دینے کا حامی رہا۔ عین ممکن ہے کہ ان الزامات میں سے بعض ثابت نہ ہوسکیں۔ کرپشن کرنے والے اربوں کماتے تو کروڑوں اسے محفوظ بنانے پر بھی خرچ کرتے رہے۔ کچھ نہ کچھ تو ثابت ہو ہی جائے گا۔ وہ بھی کم تو نہیں۔ کرپشن کے خلاف بات کرنے پر ہمیں یہ سننا پڑتا ہے کہ ثابت کچھ نہیں ہوا۔ سزائیں ملیں تو پھراس فتنہ ساز دلیل کا خاتمہ تو ہوجائے گا۔ فرض کر لیں کہ نیب پر یک طرفہ احتساب کا الزام درست ہے، پی ٹی آئی میں شامل ہونے والوں کا احتساب نہیںہو رہا، تب بھی یہ بہرحال حقیقت ہے کہ جن کا احتساب ہو رہا ہے، وہ پچھلے دس برسوں سے متواتر اقتدار میں تھے۔ منطقی طور پر ان کا احتساب پہلے ہونا چاہیے۔ ہمیں پی ٹی آئی کے کرپٹ عناصر سے بھی کوئی ہمدردی نہیں۔ نیب انہیں بھی پکڑے۔ بچ بھی نکلے تو کچھ عرصے بعدان شااللہ گرفت میں آ جائیں گے۔ تحریک انصاف نے اپنے سے پہلی والی حکومتوں کا احتساب کیا۔ تحریک انصاف کے بعد آنے والے ان کا احتساب کر لیں گے۔ عوام کچھ انتظار کر لیں گے، پریشانی کی بات نہیں۔ آج مگر پچھلوں کا احتساب ہوجانے دیں۔ اس عمل کے ساتھ کھڑا رہنے کی ضرورت ہے۔ اسے ہوجانے دیں۔ Let it be۔