Tuesday, 05 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Maafi Kon Mangay?

Maafi Kon Mangay?

آج کل ہر جگہ سیاسی بحثیں اور مکالمہ چل رہا ہے۔ کوشش کرتا ہوں کہ اتوار والا کالم غیر سیاسی لکھا جائے، مگر جب چاروں طرف دھواں دھار تقریریں، بیانیہ چل رہا ہو، تب آنکھیں بند کر کے کیسے لکھا جا سکتا ہے؟ اس لئے اس اتوار کی تو معذرت۔ آئندہ سے کوشش ہوگی کہ سنڈے والا" زنگار" سیاست سے ہٹ کرہلکا پھلکا، کتابوں یا زندگی کے مختلف پہلوئوں پر لکھا جائے۔

عمران خان کی حکومت کو ایک سال سے زائد عرصہ ہوگیا۔ خان صاحب کی کارکردگی سب کے سامنے ہیں۔ ان کے پرجوش حامیوں کے پاس بھی کچھ زیادہ دکھانے کو نہیں۔ عمران خان کے ساتھ اصل ہاتھ یہ ہوا کہ ان کی ناتجربہ کاری، بری ٹیم اور ان سب کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بیڈ گورننس کے باعث ان کے اپنے حامی مایوس ہوئے ہیں۔ جن لکھنے والوں یا تجزیہ کاروں نے پچھلے دو تین برسوں میں یا اس سے پہلے عمران خان کو سپورٹ کیا، ایک ایک کر کے وہ سب مایوس یا دلبرداشتہ ہوتے جا رہے ہیں۔ ان میں سے بعض نے بلند آہنگ لہجے میں یہ بات کہہ بھی ڈالی۔ ایک دو نے تو باقاعدہ طور پر اپنے قارئین یا ناظرین سے معافی طلب کر لی کہ ہم نے اپنی تحریروں، تجزیوں میں عمران خان کو سپورٹ کیا، وہ غلط فیصلہ تھا، اس لئے معذرت قبول کی جائے۔ حسن نثار صاحب نے اپنے مخصوص جارحانہ انداز میں یہ بات پہلے اپنے ٹی وی پروگرام میں کہی، پھریہ بات شائد لکھ بھی ڈالی۔ جناب ہارون الرشیدجن کی فسوں خیز نثر کا میں زمانہ طالب علمی سے مداح ہوں، انہوں نے بھی اس سے ملتی جلتی بات لکھی۔ ہارون صاحب کو اگرچہ یہ بات کہنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ وہ پانچ چھ سال پہلے ہی عمران خان سے مایوس ہوگئے تھے۔ 2013ء کے انتخابات میں خان صاحب نے جب متعدد نشستوں پر ٹکٹوں کے غلط فیصلے کئے، خاص کر گجرخان اور ملتان وغیرہ کی بعض نشستوں پر اہل امیدواروں کی جگہ نااہل، کمزور امیدواروں کو ٹکٹیں دی گئیں۔ ہارون صاحب نے عمران خان کی غلطیوں پر سخت تنقید کی۔ اس کے بعد سے وہ عمران خان کی غیر مشروط حمایت نہیں کرتے رہے۔ ہارون صاحب کو ویسے یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ جب عمران خان سیاسی طور پر کچھ بھی نہیں تھے، ایک نشست بھی وہ نہ جیت پائے، ان دنوں سے ہارون صاحب عمران خان کے لئے لکھ رہے تھے، دس پندرہ سال تک انہوں نے یہ کام نبھایا۔ ظاہر ہے وہ پوری دیانت داری سے یہ سمجھتے ہوں گے، مگراپنی اس تنقید میں بھی وہ عمران خان کے کمزور پہلوئوں کو نظرانداز نہیں کرتے تھے۔ انہوں نے بہت بار لکھا کہ کپتان مردم شناس نہیں، سیاست کی اسے سمجھ بوجھ ویسی نہیں، نالائق مشیروں میں گھرا رہتا ہے، اہم مواقع پر غلط فیصلے کئے وغیرہ وغیرہ۔ تحریک انصاف کے عامر کیانی، صداقت عباسی وغیرہ پر تو ہارون صاحب نے درجنوں بار تنقید کی۔ تحریک انصاف کی حکومت میں عمران خان کی شخصی کمزوریاں زیادہ نمایاں ہوئیں، ان کی بری ٹیم نے مایوس کیا تو ہارون الرشید کی تنقید میں زیادہ شدت آ جانا فطری امر ہے۔ اس تنقید کا مگرپس منظر اور تسلسل بہرحال موجود ہے۔

مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا پر ن لیگ کے بعض پرجوش حامی اب کہنا شروع ہوگئے ہیں کہ عمران خان کی حمایت کرنے والوں کو قوم سے معافی مانگنی چاہیے۔ بات بڑی سادہ ہے۔ لکھنے والے ہوں یا نیوز ٹاک شو کرنے والا کوئی اینکر، مختلف ایشوز پر وہ اپنی پوزیشن لیتے ہیں، رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے ان کے لئے واحد شرط دیانت داری اور انصاف کی ہونی چاہیے۔ جس نے جو بھی رائے دی، وہ پوری دیانت داری کے ساتھ، بغیر کسی مفاد کے دی جائے۔ سیاسی تجزیے یا آرا غلط بھی ہوتے ہیں اور درست بھی نکلتے ہیں۔ یہ تو ممکن نہیں کہ کسی کا کوئی تجزیہ ہمیشہ ہی درست نکلے۔ دلوں کے حال خدا جانتا ہے، غیب کا علم بھی اسی کے پاس ہے۔ ہم سب تو ظواہر دیکھ کر اپنی رائے دیتے اور فیصلہ سناتے ہیں۔ سیدنا عمرؓ سے ایسے ہی کسی مسئلے پر کسی نے یہ نکتہ اٹھایا تو آپ ؓ نے فرمایا کہ جس عظیم ہستی پر وحی نازل ہوتی تھی، وہ دنیا سے رخصت ہوگئے ہیں، ہم تو ظواہر کو دیکھ کر ہی فیصلہ کر سکتے ہیں۔ یہ نہایت خوبصورت بات ہے۔ ہمارے آئمہ نے بھی اپنی دانش اور دیانت کے مطابق فیصلے کئے۔ صرف فقہی آرا کی بات نہیں کر رہا، بلکہ عام زندگی میں سپورٹ کے حوالے سے یہ بات کہی۔ جناب امام ابوحنیفہ ؒ نے عباسی خلیفہ منصور کے خلاف خروج میں بنو ہاشم کی ایک ممتاز شخصیت حضرت نفس زکیہ کی حمایت کی بلکہ ان کے لئے مال بھجوایا۔ مولانا مناظر احسن گیلانی نے امام اعظم پر اپنی کتاب میں اس پر کئی صفحات لکھے اور بتایا کہ یہ ایک طرح سے امام کی اس جنگ میں عملی شمولیت تھی۔ جناب نفس زکیہ کو شکست ہوئی، ابوجعفر منصور فاتح ہوا، مدد کا وہ فیصلہ مگر غلط نہیں تھا۔ اسی طرح بنو امیہ، بنو عباس اور اس کے بہت بعد میں ہماری جدید تاریخ میں بھی مختلف اہل علم، اہل قلم اپنی دانست کے مطابق بہترآپشن کے حق میں لکھتے رہے۔ بہت بار وہ درست نکلی، کبھی غلط بھی ہو گئی۔ یہ تو ایک فطری امر ہے۔

اس حوالے سے تین نکات اہم ہیں۔ پہلا یہ کہ کسی مالی مفاد یا طمع کے بغیر کسی کی حمایت، مخالفت کا فیصلہ کیا جائے۔ صرف اپنے ضمیر کی روشنی میں ایسا ہو۔ دوسراجب آپ کسی کی حمایت کر رہے ہوں، تب بھی انصاف کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹنے پائے۔ ایسا نہ ہو کہ مخالف کے کسی کام پر تنقید کی جائے اور وہی کام آپ کا ممدوح کہے تو پھر خاموشی کی چادر اوڑھ لی جائے۔ یہ ناانصافی ہے۔ جس کی حمایت کر رہے ہوں، اس کے ظلم میں بھی حصہ دار نہ بنیں۔ تیسرا یہ کہ آپ نے کسی کو سپورٹ کیا، وہ بعد میں توقعات پر پورا نہ اترا، اس کا طرز عمل درست نہیں تھا۔ تب آپ پر فرض ہے کہ کھل کر اس پر تنقید کریں۔ صرف اس لئے خاموش نہ رہیں کہ ماضی میں حمایت کی تھی، اب تنقید کیسے کروں یا پھر یہ کہ اس تنقید سے اس کے مخالفین کو فائدہ پہنچے گا۔ جو بھی ہو، یہ آپ کا درد سر نہیں۔ جو غلط ہے، وہ غلط ہے۔ اسے غلط کہیں، تنقید کریں، مخالفت کریں۔ جب غلط طرز عمل برقرار رہے تو پھر اپنی حمایت مکمل طور پر واپس لے کر الگ ہوجائیں اور پھر اس پر تنقید کر کے اپنا حق ادا کریں۔

