نوبیل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی کی چند سال پہلے آنے والی بائیو گرافی "آئی ایم ملالہ " نے ہلچل مچائی تھی، اس پر بہت کچھ لکھا گیا۔ تنقید میں زیادہ اور توصیف میں قدرے کم۔ بدقسمتی سے زیادہ تر نے کتاب پڑھے بغیر صرف میڈیا میں آنے والے اس کے اقتباسات پڑھ کر لکھا۔ یوں کتاب کی تنقید اور تعریف میں لکھے گئے مضامین ازخود یک رخے ہوگئے۔ ہم اردو میڈیم لکھنے والوں کا مسئلہ یہ ہے کہ اردو کتابوں میں تو چلو کچھ دال دلیہ کر لیتے ہیں، انگریزی کتابیں پڑھنے کی رفتار کوشش کے باوجود زیادہ تیز نہیں ہوپاتی۔ اس کے لئے بہت زیادہ مشق کی ضرورت ہے۔
اب ایک بار پھر سے ملالہ یوسف زئی کے مشہورمغربی فیشن اینڈ لائف سٹائل میگزین ووگ(Vogue)میں دئیے گئے انٹرویو کی بازگشت پاکستانی اور عالمی میڈیا کے ساتھ سوشل میڈیا پر بھی سنائی دے رہی ہے۔ اس کا حال بھی پہلے جیسا ہے کہ اکثر لوگوں نے پڑھے بغیر ہی بحث چھیڑ رکھی ہے۔ ووگ بہت مشہور فیشن میگزین ہے، سوا سو سال سے یہ شائع ہورہا ہے اور اس میگزین میں کسی شخصیت کا انٹرویو یا اس پر مضمون شائع ہونا اہم بات سمجھی جاتی ہے۔ ووگ کے ٹائٹل پر عام طور سے مشہورو معروف حسین ماڈلز، ایکٹریسز اور سیلبریٹیز کو چھاپا جاتا ہے۔ کرکٹ کی دنیا میں مشہور برطانوی کرکٹ میگزین وزڈن کے ٹائٹل پر آنا بڑا اعزاز سمجھا جاتا تھا، آج کل بھی وزڈن کی جانب سے سال کے بہترین کھلاڑی کے طور پر جس کانام آئے، وہ خود کو خوش نصیب سمجھتا ہے۔ اسی طرح ووگ کے ٹائٹل پر کسی خاتون سیلبریٹی کا آنا اس کا اعزاز اور کامیابی تصور ہوتی ہے۔ ملالہ یوسف زئی ووگ (یوکے) کے جولائی2021 کے شمارہ کے ٹائٹل پر آئی ہیں۔ یہ جریدہ چارجون یعنی آج سے برطانیہ میں سٹالز پر دستیاب ہوگا، مگر اس کے مندرجات شائد ای میگزین فارمیٹ کی وجہ سے ہر طرف گردش کر رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ووگ میگزین کی ٹارگٹ آڈینس بیس سے چالیس سال کی خواتین ہیں، خاص کر جو خوبصورت اور کامیاب ہیں اور جو فیشن اور سٹائل کی دنیا کے تازہ ترین رجحانات سے باخبر رہنا چاہتی ہوں۔
ملالہ یوسف زئی کے انٹرویو کے مندرجات گزشتہ رات وقت لگا کر پڑھے، مقصد یہی تھا کہ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی سنسنی خیز سرخیوں کے بجائے اصل مواد تمام تر سیاق وسباق کے ساتھ پڑھا جائے۔ خاکسار کو یہ خاصا طویل انٹرویو پڑھنے کا موقعہ ملا بلکہ ووگ ہی میں چھپنے والی ایک دو پرانی سائیڈ سٹوریز بھی پڑھ ڈالیں۔ ملالہ یوسف زئی نے غالبا دو سال پہلے آکسفورڈ یونیورسٹی میں اپنا ایک سال مکمل ہونے پر تاثرات ووگ کے نمائندے سے شیئر کئے تھے۔ ملالہ یوسف زئی کے والد ضیا الدین یوسف زئی کا ایک ٹویٹ سوشل میڈیا میں گردش کر رہا ہے، جس میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ ملالہ نے کوئی متنازع بات نہیں کی، صحافی نے اسے سیاق وسباق کے بغیر شائع کیا۔ ووگ کا انٹرویو پڑھنے کے بعد نہایت آسانی سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ جناب ضیا یوسف زئی کی بات درست نہیں۔ انہوں نے اپنی صاحبزادی کی کہی نہایت متنازع بات کو کمزور دفاع کرنے کی کوشش کی۔ جو فقرہ سوشل میڈیا پر گردش کر رہا ہے، وہ اپنے سیاق وسباق کی روشنی میں وہی ہے جو بیان کیا گیا۔ بات بڑی واضح اور غیر مبہم ہے، اس کا دفاع کرنے کے بجائے اس پر معذرت کر لینی چاہیے تھی یا یہ کہ ان کی بیٹی درست لفظوں کا انتخاب نہیں کر پائی یا یہ اس نے لڑکیوں کی مخصوص شوخی اور لاابالی پن سے یہ کہا۔ مسئلہ مگر یہ ہے کہ اس سے ملالہ کی اس دیوقامت شخصیت کا امیج متاثر ہوتا ہے، جسے محترم ضیا الدین صاحب نے بڑے جتن سے بنایا تھا۔
ملالہ کے اس متنازع جملے پر بات کرنے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ ہم ملالہ یوسف زئی کی شخصیت کے حوالے سے اپنا تاثر اور رائے واضح کر لیں۔ میرے نزدیک ملالہ یوسف ایک نہایت خوش نصیب لڑکی ہے، جسے دنیا میں وہ کچھ ملا جس کے لئے اس نے محنت نہیں کی تھی، اس کی توقعات، خوابوں سے ہزاروں گنا زیادہ اسے ملا ہے۔ مغربی دنیا میں ملالہ یوسف زئی کا امیج ایک ایسی لڑکی کا ہے جس نے بچیوں کی تعلیم کے لئے جدوجہد کی اور اسے طالبان نے اس لئے گولی ماری کیونکہ وہ سوات میں بچیوں کی تعلیم کے لئے لڑ رہی تھی۔ ملالہ کو دنیا کے اہم ترین ایوارڈز ملے بلکہ اس پر اعزازات کی بارش ہوگئی، اسے نوبیل انعام بھی مل گیا۔ انجلینا جولی جیسی نامور اداکارہ نے ملالہ پر نیوز ویک میگزین میں کالم لکھا اور بقول انجلینا جولی اس نے اپنے بچوں کو ملالہ کی کہانی سنائی تھی۔
یہ کہانی ملالہ یوسف زئی نے اپنی کتاب میں بڑے ڈرامائی انداز میں بیان کی۔ اصل قصہ مگر مختصر، سادہ اور چند سطروں پر مشتمل ہے۔ ملالہ کی گل مکئی کے قلمی نام سے چند ڈائریاں بی بی سی اردو میں شائع ہوئیں۔ اس لئے کہ بی بی سی کے صحافی ملالہ کے والد کے دوست تھے۔ سوات میں ٹی ٹی پی کے فضل اللہ گروپ کا زور تھا، انہوں نے بچیوں کے سکول بند کر دئیے تھے۔ بی بی سی نے ایک سیریز چھاپی جس میں ایک بچی اپنے سکول بند ہونے کے المیہ کو سادہ الفاظ میں بیان کر رہی ہے۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ ڈائری ملالہ نے نہیں بلکہ بی بی سی کے اس صحافی نے لکھی تھی۔ میں اس سے اتفاق نہیں کرتا، اس میں بعض خیالات ایسے ہیں جو کسی بارہ تیرہ سالہ بچی کے ذہن کی پیداوار ہیں۔ بچے، بچیاں اپنے مخصوص انداز میں چیزوں کو دیکھتے اور سمجھتے ہیں۔ الحمد للہ چار بچوں کا والد ہونے کے ناتے مجھے اس کا اندازہ ہے۔ میرا خیال ہے کہ گل مکئی کی ڈائری ملالہ کی تخلیق ہی تھی، اسے سنوارنے کا کام بعد میں کیا جاتا ہوگا جو کہ فطری بات ہے۔
