Wednesday, 30 October 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Mamla Tehreek e Insaf Par Pabandi Lagwane Ka

Mamla Tehreek e Insaf Par Pabandi Lagwane Ka

حکمران جماعت ن لیگ کی اپنی مصلحتیں، سیاسی مجبوریاں ہوں گی، مگر یہ نظر آرہا ہے کہ ان کی مشاورت کا دائرہ کار محدود ہے یا پھر وہ اپنی جماعت کے تجربہ کار سیاسی لوگوں کو فیصلہ سازی سے باہر رکھے ہوئے ہیں۔ پے درپے سیاسی غلطیاں حکومت نے کی ہیں، ان کا فائدہ ظاہر ہے اپوزیشن جماعت تحریک انصاف کو ہو رہا ہے۔

انہی غلطیوں میں سے ایک بڑی غلطی تحریک انصاف کے خلاف پابندی لگوانے کے لئے سپریم کورٹ میں ریفرنس بھیجنا ہوگا۔ ابھی تک یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ ایسا کرنے کا فیصلہ کیوں کیا گیا؟ حکومتی قانونی ٹیم نے یہ اندازہ کیسے لگایا کہ اس وقت ایسی موو ثمربار ثابت ہوگی؟ یہ کام اگر کرنا تھا تو پچھلے سال نو مئی کے بعد کیا جاتا۔ آج اس کا کیا جواز اور دلیل ہے؟

آگے بڑھنے سے پہلے وفاقی وزیراطلاعات عطا تارڑ کی پیر کی سہہ پہر پریس کانفرنس پر ایک نظر ڈال لیتے ہیں۔ عطاتارڑ نے تین اعلانات کئے اور ان کے جواز میں بعض دلائل پیش کئے۔ عطا تارڈ کے دلائل یہ تھے: "اگر ملک نے ترقی کرنی ہے تو پاکستان تحریک انصاف اور ملک ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ پاکستان تحریکِ انصاف کو فارن فنڈنگ کی گئی، جس میں انڈین اور اسرائیلی فنڈنگ شامل ہے۔ ان معاملات میں ملوث تمام افراد کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی اور پاسپورٹ ضبط کرنے سمیت سخت اقدامات کیے جائیں۔ یہ (پی ٹی آئی) کچھ بھی کریں، ملک کے خلاف سازش کریں، فارن فنڈنگ لیں، بیرون ملک لابنگ کریں، فرمز ہائی کریں، پاکستان کے خلاف قراردادیں پاس کروائیں، سائفر کا ڈرامہ رچائیں، نو مئی کے حملے کریں، ملک کو ڈیفالٹ کرنے کی کوشش کریں، اس کے باوجود ایسا تاثر دیا جاتا ہے کہ انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے"۔

عطا تارڑ کا کہنا تھا، " پی ٹی آئی دور میں سابق ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے تحریک عدم اعتماد کو مسترد کرکے آئین کی خلاف ورزی کی تھی اور اب حکومت نے فیصلہ کیا ہے سابق صدر عارف علوی، بانی پی ٹی آئی عمران خان اور سابق ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کے خلاف آرٹیکل چھ کا کیس چلایا جائے۔ ان تینوں اشخاص کے خلاف وفاقی کابینہ سے منظوری کے بعد یہ ریفرنس سپریم کورٹ کو بھجوایا جائے گا"۔

وزیراطلاعات ہمیشہ حکومت کے ترجمان سمجھے جاتے ہیں۔ ان کے بیان کے بعد حکومت کایہ مقدمہ سامنے آتا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف ایک "ملک دشمن "جماعت ہے جس اسرائیل، انڈیا وغیرہ سے فارن فنڈنگ بھی ملی اور وہ ملک دشمن بیانیہ پروموٹ کرتی ہے اور یوں ملکی ترقی اور تحریک انصاف دونوں کا ایک ساتھ چلنا ممکن نہیں۔ انہوں نے عمران خان، عارف علوی اور قاسم سوری کے خلاف آرٹیکل سکس کے تحت کارروائی کا عندیہ ظاہر کیا اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظرثانی اپیل دائر کرنے کا بھی بتایا۔ ان تینوں نکات کو الگ الگ دیکھ لیتے ہیں۔

پہلے نظرثانی اپیل کہ یہ سب سے زیادہ آسان اور قابل فہم معاملہ ہے۔ مخصوص نشستوں کے معاملے پر تیرہ رکنی فل کورٹ سماعت ہوئی، آٹھ ججز کا وہ فیصلہ ہے جو سب کے سامنے ہے، چیف جسٹس سمیت جمال مندوخیل کا فیصلہ بھی تحریک انصاف کو پارلیمانی جماعت تسلیم کرنے اور متناسب نمائندگی کی بنیاد پر انہیں مخصوص نشستیں دینے کا ہے، تاہم انہوں نے یہ ذمہ داری الیکشن کمیشن کے ذمے لگائی۔ ایک جج یحییٰ آفریدی نے بھی آٹھ ججوں والے بعض نکات سے اتفاق کئے، مگر انہوں نے تحریک انصاف اور سنی اتحاد کونسل دونوں کو مخصوص نشستیں دینے کا کہا۔ دو ججز نے البتہ پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ عملاً برقرار رکھا۔