جس کسی نے ایسا کیا۔ اعتدال، انصاف اور دیانت داری کا تقاضا نہ بھلایا۔ سچ اور حق بات کہی۔ ایک فریق کی حمایت کی، وہ توقعات پر پورا نہ اترا تو منافقت کا مظاہر ہ کرنے کے بجائے کھل کر اس پر تنقید کی اور غلطیوں سے بریت کا اعلان کیا۔ ایسا شخص تعریف، ستائش کا حقدار ہے۔ اسے تو نظروں کا گداز ملنا چاہیے۔

معافی البتہ ان لوگوں کو ضرور مانگنی چاہیے جو پچھلے تین عشروں سے ملک کے کرپٹ، ظالم، بدبو دار، استحصالی ٹولے کے پشتیبان ہیں۔ اس کی سپورٹ کر رہے، اس کا مقدمہ لڑتے اور دفاع کی کوشش کرتے ہیں۔ جن کی آنکھوں کے سامنے نوٹوں کی بوریاں بانٹی جاتی ہیں، بے شمار پلاٹ، نوکریاں بٹتی رہیں، ایک پورا سیاسی مافیا تشکیل دیا گیا۔ سیاستدان نے گاڈ فادر کی شکل اختیار کر لی۔ اس پر تنقید کرنے، مخالفت یا علیحدہ ہونے کے بجائے وہ لوگ اس مافیا کا حصہ بنے رہے۔ ایسے لوگوں کو یقینا اپنے ڈھٹائی، بے شرمی اور بے اصولی پر نہ صرف قوم بلکہ اپنے گھر والوں، اپنے آپ سے معافی مانگنی چاہیے۔ حیرت ان پر ہے کہ جو آج بھی لٹیروں کی وکالت کر رہے ہیں۔ جو اس فضول جملے پر یقین رکھیں کہ ملک کا مسئلہ کرپشن نہیں، جو یہ کہیں کہ اگر" وہ" کھاتے ہیں تو کیا ہوا، لگاتے بھی ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اس کرپٹ سسٹم کی تشکیل میں حصہ ڈالا، جسے آج بدلنا ناممکن لگ رہا ہے۔ ایسا طاقتور، خوفناک جڑیں رکھنے والا سیاسی مافیا بنا، ریاستی ادارے بھی جسے اکھاڑنے میں مشکل محسوس کر رہے ہیں۔ اس عفریت، خونی مونسٹر کو بنانے والے ضرور معافی مانگیں۔

جنہوں نے مفادات کے اس سمندر میں خوب ڈبکیاں لگائیں، اپنی اگلی سات نسلوں تک کے لیے وسائل پیدا کر لئے، ان سے تو خیر کیا معافی کی توقع رکھی جائے۔ وہ تو اس غم میں دبلے ہوئے جا رہے ہیں کہ ان کی دیہاڑیاں بند ہوگئیں۔ البتہ جو لوگ دیانت داری کا دعویٰ کرتے ہیں، اس کے باوجود کرپٹ، لٹیروں کے ٹولے کی حمایت کر رہے،۔ ان سب کو ہمت کر کے، اخلاقی جرات کا مظاہرہ کر کے قوم سے معافی مانگنی چاہیے۔ جو لوگ تبدیلی کے عمل کے حامی رہے، دیانت داری سے انہوں نے ہمیشہ اس بدبودار، گندے، گلے سڑے نظام میں تبدیلی کا ایجنڈا رکھنے والوں کو سپورٹ کیا۔ مثبت تبدیلی، خیر کی قوتوں کے مددگار بنے۔ اپنی آدھی زندگیاں صحافت میں گزارنے کے باوجود اپنے اور اپنے بیوی بچوں کے لئے اتناکچھ نہ بنا سکے کہ بقیہ زندگی آرام سے گزار سکیں، غم روزگار میں پریشاں نہ ہوں۔ ایسے لوگوں سے معافی کا مطالبہ کرنے والوں کو خوداپنے گریباں میں جھانکنا چاہیے۔ اپنے گاڈ فادرزکی حمایت ضرور کریں، مگر ایسا کرتے ہوئے کچھ تو خیال رکھ لیں۔