خیر آرمی نے سوات میں آپریشن کر کے ملا فضل اللہ گروپ کو جڑوں سے اکھاڑ پھینکا۔ حالات نارمل ہوئے تو گل مکئی کا اصل نام سامنے آیا۔ عسکری قیادت اورحکومت کو ٹی ٹی پی کے خلاف سافٹ امیج کی ضرورت تھی، ملالہ نے وہ خلا پر کیا۔ ملالہ کو حکومتی سطح پر ایوارڈ ملے، ان کی خاصی تشہیر ہوئی، میڈیا نے بھی کوریج دی۔ بہت خوب۔ ملالہ کو اس کا حق ملا۔ اس کے بعد ملالہ کا کردار ختم ہوگیا تھا۔ وہ اپنی سکول کی تعلیم میں مگن ہوگئی۔ تین سال بیت گئے۔ سوات میں مکمل امن قائم ہوگیا۔ تب سوات میں کوئی سکول بند نہیں تھا، کسی قسم کا جبر نہیں تھا بلکہ نام نہاد پاکستانی طالبان وہاں سے مکمل طور پر پسپا ہوگئے تھے۔ اگر یہی حالات رہتے تو دو تین سال کے بعد ملالہ میٹرک کر لیتی، پھر سوات یا پشاور وغیرہ میں کسی کالج میں داخلہ لے کر حسب توفیق تعلیم حاصل کر تی۔
تب اصل ڈرامہ ہوا۔ ٹی ٹی پی اپنی پسپائی پر برہم تھی۔ وہ سوات میں دوبارہ انٹری چاہتے تھے، انہیں کسی دھماکہ دار خبر، اخبار کی لیڈ کی ضرورت تھی۔ انہوں نے ملالہ یوسف زئی کو نشانہ بنانے کا سوچا۔ ملالہ کوہدف بنانا عسکری قیادت کو پیغام دینا بھی تھا کہ ہم نے آپ کی پروردہ بچی کو اڑا دیا ہے۔ ملالہ پر سکول سے واپسی پر حملہ کیا گیا۔ خوش قسمتی سے طالبان کا نیٹ ورک اتنا کمزورہو چکا تھا کہ حملہ آور ملالہ کو شکل سے بھی نہیں جانتا تھا، اس کے پاس کلاشن کوف بھی نہیں تھی۔ پستول سے فائرنگ کی گئی، ملالہ شدید زخمی ہوئی۔ گولی سر میں لگی۔ ملالہ کو خوش قسمتی سے فوری طبی امداد ملی۔ فوجی قیادت کی دلچسپی سے اس کا بہترین ہنگامی علاج ہوا۔ ملالہ کوچونکہ طالبان نے نشانہ بنایا تھا، اس لئے افغانستان میں طالبان سے نبرد آزما مغربی افواج کے لئے وہ اچانک اہم ہوگئی۔ برطانیہ نے ملالہ اور اس کی پوری فیملی کو بلا کر اس کا مکمل علاج کرایا اور پھر وہیں برمنگم ہی میں انہیں رہائش دے دی گئی۔
ملالہ چونکہ ایک بچی/لڑکی تھی، اسے خواتین کی تعلیم کے مخالف طالبان(ٹی ٹی پی)نے نشانہ بنایا، وہ مرتے مرتے بچی، ملالہ اس سے پہلے بچیوں کی تعلیم کے حق میں لکھ چکی تھی، اس کی تحریریں بی بی سی میں شائع ہوئیں، اس کے والد ایک سیکولر غیر مذہبی پشتون تھے، ملالہ خود فیمنزم کی علامت بن سکتی تھی۔ یہ سب فیکٹر اکٹھے ہوئے اور ملالہ عالمی شہرت یافتہ کردار بن گئی۔ چند ماہ میں وہ سب کچھ مل گیا، جس کے لئے لوگ عمر بھر جدوجہد کرتے ہیں۔ ملالہ نے گولی لگنے سے پہلے خواتین کی تعلیم کے لئے کسی بھی قسم کی عملی جدوجہد نہیں کی نہ وہ اپنی کم عمری کے باعث کر سکتی تھی۔ وہ ایک عام سکول کی طالبہ کی زندگی بسر کر رہی تھی۔ ٹی ٹی پی کے سفاکانہ حملے نے اس کی زندگی اور تقدیر بدل دی۔ اسے خوش قسمتی بلکہ معجز آفریں خوش بختی نہ کہیں تو اور کیا کہیں؟
یہ نہ سوچیں کہ میں ملالہ کے خلاف لکھ رہا ہوں۔ اس سب میں ملالہ کا کوئی قصور نہیں۔ کسی کو بھی اتنی شہرت، عزت، مقبولیت ملے تو وہ اسے خوش دلی سے قبول کرے گا۔ خاص کر جب اس پر قاتلانہ حملہ ہوا اور اس کی جان جاتے جاتے بچی ہو۔ ملالہ کے متنازع انٹرویو پر بات رہ گئی، اس پر اگلی نشست رکھ لیتے ہیں۔