حکومتی ٹیم کے فاضل قانون دانوں سے پوچھنا چاہیے کہ اب اس معاملے پر کون سا ایسا نیا آئینی نکتہ سامنے آیا ہے جس سے آپ کو یہ امید پیدا ہوئی ہے کہ نظرثانی فیصلہ مختلف ہوجائے گا؟ جو باتیں وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ اور مختلف حکومتی ترجمان کہہ رہے ہیں، وہ سب سماعت کے دوران زیربحث لائی جا چکی ہیں، اٹارنی جنرل اور الیکشن کمیشن کے وکلا نے تفصیل سے اپنا مقدمہ پیش کیا۔ سپریم کورٹ کے ججوں کی واضح اکثریت نے البتہ اس سے اتفاق نہیں۔ نظرثانی اپیل میں بھی وہی فیصلہ دہرایا جائے گا، بلکہ ممکن ہے کہ ایک آدھ جج ان آٹھ رکنی ججوں کے فیصلے سے اتفاق کر لے۔ یہ ایک بیکار اور لاحاصل مشق لگ رہی ہے۔

تحریک انصاف پر پابندی کا مطالبہ اور سپریم کورٹ میں ریفرنس بھیجنے والی بات زیادہ مشکل، ناممکن حد تک کٹھن اور ناقابل فہم ہے۔ اس وقت تحریک انصاف پر پابندی لگانے کا کیا جواز ہے؟ آٹھ فروری کے الیکشن اور اس میں ملنے والے غیر معمولی عوامی مینڈیٹ کے بعد کوئی ناسمجھ لڑکا بھی یہ مطالبہ نہیں کر سکتا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے حالیہ اکثریتی فیصلے کے پیچھے بھی یہ نکتہ کارفرما تھا کہ عوام کی رائے اور عوامی مینڈیٹ اہم ہے، جس پارٹی کو عوام نے مینڈیٹ دیا، اسے کس طرح پارلیمنٹ سے باہر رکھا جا سکتاہے؟ یہ بات جسٹس اطہر من اللہ نے بار بار کہی اور پھر کئی ججوں نے اس کا حوالہ دیا۔

خود ہی غور کریں کہ وہ جماعت جس سے انتخابی نشان چھینا گیا اور پھر سپریم کورٹ نے متفقہ طور پر یہ تاثر دیا کہ ان کے اس فیصلے کی غلط تشریح کی گئی۔ اس سپریم کورٹ کے اکثریتی بنچ نے واضح مارجن سے تحریک انصاف کو پھر سے پارلیمانی پارٹی بنایا اور عوامی ووٹوں کی مناسبت سے متناسب نمائندگی کے مطابق انہیں مخصوص نشستیں دینے کا کہا ہے۔ اسی سپریم کورٹ سے موجودہ حکومت یہ توقع لگائے بیٹھے ہے کہ وہ آٹھ فروری کے الیکشن میں اتنا بڑا عوامی مینڈیٹ لینے والی سیاسی جماعت پر دو سال پرانی ان کی ایک غلطی کے نتیجے میں پابندی لگا دے گی؟ آخر کیوں؟ ایسی خوش گمانی پر مبنی رائے قائم کرنے کی کوئی منطقی دلیل اور وجہ تو ہونی چاہیے۔

اب آ جائیں آرٹیکل سکس والے معاملے پر۔ قانون جاننے والے احباب جانتے ہیں کہ یہ مشکل ترین معاملہ ہے۔ آئین میں یہ شق اس لئے شامل کی گئی کہ اس کا خوف رہے اور کوئی آئین توڑنے کی جسارت نہ کرے ورنہ یہ اتنا سنگین الزام ہے کہ اسے ثابت کرنا بہت مشکل ہے۔ عطا تارڑ سے پوچھنا چاہیے کہ اب تک کتنے لوگوں کو آرٹیکل سکس کے تحت سز اد ی گئی ہے؟ اب حکومتی ٹیم کس وجہ سے پر امید ہے کہ ایک بڑی اور مقبول پارٹی کے مقبول لیڈر کے خلاف یہ سزا سنائی جائے گی، جو پہلے ہی ایک سال سے جیل میں بند ہے اور عالمی سطح پر اس کے حق میں بڑی توانا آوازیں اٹھ رہی ہیں۔

ویسے بھی قومی اسمبلی توڑنے والا واقعہ سوا دو سال پرانا ہے۔ اس کے بعد پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ گیا۔ نئے الیکشن ہوگئے، نئی پارلیمنٹ بن چکی۔ ایسے میں گڑھے مردے اکھاڑنے کی یہ کوشش کس حد تک موثر ثابت ہوسکتی ہے؟ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس قومی اسمبلی کی تحلیل کے فیصلے کو ریورس کرنے والے بنچ کے بعض جج صاحبان اس آٹھ رکنی اکثریتی بنچ کا حصہ ہیں۔ انہوں نے تب اپنے فیصلے میں ایسا کچھ نہیں کہا تھا جس کی روشنی میں سابق وزیراعظم، سابق صدر، سابق ڈپٹی سپیکر پر غداری کا مقدمہ چلایا جائے۔

نظرثانی اپیل کرنا حکومت کا حق ہے، اس میں کوئی حرج نہیں، البتہ سپریم کورٹ میں ریفرنس بھیجنا اور آرٹیکل سکس لگوانے کی کوشش ایک بڑی غلطی ہوگی۔ حکومت کو چاہیے کہ سیاسی کشیدگی کم کرے اور ملک میں استحکام پیدا کرنے کی کوشش کرے۔ حکومت کو اپنی تمام تر توجہ مسائل کو نمٹانے، عوام مسائل میں کمی اورمجموعی طور پر ڈیلیور کرنے میں لگانی چاہیے۔ مخالف سیاسی جماعتوں پر پابندی جیسی بے سود کوششیں ہمیشہ بیک فائر کرتی ہیں۔ اب بھی وقت ہے، حکمران جماعت میں خواجہ سعد رفیق جیسے معتدل اور جہاندیدہ رہنمائوں کو مداخلت کرکے اس انتہائی قسم کی غلطیوں سے باز رکھنا چاہیے۔